پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
عالم اسلام کی تاریخ میں اندلس کے بعد ہندوستان کا تذکرہ مسلمانوں کیلئے سیاہ باب کی شکل اختیار کرتاجارہاہے ،جس ملک میں مسلمانوں نے آٹھ سو سالوں تک حکمرانی کی ،جنہوں نے ہندوستان کے رقبہ کو وسیع کیا ،جنہوں نے کبھی مذہب کے نام پر سیاست نہیں کی ،جنہوں نے مسجداور مندردونوں کو ایک نظر سے دیکھا، جنہوں نے مذہب اور سیاست میں فاصلہ بنائے رکھا،جنہوں نے حکومت ،اقتدار،طاقت ،فوج او ردولت سمیت سب کچھ ہونے کے باوجود ہندوستان کو مختلف مذاہب کا ملک بنائے رکھا، کسی کے ساتھ مذہب کے نام پر زیادتی اورنا انصافی نہیں کی ،کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا ، کسی کو نعرہ تکبیر لگانے کیلئے نہیں کہا،مکمل طاقت اور اقتدار ہونے کے باوجود کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا آج اسی مذہب کے پیروکاروں سے ہندوستان میں حب الوطنی کی سرٹیفیکٹ مانگی جارہی ہے ،ملک سے ان کی وفاداری کا ٹیسٹ لیا جارہا ہے ،یوم آزادی پر ان کی وطن پرستی کا امتحان لیارجاہے۔
ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگوں نے حکمرانی کی ہے لیکن سب سے طویل دوراقتدار مسلمانوں کارہاہے ،1206 سے لیکر 1857 تک بلاشرکت غیر مسلمان یہاں کے حاکم رہے ہیں،اس سے قبل بھی سندھ اور اطراف کے علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی تھی یوں کہ لیجئے ایک ہزار سال تک اس سرزمین پر مسلمانوں نے حکومت کی ، اس دور میں مسلمانوں کا رعب ودبدبہ تھا، ہندوستان سمیت ایشاء کے اکثر خطے پر مسلمانوں کی حکومت تھی،یورپ اور افریقہ میں بھی مسلمان فتح ونصرت کا علم بلند کرچکے تھے ،ہندوسکھ سبھی ان کے زیر اقتدار تھے ،مسلم حکمرانوں کے پاس ہر طرح کی طاقت تھی ،وہ چاہتے تو طاقت کا استعمال کرکے اسلام کے علاوہ باقی مذاہب کے لوگوں کا نام ونشان مٹاسکتے تھے ،سبھی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرسکتے تھے ، قیصر وکسری جیسی قتل وغارت کی تاریخ وہ یہاں دہرا سکتے تھے ،روم اور فارس جیسی حیوانت کا مظاہرہ کرسکتے تھے، شہر کا شہر تاراج کرسکتے تھے ،انسانی لاشوں کا انبارلگاسکتے تھے اس وقت کوئی عالمی ادارہ بھی نہیں تھا ،انہیں کوئی ٹوکنے والا نہیں تھا اور نہ ہی دنیا کا کوئی اور ملک ان کے اس اقدام کی مخالفت کرسکتا تھا ،لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس سلسلے میں کبھی سوچا بھی نہیں ،اقتدار میں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہندؤوں کو بھی شریک رکھا، انہیں اپنا راز دار بنایا، حکومتی سطح پر کبھی انہوں نے مذہب کی بات نہیں کی ،کبھی مذہب میں مداخلت نہیں کی ، کبھی بھی ہندؤوں کو ان کے عقیدے اور رسم ورواج کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جن شہروں میں ان کا پایہ تخت تھا وہاں بھی انہوں نے ہندؤوں کے مذہب سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی ،کبھی مذہب کے نام پر خوف زدہ نہیں کیا،لیکن آج کے ہندوستان میں مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ،جس کا ملک کا آئین سیکولرزم پر مبنی ہے ،جہاں جمہوریت رائج ہے ،آئینی طور پر جہاں مسلمان سمیت تمام مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہیں اس ملک میں مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دورکرنے اور ہندو مذہب کو اپنانے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔
ہندوستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے ،تمام مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہے ،مکمل مذہبی آزادی ہے ،آئین اور مذہب کے درمیان کہیں پر کوئی ٹکراؤ نہیں ہے لیکن موجودہ سرکا کی مکمل کوشش آئین اور مذہب کو آپس میں ٹکرانے اور مسلمانوں کو ہندوانہ رسم وراج اختیارکرلینے پر مجبور کرنے کی ہے ،بابا بھیم راؤ امبیڈکر کے تشکیل کردہ آئین کے مطابق مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی ملتی ہے ،ایسے میں حکومت باربار وندے ماترم ،جے شری رام اوراس طرح کے نعروں کو ایشو بناکرمسلمانوں کو ان کلمات کے اداکرنے پر مجبور کرتی ہے ، ممکن ہے حکومت آئندہ دنوں میں وندے ماتر او رجے شرم کے الفاظ کو حب الوطنی کیلئے معیار قراردیکر آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کرے گی۔
اسلام اور ہندومت میں سب سے بڑا اور نمایاں فرق یہی ہے کہ اسلام میں شرک کی ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں ہے ،اللہ کے سواکوئی ذات لائق پرستش نہیں ہے ،جبکہ ہندؤوکے یہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ،ان کے یہاں بہت زیادہ وسعت اور گنجائش ہے ،کئی لاکھ ان کے خدا ہیں،ہر نفع بخش شی ان کے عقیدے کے مطابق معبود ہے ، اسی فہرست میں’’ ملک ‘‘بھی شامل ہے جس کی حیثیت ان کے یہاں معبود او رخدا کی ہے ،ہندوستان انہیں کھلاتا ہے ، پلاتاہے ،زندگی کی تمام سہولتیں مہیاکراتاہے اس لئے یہ ملک ان کیلئے خداہے ،بی جے پی کے ترجمان سنبت پاتر ابھی گذشتہ دنوں آج تک کے ایک ڈبیٹ میں یہ اقرار کررہے تھے کہ ہندوستان ہمارا بھگوان ہے ، یہ ہمیں سب کچھ دیتاہے،وندے ماترم پر تنازع بھی اسی قبیل سے ہے ،سنگھ کو معلوم ہے کو مسلمان ایک اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہیں کرسکتے ہیں اور اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود تسلیم کرتے ہیں یا کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں تو ان کا ایمان ختم ہوجائے گا اس لئے وہ وندے ماتر م کو مسلمانوں سے کہلوانے پر مصر ہیں کیوں کہ اس گیت میں ملک کو معبود کہاگیا ہے۔
حب الوطنی اور وطن پرستی کا معیار الفاظ اور نعروں سے طے نہیں ہوتاہے ،بلکہ عمل سے ثابت ہوتاہے کہ کون کتنا بڑا دیش بھگت ہے ،کس نے یش کیلئے کیا قربانیاں دی ہیں،اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے ،ان مسلمانوں نے یہیں جنم لیاہے ،اسی حب الوطنی اور وطن پرستی کے جذبہ نے انہیں بے سروسامانی کے عالم میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبورر کیاتھا ،جب پورا ہندوستان انگریزی اقتدار میں رہنے کا عادی ہوچلاتھا مسلمانو ں اور علماء نے بغاوت کی صور پھونکی تھی ،انگریزی اقتدار کوختم کرنے کیلئے کئی طرح کی تحریک چلائی تھی ،اس کی پاداش میں لاکھوں لوگوں کو تختہ دار پر لٹکنابھی پڑا،انگریزمورخ ٹامسن کے مطابق چاندنی چوک سے جامع مسجد تک ہر درخت پر لاشیں لٹکی ہوئی ملی، برادران وطن بہت بعد میں اس جنگ کا حصہ بنے ،مہاتما گاندھی 1915 میں افریقہ سے واپسی کے بعد جنگ آزاد ی کی مہم میں شریک ہوئے ، ہندومسلم یکجہتی کے لئے سبھوں نے انہیں اپنا لیڈر تسلیم کیا اور اس طرح یہ ہندوستان 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا لیکن 70 سالوں میں مسلمانوں کو اقتدار سے دوررکھنے کے بعدسال رواں انہیں آزادی کی جنگ لڑنے کی سب بڑی سزا یہ ملی کہ جن لوگوں نے غداری کی ،جس تنظیم نے تحریک آزاد ی کی مخالفت کی ،جس نے گاندھی کا قتل کرایا وہی تنظیم آج مسلمانوں سے آزادہندوستان میں ان کی حب الوطنی کا امتحان لے رہی ہے ،ان سے یوم آزادی کی تقریب منعقد کرنے،ترنگالہرانے اور وندے ماترم گانے کا ثبوت مانگ رہی ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com