اپنے گریباں میں بھی جھانک لیتے …

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
تین طلاق سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار بھی کیا جاچکا تھا اور ایک منصوبہ بند طریقہ سے ان میں انتشار بھی پیدا کیا جاچکا تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بقول مولانا ارشد مدنی کے توقع کے عین مطابق ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ شرعی معاملات میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی کے خلاف رسمی طور پر مقابلہ کرتا رہا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ میں سب سے پہلے دڑاڑ شیعہ عالم کلب صادق کے بیان سے پڑگئی جنہوں نے بابری مسجد کے مقدمہ میں کامیابی کے بعد بھی زمین کا حصہ ہندوؤں کو دینے کی تجویز پیش کی۔ شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین نے مغل شہنشاہ بابر کو ڈاکو قرار دیا اور کہا کہ ان کے وزیر میر باقی نے مندروں کے درمیان مسجد تعمیر کرکے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالی۔ وقف بورڈ کے چیرمین نے وہ کام کیا جو تعصب پرست مورخین بھی نہ کرسکے۔ شہنشاہ بابر وہ حکمران ہیں جس نے اپنے ہندو رعایا کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنے بیٹے ہمایوں کو گاؤکشی سے اجتناب کرنے کی وصیت کی تھی۔ بہرحال انگریزوں نے ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی‘ حکومت کی اور انگریزوں کے آلہ کاروں کے آلہ کار کے طور پر اب کچھ عناصر منظر عام پر آنے لگے ہیں۔ جن کا مقصد شیعہ سنی اتحاد کو متاثر کرنا بھی ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔ یہ دراصل ہندوستانی مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش رہی ہوگی۔ ملک کی عدالت عالیہ نے تین طلاق پر جو بھی فیصلہ سنایا اس پر کس حد تک عمل آوری ہوگی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ مگر صبح سے ہی تمام ٹیلی ویژن چیانلس اس مسئلہ پر اس طرح سے مباحث کا اہتمام کرتے رہے گویا اس سے بڑا کوئی اور مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ایسا لگ رہا تھا گویا ہر ٹی وی اینکر کی اپنی جیت ہوئی ہے۔ بعض نام نہاد ٹی وی اینکرس نے تو ’’اس تاریخ ساز فیصلے کا کریڈٹ ان ہستیوں کو دینا چاہا جن کی اپنی بیویاں خود دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں جو شوہر رکھتے ہوئے بھی بیواؤں اور مطلقہ عورتوں سے بدتر زندگی گذاررہی ہیں۔ وہ ہستیاں جو آج خوشی سے سرشار نظر آرہی تھیں‘ ان میں سے بیشتر ایسی بھی تھیں جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ شادی شدہ زندگی کیا ہوتی ہے۔ جس کی بیوی ہی نہیں بھلا اسے بیوی کے حقوق کے بارے میں کیا معلومات ہوسکتی ہیں۔ ایسی ایسی ہستیاں جن کے نام تو مسلمانوں جیسے ضرور ہیں مگر جن کی اپنی نجی زندگی میں اسلام کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں‘ جو بین فرقہ ذاتی شادیاں کرکے ایک ہی گھر میں اپنے اپنے عقائد کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ ٹی وی چیانلس پر بعض روشن خیال خواتین کو پیش کیا گیا جن کا انداز بیان پیشہ ورانہ مقررین جیسا جو اس موضوع پر فراٹے دار تقاریر کررہی تھیں۔ بعض این جی اوز چلانے والی جن میں سے بیشتر مطلقہ ہوں گی جو مسلم خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ جو اپنی زندگی سنوار نہ سکیں جو اپنے گھروں کو بکھرنے سے روکنے میں ناکام رہیں‘ دُم کٹی لومڑیوں کی طرح دوسری خواتین کو بھی آزادی، ترقی، روشن خیالی، مساوی حقوق کے نام پر گمراہ کرتی ہوئیں نظر آئیں۔
طلاق کو مسلم معاشرہ نے کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ طلاق دینے والا ہمیشہ مسلم معاشرہ کی نظروں سے گرا ہوا رہا۔ یہ بھی سچ ہے کہ مطلقہ خواتین میں سے اکثریت بے قصور، بے گناہ ہوتی ہیں‘ اس کے باوجود انہیں بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود طلاق کی مسلم معاشرہ کے ہر طبقہ میں، ہر فرقہ میں ہر دور میں مذمت کی ہے۔ کیوں کہ طلاق سے محض ایک جوڑا علیحدہ نہیں ہوتا‘ ایک خاندان بکھر جاتا ہے اور بعض اوقات پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ طلاق کے واقعات میں حالیہ عرصہ کے دوران اضافہ ہوا ہے جن میں طلاق سے زیادہ خلع کے واقعات ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خلع بیوی کا حق ہے اپنے شوہر سے علیحدہ ہونے کا۔یہ اور بات ہے کہ اس کے لئے بھی شوہر کا تین بار طلاق دلانا ضروری ہے۔ اور اکثر شوہر خلع چاہنے والی بیوی کو برسوں لٹکادیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی نئی زندگی کی شروعات نہیں کرسکتیں۔ مرد طلاق کیوں دیتا ہے اس کے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ عورت خلع کیوں چاہتی ہے اس کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں سمجھوتہ ممکن ہے۔ جس طرح سے نکاح کے وقت گواہ اور افراد خاندان موجود ہوتے ہیں‘ علیحدگی کے وقت بھی ہوں اور ان میں سے کچھ سمجھ دار لوگ افہام و تفہیم کے ذریعہ فریقین کو گلے شکوے بھلاکر ایک نئی زندگی کی شروعات کے لئے آمادہ کرسکتے ہیں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معمولی سی بات پر طیش آجاتا ہے اور طیش میں مرد طلاق دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اور فرمایا کہ غصہ آگ کا ایک ایسا انگارہ ہے جسے شیطان انسان کے دل پر پھینکتا ہے غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پانے والے شخص کی تعریف کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بہادر وہ نہیں جو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے‘‘۔ عموماً شوہر کسی بات پر ناراض ہوتا ہے اسے غصہ آجاتا ہے اگر بیوی اس وقت اپنی زبان کو قابو میں رکھے‘ کچھ دیر کے لئے غصہ سہہ لے تو وہ آنے والے طوفان کو ٹال سکتی ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بیوی کے سوال جواب، چرب زبانی، یا زبان درازی‘ آگ پر تیل کا کام کرتی ہے۔ اور اکثر ایسے موقعوں پر سسرالی رشتہ دار بھی اس آگ کو ہوا دیتے ہیں۔ اگر گھر کے بڑے اس نازک موقع پر شوہر کی حمایت نہ کریں بلکہ اس کے غصہ کو قابو میں لانے کی کوشش کریں تو بہت سارے گھر ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں۔
حالیہ عرصہ کے دوران طلاق سے زیادہ خلع کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم، مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کی خواہش، اور اس سلسلہ میں والدین کی حوصلہ افزائی، اس کی ایک وجہ ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا اصل مقصد یہ ہونا چاہئے کہ یہ لڑکیاں ماں بنیں تو اپنی اولاد کی ا چھی تربیت کرسکیں‘ اپنے گھر کو جنت بنائیں۔ اپنے شوہر کا جو احترام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہیں‘ اس کا لحاظ کریں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم اس مقصد کے تحت دلائی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکے۔ وہ کسی معاملے میں اپنے شوہر کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار نہ ہونے پائیں۔ والدین کی غلط تعلیم و تربیت اکثر و بیشتر خاندانوں کو اُجاڑ دیتی ہے۔
جہاں تک تین طلاق کے مسئلہ کا تعلق ہے یقیناًاسلام میں اسے پسند نہیں کیا گیا حتیٰ کہ اس کی مذمت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین طلاق دینے والے شخص کو کوڑے بھی لگائے۔ سوال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق کیوں دی جاتی ہے۔ وہ حالات‘ جن میں مرد اپنے غصے پر قابو نہیں پاسکتا جیسے اپنے والدین سے بیوی کی زبان درازی، نافرمانی، خود اس کی اپنے ساتھ بے رحمانہ رویہ، یہ پھر اس کی بدکرداری، بے راہ روی۔۔۔ حال ہی میں حیدرآباد میں ایک خاتون کو اس کے آشنا کے ساتھ شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بے چارے شوہر نے اپنی بیوی کو اس کی بدکرداری کے خلاف وارننگ دی، سنبھلنے کا موقع دیا تاہم سنبھلنے کے بجائے بیوی نے شوہر ہی کو ختم کردیا۔ ایسے کئی شوہر مل جائیں گے جنہوں نے اپنے بچوں کی خاطر اپنے بدکردار، بے راہ روی کے شکار بیویوں کو سنبھلنے کا موقع بھی دیا۔ جب پانی حد سے گذر جاتا ہے اور اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا تب ایک ساتھ تین طلاق کے لئے مرد مجبور ہوجاتا ہے۔ ورنہ ایک طلاق دینے کے بعد جو وقفہ دوسرے طلاق کے لئے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اتنے وقفہ میں انسان کا غصہ ختم ہوجاتا ہے اور اکثر و بیشتر خاندان بچھڑنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
عدالتوں میں جب کبھی ہمارے معاملات پیش کئے جاتے ہیں۔ ان کی یکسوئی نہیں ہوتی۔ تین طلاق کے مسئلہ پر عدالت چاہے کوئی بھی فیصلہ دے‘ اس کا شرعی قانون پر تو کوئی اثر نہیں ہوسکتی۔ قانون کے نفاذ کے ذریعہ تین طلاق دینے والے کو سزا ضرور ہوسکتی ہے مگر طلاق ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر قانون جبری طور پر بھی میاں بیوی کو ساتھ رہنے کے لئے مجبور کرے تب بھی دونوں کا رشتہ حرام قرار دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے نجی معاملات جو خالص مذہبی معاملات ہیں‘ اُن کے لئے شعور کی بیداری ہی ضروری ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ علمائے کرام اور مشائخ عظام خود اپنی اپنی دکان چمکانے، ملت کی سوداگری، خود کی تشہیر میں مصروف ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ یقیناًہندوستانی مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے۔ جس میں ہر فرقہ اور مسلک سے تعلق رکھنے والے نمائندے موجود ہیں تاہم ان میں سے بیشتر مسلم نمائندے کم سیاستدان زیادہ ہیں۔ اور بعض نے تو اپنے بیانات قول و فعل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ میں رہنے کے قابل نہیں ہیں‘ کیوں کہ وہ مسلم دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی رسائی نیشنل میڈیا تک نہیں اور نیشنل میڈیا اُن بہروپیوں کو باربار پیش کرتی ہے جن کا تعلق مسلمانوں سے قطعی نہیں۔ منحوس چہروں کے ساتھ مسلم نام والے بعض خواتین اور بہروپئے‘ سستی شہرت کے لئے مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں۔
تین طلاق پر 6ماہ کے لئے پابندی کے فیصلے پر بعض اینکرس کا جوش و خروش دیکھ کر حیرت ہورہی تھی حالانکہ ان میں سے بعض میڈیا اینکرس کا حال یہ ہے کہ انہیں بھارتی ناری بھی نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ ان کا بے باکانہ انداز، ان کا لباس کچھ اور کہتا ہے۔ مسلم خواتین سے آخر اتنی ہمدردی انہیں کیوں ہوگئی ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ کبھی انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ جس دھرم سے ان کا تعلق ہے اُس دھرم میں عورتوں کا کیا حال ہے۔ کیرالا میں آدی واسی عورتوں کا کیا حال ہے۔ ان کا کس طرح سے جنسی استحصال ہوتا ہے۔ یہ حاملہ کردی جاتی ہیں‘ ان کا باپ کون ہوتا ہے پتہ نہیں چلتا۔ ہاں! حکومت انہیں کسی گمنام شخص کی جانب سے عصمت دری کے نام پر دو مرتبہ پچیس پچیس ہزار روپئے معاوضہ ضرور دیتی ہے۔ پالنپور، واڈیا گاؤں میں آدی واسیوں کے 45خاندانوں کے حالات سامنے آئے ہیں۔ آندھراپردیش میں کسی دیوتا کے نام پر لڑکیوں کا بیاہ کردیا جاتا ہے۔ مہاراشٹرا میں کھنڈوبا دیوتا سے نچلی ذات کی لڑکیوں کی شادی کردی جاتی ہے۔ دیوتا تو اپنی جگہ ہوتے ہیں مگر ان کی نگرانی کرنے والے ان دیو داسیوں کے ساتھ جنسی کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ کرناٹک میں قحط، خشک سالی، سیلاب جیسے آفات سماوی سے محفوظ رہنے کیلئے نچلی ذات کی لڑکیوں کو کسی دیوتا کے نام پر وقف کردیا جاتا ہے۔ برنداون کی بیواؤں کے حالات کیا ہیں‘ اُنہیں سدھارنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ پہلے اپنے دامن کے لگے داغوں کو صاف کرو پھر مسلم خواتین کی فکر کرو۔ مسلمانوں میں طلاق کا تناسب سب سے کم ہے۔ سب سے زیادہ ہندو دھرم کے ماننے والوں میں مطلقہ خواتین اور مرد ہیں۔ مسلم عورتوں کو طلاق کے بعد نئی زندگی جینے کا حق اور اختیار ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم خواتین کے حالات سدھارنے والے اپنی بیویوں کے حقوق برسوں سے تلف کرتے رہے ہیں۔
مسلم معاشرہ سے طلاق کی لعنت کو ختم کرنے کی ہر کوشش قابل قدر ہے مگر ان کوششوں کی آڑ میں شرعی قانون میں دخل اندازی ناقابل قبول ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ طلاق‘ حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو ناپسند یدہ امر ہے۔ اس سے متعلق شعور کو بیدار کرنے کی ذمہ داری ہر عالم دین، خطیب اور تعلیم یافتہ فرد کی ہے۔ اگر یہ شعور بیدار نہ ہوگا تو پھر خود ان کے اپنے گھر بھی بکھرنے سے بچ نہ سکیں گے۔
( مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدر آباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون: 9395381226

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں