دوٹوک ….. قاسم سید
ایک مجلس میں تین طلاق پر پابندی اور اسے غیر آئینی وغیر قانونی قرار دینے سے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلہ نے ہندوستان کی سیاست میں عارضی طورپر ہلچل پیدا کردی ہے ۔ سب سے دلچسپ اور حیرت والی بات یہ ہے کہ اس معاملہ کے تمام فریق فیصلہ کو اپنے حق میں بتا کر شادیانے بجارہے ہیں اور ہر فریق اپنے متبعین کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں ہی فیصلہ سنایا ہے ۔ حکومت ہند نے اسے عورتوں کے حقوق کی جنگ میں فتح سے تعبیر کیا، وزیراعظم نے تاریخی بتایا۔ مسلمانوں کے دلوں کی سرتاج کانگریس کے نزدیک ترقی پسندانہ قدم ،بی جے پی کے مطابق نیو انڈیا کی جانب قدم اور اسی کے ساتھ خواتین تنظیم کی باجھیں بھی کھلی ہوئی ہیں اور تو اور مسلم پرسنل لابورڈ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا اوراس موقف کے لیے اس کے پاس دلائل ہیں۔ علماکے درمیان حسب روایت سنگین اختلافات نظر آیا کوئی خیر مقدم کررہا ہے تو کوئی اسے خلاف شریعت قرار دے رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم بے وقوف بننے کی ادا کاری کررہے ہیں یا دوسروں کو بے وقوف بنانے کی خدا داد صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ واقعی ہم جیت گئے ہیں یا اپنی ناکامی کو مسکراہٹ میں چھپارہے ہیں اگر بورڈسپریم کورٹ کے فیصلہ میں تضاد دیکھ رہا ہے تو اس کے کلیدی وکیل کپل سبل اس کے حق میں کیوں ہیں جبکہ عدالت نے صاف طور پر کہا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہیں اور اس روایت کو آئین کی دفعہ 25 ( بنیادی حقوق سے متعلق قانون ) کا تحفظ حاصل نہیں ہے لہٰذا اسے ختم ہونا چاہئے یہی نہیں دو کے مقابلے تین ججوں نے اپنے فیصلہ میں ایک مجلس میں تین طلاق کو آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی قرار دیا جو مساوات کا حق دیتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس نظام کو اکثریت کے ساتھ مسترد کردیا۔ اس پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردی گئی اور یہ قابل دست اندازی قانون ہے حکومت جب تک قانون نہیں بناتی عدالت کا حکم امتناعی جاری رہے گا اس لیے حکومت کو بھی قانون بنانے کی کوئی جلدی نہیں ہے وہ ٹھنڈا کرکے کھانا چاہتی ہے اسی طرح جیسے بابری مسجد کی مسماری مقصود تھی مندر کی تعمیر ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔
بہرحال فیصلہ آچکا ہے ،عدالت نے لائن کھینچ دی ہے اس سے تجاوز کرنے والے کو عدالت سے انصاف ملے گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مظلوم مسلم خواتین کو اس سے بظاہر کوئی فائدہ نہیں ملنے والا لیکن ایک ساتھ تین طلاق دے کر عورت کو گھر سے نکال دینے اور اس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے لیے مشکل منزل ضرور آگئی ہے ہم یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتے کہ ایسا کرنے والے مٹھی بھر ہیں زہر کی تھوڑی سی مقدار جان لینے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ایک سماجی برائی کو قانون کے ذریعہ ٹھیک نہیں کیاجاسکتا مثلاً عصمت دری کے خلاف سخت ترین قانون کی تشکیل نو سزائے موت کے التزام کے باوجود نربھیا جیسے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی مگر یہاں یہ سوال زیربحث نہیں ہے مسلم پرنسل لابورڈ دس ستمبر کو طے کرے گا کہ اس کا اگلا قدم کیا ہوگا، ہمیں اس کا انتظار کرنا چاہئے لیکن بورڈ کو یہ بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ سپریم کورٹ کے اندر اس کے حلف نامہ کی کمزوری مقدمہ لڑنے کے انداز اور لگاتار پسپائی نے ان خدشات کو پہلے ہی جنم دیاتھا کہ ہم مقدمہ ہارنے والے ہیں اور ایک معاملہ جو باہمی افہام و تفہیم اور مشاورت سے حل کیاجاسکتا تھا اسے عدالت کے سپرد کردیا ۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں ایک مجلس میں تین طلاق کے جواز اور عدم جواز سے متعلق واضح موقف موجود ہے، مگرمسلکی بالاتری اور عددی اکثریت کے زعم نے یہ گوارانہیں کیا اور ہم نے ایک تاریخی موقع گنوادیا۔ عدالتیں خود فیصلہ نہیں کرتیں جب کوئی ان کے پاس انصاف کے لیے جاتا ہے تو ثبوت وشواہد کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں۔ شاہ بانو یا بابری مسجد اور سائرہ بانو کیس کے خلاف ہم نے تحریک چلائی حکومت نے ایک قانون وضع کیا جس کی رو سے طلاق کے بعد نان و نفقہ کو خلاف شریعت قرار دے دیاگیا لیکن اس میں یہ شق بھی رکھ دی گئی کہ اگر میاں بیوی دونوں شریعت کی بجائے دستور ہند کے مطابق فیصلہ کرانا چائیں گے تو اس کی انہیں اجازت ہوگی اس لیے اب یہ گنجائش موجود ہے کہ حکومت قانون بنائے گی تواس میں ایک ساتھ تین طلاق غیر قانونی وغیر آئینی ہوگی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوںکے خلاف مطلقہ عدالت سے رجوع کرکے اسے سزا دلوا سکے گی یعنی فتنہ کاایک اور دروازہ کھل گیا ہے اس سے پیداہونے والے سماجی انتشار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مسلم پرسنل لابورڈ کے خلاف حلف نامہ پر غور کریں تو اس سے خود پارلیمنٹ سے قانون سازی کاراستہ ہموار کیا اس نے کہا تھا کہ عدالت کو قانون سازی کا حق نہیں یہ کام صرف پارلیمنٹ کرسکتی ہے چنانچہ عدالت نے ایک ساتھ تین طلاق پر پابندی لگاکر حکومت سے کہہ دیا کہ وہ قانون بنائے ،ہم نے شاہ بانو کیس سے کوئی سبق نہیں لیا۔بابری مسجد کی طویل قانونی جنگ کا پہلا راؤنڈ ہارگئے اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ اب سائرہ بانو کیس میں شکست کا منھ دیکھ لیا اور امید ہے کہ اس سے بھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔ خدا کرے یہ بات غلط ثابت ہو لیکن آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ بابری مسجد کا فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آنے والا ۔ بدقسمتی یہ ہےکہ ہم دوسروں سے رواداری ،تحمل اور برداشت کا ثبوت دینے کی توقع کرتے ہیں مگر خود اختلاف رائے کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسے ناقابل معافی جرم سمجھنے والا گروہ ہر اس شخص پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اسے مسلم مخالف ، اسلام مخالف ، زندیق ،منافق، بی جے پی کا ایجنٹ ،بکاؤ جیسی مہذب گالیاں فراخ دلی سے دے کر اپنے کلیجہ کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ سامنے آنے والے کے پاس میں عزت نفس نام کی بھی کوئی چیز ہوگی۔
عدالت نے تین طلاق پر پابندی نہ لگاکر آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کا تحفظ کیا مگر طلاق دینے کے ایک طریقہ پر پابندی لگاکر ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش ضرور کی ہے آگے حلالہ اور تعدد ازدواج کا مسئلہ منھ پھاڑے کھڑا ہے اس کی قانونی لڑائی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔
اس منظم گروہ نے اپنی پسندیدہ ایجنسیوں اور اداروںکو مقدس گائے بناکر پاگیزگی کا ہار کھینچ دیا ہے کہ ان سے غلطیوں کا ارتکاب ناممکن ہے وہ انسان نہیں فرشتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر سرگرم عناصر اپنے شکار کی تاب میں گؤ رکشکوں کی طرح اپنی مقدس گائے کے تحفظ کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں اس کی تکا بوٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس موقع پر انہیں اسوۂ حسنہ یادنہیں آتا ۔ جس اخلاق کی تمام تعلیمات صرف عوام الناس کے لیے ہوتی ہیں خود ان کا نفاذ نہیں کیا جاتا۔ بہرحال اب جو لوگ اس پسپائی اور شکست کو ملکت کے حق میں خیروبرکت سے تعبیر کررہے ہیں اور عقیدت مندوں کی فوج اس پر جھوم رہی ہے۔ اس پر کیا کہا جاسکتا ہے۔ خوش فہمی کے تار عنکبوت نے حقائق کو ہماری آنکھوں سے بوجھل کردیا ہے ہم وہی سننا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں جو ہمیں بھاتا ہے اور اچھا لگتا ہے ۔ مزاج کے خلاف کوئی بات یامشورہ سننے کی تاب بالکل ختم ہوگئی ہے۔ اگر کوئی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے سنگین اور دور رس اثرات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا تو اس کے لیے دعائے خیر بھی کی جاسکتی ہے ۔ عدالت نے تین طلاق پر پابندی نہ لگاکر آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کا تحفظ کیا مگر طلاق دینے کے ایک طریقہ پر پابندی لگاکر ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش ضرور کی ہے آگے حلالہ اور تعدد ازدواج کا مسئلہ منھ پھاڑے کھڑا ہے اس کی قانونی لڑائی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔
اس وقت سرکار سیاسی پارٹیاں انتظامیہ برسراقتدار سب ہمارے خلاف ہیں کہیں سے کوئی کمک ملنے کی امید نہیں ہے۔ احتجاجی تحریکیں چلانے کا سلیقہ نہیں اور نہ ہی اب حالات اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ملک بچائو دستور جیسی تحریک نہ پہلے موثر تھی نہ آگے ہوگی اس کا انجام سامنے آگیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے پاس متبادل بہت کم ہیں جو ہماری آنکھ کانور ہے یہی ایک ادارہ اب تک اپنی ساکھ کو باقی رکھ سکا ہے مگراب وہ بھی داؤ پر ہے ۔ سیاسی عزائم رکھنے والے اپنا آلہ کار بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ امتحان کی گھڑی ہے مسلکی تنازعات نے ہمیشہ نقصان اور دوسروں کو فائدہ پہنچایا ہے مگر ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مسلمانان ہند بڑی بے صبری کے ساتھ بورڈ کے آگے کےقدم کا انتظار کررہے ہیں ۔ یہ دل اور فریب کھانے کو تیار نہیں ہے ۔ نئی نسل کے ساتھ مذاکرات اور صبروتحمل کے ساتھ اپنی بات پہنچانے کا چیلنج سب سے بڑا ہے ۔