انتظا ر حسین :پر یو ں کے د یس سے آ گے سمند ر ہے

Al Rabaرابعہ الرَبّا ء پاکستان
ملت ٹائمز
یہی پچھلے سا ل کاوا قعہ ہے شا ید آج ہی کا دن تھا ۔یعنی کر اچی لٹر یچر فیسٹیول کے پہلے دن کی صبح تھی ۔مجھے چھ بجے صبح کے بعد نیند نہیں آتی اْٹھ کر با ہر نکل گیا ۔ہو ٹل سمند ر کے کنا ر ے وا قع تھا ۔اور کنا رابھی ا یسا سر سبز اور درختو ں سے گھر ا ہو ا جس میں بے شما ر پر ند ے صد یوں پر انی بو لیاں بو ل ر ہے تھے۔کیا د یکھتا ہو ں انتظا ر حسین ایک جگہ لا ٹھی ٹیکے سمند ر کی طر ف منہ کر ے کھڑے ہیں اور درختو ں پہ سا یہ کیے پر ند و ں کو غور سے د یکھ ر ہے ہیں ۔میں بھی آ رام سے پیچھے جا کھڑا ہو ا ۔آہٹ پا کر مڑے اور بو لے،نا طق میا ں سو یر ے جا گ لیے۔
د یکھو سمند ر کے پر ند ے کیا بھلے لگ ر ہے ہیں ۔میں نے کہا انتظا ر صا حب آ گے چلتے ہیں۔ذرا سمند ر کے بیچ اس کشتی پر ، و ہا ں اس سے بھی بھلا منظر ہے۔اور د یکھیے ہو ا بھی کیا جا نفز ا ہے۔اس کے بعد ہم لکڑی کے بنے ہو ئے تختو ں پر سے گز ر کر جو پا نی کے او پر ذرا آگے تک جا نے کے لیے ر کھے تھے۔سمند ر کی اور بڑ ھنے لگے۔وہ آگے لا ٹھی ٹیکے جا ر ہے تھے اور میں پیچھے پیچھے تھا۔آخر تک پہنچ کر ہم ر ک گئے۔بہت با تیں کیں ، یہا ں ہو ا مست کر د ینے والی تھی۔سب لو گ سو ئے ہو ئے تھے۔ہم دونوں اور سمند ر اور پر ندے اور ہوا اور درخت جا گ رہے تھے۔نظا را خو ب پا کر میں نے کہا انتظا ر صاحب ذرا اس کشتی پر چلیں جورسوں کے ساتھ بند ھی جھو ل ر ہی ہے۔کہنے لگے ، نا بھا ئی ، یہ لکڑی کی پگڈنڈی تو بہت تنگ اور کمزور لگتی ہے۔کہیں پا ؤ ں پھسل گیا تو یہا ں کو ن سنبھالے گا ۔میں نے کہا ’انتظا ر صا حب میں ہو ں نا آپ کو ڈوبنے نہیں دوں گا،کہنے لگے بھا ئی’ ہم آگے نہیں جا ئیں گے بھلے آ پ بچا لو مگر اتنے میں دل ڈو ب جا ئے گا، ۔ان کی با ت سن کر مجھے ہنسی آگئی۔۔۔قر یب ایک گھنٹہ وہا ں ٹہلتے رہے۔
آج یہی سمند ر کا کنا را ہے۔کر ا چی لٹر یچر فسٹیول کا پہلا دن ہے ،صبح کے چھ بجے ہیں۔سب لو گ سو ئے ہو ئے ہیں ۔در خت لہلہا ر ہے ہیں ۔پر ند ے چہک ر ہے ہیں۔ہو ا ئیں مست ہیں اور انتظا ر حسین سمند ر سے پا ر کہیں نکل گئے ہیں ۔میں اکیلا یہا ں پھر ر ہا ہو ں کیو نکہ صبح چھ بجے کے بعد مجھے نیند نہیں آتی۔۔
علی اکبر نا طق کی یہ تحر یر جب میں نے پڑھی تو چہر ے پہ مو جو د دوچشمے چھلک پڑے ۔میں نے سو چاتھا کہ میں اب کو ئی لفظ اس ازلی حقیقت کے حوا لے سے نہیں لکھو ں گی مگر مجھ سے نہیں ر ہا گیا کیو نکہ ان سے وابستہ ہر ہر شخص اس وقت یہی محسوس کر ر ہا ہے
’’میں اکیلا یہا ں پھر ر ہا ہو ں،،

تصویر میں مضمون نگار محترمہ رابعہ الرباء کومرحوم انتظار حسین کے ساتھ دیکھاجاسکتاہے۔
تصویر میں مضمون نگار محترمہ رابعہ الرباء کومرحوم انتظار حسین کے ساتھ دیکھاجاسکتاہے۔

مجھے ان سے وہ آخر ی ملا قا ت یا د آ گئی جب میں ان کی آواز سننے کے لیے ان کے پیچھے جا کھڑی ہو ئی تھی۔یہ چند ما ہ قبل کی روشن مسکر ا تی پر سکون سپہر تھی۔آواری ہو ٹل لاہو ر میں ا یک تقریب تھی۔انتظا ر حسین جو ادیبو ں دوستوں کے جھڑ مٹ میں کھڑے تھے اور ایک د ھیمی سی مسکرا ہٹ ان کے لبو ں پہ سجی ہو ئی تھی۔میر نظر ان پہ پڑ ی تو مجھے لگا جیسے پر گز ر تا لمحہ ان کے چہر ے پہ ا یک نئی معصومیت لا ر ہا ہے۔میر ا د ل
میں صرف ان کو دوسر وں سے با تیں کر تا سنوں ۔ان کے لہجے کی معصومیت اور ٹھہر اؤ مجھے یو نہی ا چھا لگتا تھا۔میں ان کے پیچھے جا کے کھڑی ہو گئی۔انسان پر عمر کا اثر ضرور ہو تا ہے مگر ایک اند ر کی عمرہو تی ہے، انسان پر دنیا کا اثر بھی ہو تا ہے مگر ا یک اند ر کی بھی د نیا ہو تی ہے۔جو آنکھو ں میں کشتیو ں کی صو رت نظر �آ جا تی ہے۔ میں ا کثر لو گو ں سے ملتے ہو ئے ان کی آ نکھو ں میں انہی کشتیو ں کے سفر کو د یکھا کر تی ہو ں ۔اس روز یہی کشتیا ں میں نے ان کی آ نکھو ں میں بھی د یکھیں ۔وہ مسکر ا ر ہی تھیں ،جیسے منز ل پہ با وقا ر پہنچ گئی ہو ں۔(میر ے خیا ل میں یہ آنکھیں ،اندر کے حسین سفر کر نیوالو ں کی ہو تی ہیں۔اگر چہ انتظا ر صا حب کے ہا ں آنکھو ں کا یہ سفر ہمیشہ با وقار و پر سکون ہی نظر �آیا )
اک ملا ل ہے ان کی ا یک اما نت میر ے پا س رہ گئی، میر ے پا س ان کے ا یک دوست لے سا تھ لی گئی ان کی چند تصا و یر تھیں ،میں نے ان سے و عد ہ کیا تھا کہ جلد پہنچا دونگی ،مگر وقت کا سفر ،وہ ان چند ما ہ بہت مصر و ف ر ہے تو کبھی کو ئی مصروفیت میر ی د ہلیز پہ د ستک دے دیتی۔
چو نکہ و عد ہ تھا کہ میں خو د آ و نگی اور ہم ’’ ادب اور انٹر نیٹ اور ادبی فیسبک ،، کے مو ضو ع پہ جوگفتگو کر رہے تھے جا ر ی ر کھیں گے۔
لیکن بس سفر اتنا ہی تھا۔وہ پر یو ں کے د یس کی با تیں کر نے والی ہستی ،خود پر یو ں کے د یس چلی گئی اور اب وقتی طو ر پر جیسے ز مین کی کہا نی کے لیے ہما رے لفظ ساتھ نہیں دے ر ہے۔ہم سب کے ساتھ تا حا ل یو نہی ہے کہ ہما رے لفظ ہما رے جذبا ت کا ساتھ نہیں دے ر ہے۔جیسے جا تے جا تے محبت کے سا رے لفظ وہ اپنے ساتھ پر ستان ہی لے گئے ہو ں۔
آج شاہد حمید سے صاحب سے با ت ہو ئی تو لگا ان کی آنکھیں بھی ابھی تک اند ر کئی چشمہ بنا ئے ہو ئے ہیں ۔میں نے انہیں ہمیشہ ہنستے مسکر اتے ،کھلکھلاتے ہی د یکھا ہے مگر آج ابھی تک وہ بہت اداس تھے۔کہنے لگے’’لاہو ر گیا تھا، انہیں ر خصت کر کے آگیا ہو ں ۔۔۔بہت د کھی ہو ں ، انتظا ر حسین کے چلے جا نے کے بعد ۔۔۔۔کچھ محبت سی ہو گئی تھی ان سے۔۔۔۔،،
میں نے کبھی شاہد حمید کو لفظو ں اور جذبو ں کے سمند ر میں متلا طم نہیں د یکھا۔مگر یہ بے بسی مجھے ان کے ہا ں آج پہلی د فعہ محسو س ہو ئی۔
انتظا ر صا حب chrimatic personality تھے۔ایسے لو گوں سے سب کو پیا ر ہو جا تا ہے ۔کسی حد تک یہ روحا نی وصف ہے ۔جو خداداد ہے اس میں انسا ن کی کا و شیں ،اچھائیوں وبر ا ئیو ں کا عمل د خل نہیں ہو تا۔
محبت کے یہ گلستان ان کی زند گی میں بھی ہمیں د کھا ئی د یتے ر ہے اور وفات کے بعد محبتوں کے شہر میں کو ئی گلد ستہ نہیں بچا جو ان کے قد مو ں میں بچھاوڑ نا کر دیا گیا ہو۔آج ہی قا سم یعقو ب صاحب کا ا یک جملہ بھی پڑھنے کا اتفاق ہو ا (جملہ بھی کیا تھا اک تشنگی ، اک پیاس سی تھی،اک درد سا تھا ،وقت کی ر یت کا ہا تھوں سے نکلتادرد۔)
’’ میر ی انتظا ر حسین سے درجنو ں ملا قاتیں ر ہیں مگر افسوس میر ے پا س ان کے ساتھ کھنچی کو ئی تصویر نہیں،،
تصویر ایک ایسی چیز ہے جس کے ذر یعے ہم آنکھو ں سے اپنے چا ہنے والو ں کو چو م لیتے ہیں۔ اک قر ار سا آجا تا ہے ۔۔۔جیسے شاید وہ ہیں ۔۔ابھی ہیں ۔۔۔اور میر ے ساتھ ہی ہیں۔۔۔،،لیکن مجھے یقین ہے جب قا سم یعقوب ان درجنو ں ملا قا تو ں کو لفظو ں سے کا غذ کے سینے پر اتا ر یں گے تو یہ وہ تصو یر ہو گی جو زند ہ و جا وید ہو جا ئے گی جس کے ر نگ کچے نہیں ہو نگے۔
امجد طفیل کبھی نہیں بھلا پا ئیں گے کہ اس صدی کا قصہ جب تما م ہوا تو آخر ی کا نفر نس ’’حلقہ اربا ب ذوق ،،کی پہلی ’’ایک روزہ کانفر نس،، تھی۔جس کی صدارت انتظا ر صاحب نے کی۔اور صدارتی خطبہ د یا ۔اس وقت نہیں معلو م تھا کہ چند دن بعد ۔۔۔یو ں یہ ان کی زند گی کی آخر ی کانفرنس تھی۔
عاصم بٹ کو کبھی نہیں بھو لے گا کہ انہو ں نے انتظا ر حسین کا آخری ا نٹر و یو کیا تھا۔عر فان جا و ید کبھی نہیں بھو ل پا ئیں گے جب وہ انتظا ر حسین کے کتا بو ں بھر ے کمر ے میں ان کے ساتھ بیٹھے تھے اور ان کا قلم انتظا ر صاحب کے خا کے کے لیے تڑپ ر ہا ہو گا ۔مگر د ل و د ما غ ابھی مضطر ب ہو نگے اور لفظ سمند ر کی ہوا ؤں کے ساتھ پر یشان حالی میں ہو نگے۔
اور وہ سب جو ان کو ہسپتا ل د یکھنے جا ر ہے تھے اور سو چ ر ہے تھے کی ز ند گی کی ا صل داستا ن تو سب کی سا نجھی ہے ۔سب ا یک دو سر ے کو تسلی دے ر ہے تھے ا یک دوسر ے کو وقتی صور ت حا ل سے آگا ہ کر ر ہے تھے مگر اندازہ سب کو تھا کہ کیا خبر گو ش گز ا ر ہو نے والی ہے ۔
بحر حا ل ا یک صد ی کا سفر آج وادیِ پر ستا ن میں اپنی کہا نیو ں داستا نو ں سے ملتے ہو ئے کسی نر م ہو ا کے جھو نکے پر چو نک کر د یکھتا ہو گا تو محبت بھر ے کئی چہر ے اسے کسی اور کا ئنا ت سے مسکر اتے د کھا ئی د یتے ہو نگے۔انتظا ر صا حب آپ کے سب چا ہنے والے اداس ہیں ۔

SHARE