زانی باباؤں اور دہشت گردی کی ٹریننگ دینے والے آشرموں سے اہم سیاسی لیڈران کے تعلقات کا جائزہ

ڈاکٹر منظور عالم
ہندوستان کے سابق وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ تمام مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں لیکن جو بھی دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں وہ مسلمان ہی ہوتے ہیں ‘‘ لال کرشن اڈوانی کا یہ جملہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے اسے دنیا نے دیکھ لیا ہے ، اب تک دسیوں مسلمانوں اور نوجوانوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا گیا ، بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈالا گیا لیکن عدلیہ سے جاکر انہیں انصاف ملا ، جنہوں نے دہشت گرد ٹھہرایا تھا وہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے اور اس طرح خطرناک دہشت گرد بتائے جانے والے مسلمان معصوم اور بے گناہ ثابت ہوکر زمانے کے سامنے سرخرو ہوئے، اڈوانی کے رد عمل میں اگر آج یہ بات کہی جاتی ہے تو و ہ حقیقت پر مبنی اور سو فیصد درست ہوگی کہ تمام باباؤں، آشرموں کے سربراہ اور سنت کرمنل، ریپسٹ اور غنڈہ نہیں ہیں لیکن جن سے بھی آر ایس ایس اور بی جے پی کے اکثر لیڈروں کے تعلقات ہیں وہ کرمنل ، داغی، زانی اور سوسائٹی کیلئے سیاہ دھبہ ہیں ، ایسے باباؤں اور آشرموں کے سنتوں کی لمبی فہرست ہے جہاں سیکس ریکٹ چلتے ہیں، لڑکیوں کو سادھوی بناکر ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے، گوفہ میں دو شیزاؤں کی عصمتیں تار تار کی جاتی ہیں، لب کشائی کرنے والوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے، عقیدت اور بھکتی کے پردہ میں ہونے والے ان جرائم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی کوشش کرتاہے تو اس کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے اور ایسے تمام ٹھکانوں سے بی جے پی اور آر ایس ایس لیڈران کے تعلقات ہیں ،بی جے پی کے سابق وزیر اعظیم اٹل بہاری واجپائی ،سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی اور موجود ہ وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر دیگر سبھی بڑے چھوٹے لیڈروں کا ان ڈھونگی باباؤں کے یہاں آنا جانا لگا رہتاہے، ان کے آشرموں میں جاتے رہتے ہیں، انہیں خصوصی ڈونیشن دیتے ہیں اور کامیابی کیلئے آشرواد لیتے ہیں، انتخابات میں ان کی حمایت حاصل کرتے ہیں اور یہ بات صرف بی جے پی تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈران بھی اس حمام میں ننگے نظر آتے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ہم انہیں امور کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کرنے جارہے ہیں ۔
بی جے پی کی سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپائی باپور آسام کے بہت بڑے بھکت ہیں آشرم میں آشرواد لینے جاتے رہتے ہیں ، ان کے چرنوں کو چھوتے ہیں اور دل کھول کر آسام کی رام تعریف کرتے ہیں۔لال کرشن اڈوانی بھی آسارام کے بہت بڑے بھکت ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ میرے جیسے لوگ جو کچھ بھی ہیں اور جو کام کررہے ہیں وہ آسام رام باپو جیسے سنتوں کے آشرواد کا ہی نتیجہ ہے ‘‘ ۔وزیر اعظم نریند ر مودی کے باپوآسام رام سے جو گہرے تعلقات ہیں اسے لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ہے ۔آسام رام کے یہاں ہونے والی تقریبات میں مودی جاتے رہے ہیں، وہاں جاکر آسام رام سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، مودی کے الفاظ میں ’’ میں جو کچھ بھی ہوں وہ باپو کی وجہ سے ہوں، میں اس وقت سے باپوں کے چرنوں کو چھو رہا ہوں جب مجھے کوئی جانتا بھی نہیں تھا ‘‘ آسام رام بھی مودی کو گلے لگاتے رہے ہیں، ایک مرتبہ مودی کو آشرواد دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ تم مضبوط ہو، میں تمہیں پی ایم دیکھنا چاہتا ہوں، 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد مودی حلف برداری کی تقریب سے فارغ ہوکر فوراً آسام رام کے سورت آشرم میں پہونچے تھے اور پھر دونوں نے مشترکہ طور پر جشن منایا۔ یہ وہی آسا رام ہے جو ان دنوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے اور لاکھوں لوگوں کا بھگوان مانا جانے والا یہ آسا رام اس وقت ، ریپ ، قتل اور اقدام قتل جیسے مقدمات کا سامنا کررہا ہے، 2013 میں ایک 16سالہ لڑکی نے یہ انکشاف کیا تھا کہ جودھپور آشرم میں باپو آسام رام نے میرے ساتھ ریپ کیا ہے ،اس کے بعد کئی اور لڑکیاں میدان میں آگئیں اور پھر باپو آسام کی گناہوں کا راز فاش ہونا شروع ہوگیا، گرفتاری کے وقت آسام رام کے بھکتوں نے غنڈہ گردی مچائی ، میڈیا اہلکاروں پرحملہ کیا ، آشرم سے کنڈوم کے ساتھ ہتھیار اور جنگی آلات بر آمد ہوئے ، رائفل ، بندوقیں اور لاٹھیاں آشرم سے ضبط کی گئیں، نریندر مودی سے جب اس دوان اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کانگریسی کی سیاسی سازش قرار دیا اور ریپ کے ملزم باپو آسا رام کے یہاں ان کی آمد و رفت ہوتی رہی۔
دو سادھویوں کے ساتھ ریپ کرنے کے جرم میں بیس سالوں کیلئے جیل کی سلاخوں میں بند ڈیرہ سچا سودہ کے سربراہ رام رہیم سنگھ سے بھی بی جے پی کے گہرے اور ناقابل فراموش دوستانہ تعلقات ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے اکتوبر 2014 میں پی ایم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ایک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ میں گرو مہاراج رام رہیم جی کے سچا سودا کی بھومیکا کو پرنام کرتا ہوں ‘‘ سوچھ ابھیان بھارت مہم کے پس منظرمیں بھی میں مودی نے ٹوئٹ کے ذریعہ ریپ گروبابا کی تعریف کے پل باندھے تھے، عام انتخابات سے قبل بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ اور وزیر خارجہ شسما سوراج نے رام رہیم سے ملاقات کی، حمایت کا مطالبہ کیا اور پھر یہ معاہدہ طے پایاکہ بابا الیکشن میں بی جے پی کی حمایت کریں گے، حکوت آنے کے بعد بی جے پی سرکار سی بی آئی کے ذریعہ ریپ کے کیس کو کمزور کرے گی اور بابا کو بے قصور قرار دے گی ،چناں چہ اسی ڈیل کے فائنل ہوتے ہی بابا نے پہلی مرتبہ کسی سیاسی پارٹی کی کھل کر حمایت کی ورنہ اس سے پہلے اشاروں میں حمایت کی جاتی تھی۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بھی ڈیرہ سچا سودا نے کھل کر بی جے پی کی حمایت کی، رپوٹ کے مطابق 26 اکتوبر 2014 میں کو منوہر لال کھٹر نے وزیر اعلی کے عہدہ کا حلف لیا اور 12 نومبر 2014 کو بی جے پی کے 18 ایم ایل اے اور وزراء نے ہریانہ الیکشن انچارج وجے ورگیا کی سربراہی میں ڈیرہ سچا سودا جاکر گرومیت رام رہیم سے ملاقات کی ، گرمیت نے 2015 کے دہلی اسمبلی انتخابات اور 2017 کے پنجاب اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اتفاق سے دونوں انتخابات میں بی جے پی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، وزیر اعلی منوہر لال کھٹر، ہریانہ کے گورنر کپتان سنگھ اور ہریانہ بی جے پی لیڈر سبھاش برالادسیوں مرتبہ ٹوئٹ کے ذریعہ اور دیگر تقریبات میں بی جے پی اور ڈیرہ سچا سودا کے درمیان تعلقات کا تذکرہ کرچکے ہیں، بابا کے کاموں کی تعریف کے انہوں نے پل باندھے ہیں، گذشتہ تین سالوں میں ہریانہ حکومت ایک کڑور سے زائد روپیہ اس بابا کو دے چکی ہے، سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلہ آنے سے صرف دس روز قبل بھی ہریانہ کے وزیر تعلیم رام ولاس شرما نے 15 اگست کو بابا کی سالگرہ تقریب میں شرکت کی اور 51 لاکھ روپے کا چندہ دیا، گذشتہ سال بھی بابا کی سالگرہ تقریب میں ہریانہ حکومت کے منسٹر کی شرکت ہوئی تھی ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بی جے پی حکومت آنے کے بعد بابا کو زید سیکوریٹی بھی دی گئی اور ہندوستان کے 32 زیڈ سیکوریتی یافتہ وی وی آئی پی اشخاص میں سے ایک ریپ کا مجرم یہ بابا بھی تھا۔
مختصر یہ کہ پی ایم سے لیکر سی ایم تک سبھی اس بابا کو سلام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، سبھی اس کے چرنوں کے چھورہے ہیں، اس کی حمایت مانگ کر الیکشن لڑرہے ہیں جس کے خلاف 2002 سے ہی ریپ کاسنگین مقدمہ چل رہا تھا ، کئی بے گناہوں کے قتل کا الزام تھا ، سینکڑوں لڑکیوں کی عصمت تار تار کرنے کا مجرم تھا، جب سی بی آئی کی عدالت نے فیصلہ سنایا تو اس بابا کے اشارے پر اس کے پالتو دہشت گردوں نے کئی شہر کو آگ میں جلاکر خاکستر کردیا، پچاس لوگوں کو موت کی نیند سلادیا، میڈیا اہلکاروں پر بھی حملہ کردیا اور بی جے پی سرکار یہ سب تماشا دیکھتی رہی ، لاء اینڈ آڈر پر کوئی کنٹرول نہیں کیا گیا۔ بے شرمی کی حد اس وقت ہوگئی جب خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے پی ایم مودی نے ان دو لڑکیوں کی تاریخی جیت پر نہ مبارکبادی دی اور نہ کوئی حوصلہ افزا ٹوئٹ کیا۔ مذکورہ لیڈروں کے علاوہ پرکاش جاویڈ کر ، انوراگ ٹھاکر، پی مرلی دھار راؤ، سبرامنیم سوامی اور شاکسی مہاراج سمیت متعدد بی جے بی لیڈورں کی فہرست ہے جن کے بابا سے گہرے تعلقات ہیں ، بابا کے جیل جانے کے بعد کچھ لوگوں نے ٹوئٹر اور فیس بک سے فوٹو کو ڈیلیٹ کرنا شروع کردیا ہے۔
ایک ایسے ہی بابا رام پال ہیں جن کے کئی لاکھ بھکت ہیں، ہریانہ کے روہتک میں ان کا آشرم ہے، 2006 سے قتل اور اقدام قتل سمیت کئی طرح کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، سب سے پہلے 2006 میں جیل ہوئی تھی ،2008 میں ضمانت پر رہائی مل گئی لیکن جب بے گناہی ثابت نہیں کرسکے تو ہریانہ ہائی کورٹ نے 2014 میں دوبارہ گرفتاری کا ورانٹ جاری کردیا لیکن بابا نے سرینڈر کرنے کے بجائے پولس پر حملہ کردیا، نومبر 2014 میں تقریباً تین دنوں تک پولس اور رام پال کے بھکتوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، بالاخر 19 نومبر کی رات میں بہت کوششوں کے بعد رام پال کی گرفتاری عمل میں آئی اور آشرم سے رائفل ، بندوق، بم اور باردو سمیت بہت سے جنگی ہتھیا برآمد ہوئے ۔
جنوبی ہندوستان کا ایک اور مشہور دھرم گرو نتیانند سوامی ہے، بنگلور ، چنئی سمیت کئی شہروں میں اس کا آشرم ہے، 2010 میں اس کی بھی ایک فلم ایکٹریس کے ساتھ جنسی تعلقات کی کیسٹ سامنے آئی تھی جو جانچ میں سچ ثابت ہوئی اور اس بابا کو جیل کی سلاخوں میں جانا پڑا تاہم بعد میں ضمانت پر رہائی مل گئی ۔
ایک ایسے ہی دھرم گرو سوامی پرمانند ہے ، یہ بابا بھی ریپ اور سیکس کے الزام کا سامنا کررہا ہے، گذشتہ سال یوپی پولس نے اسے گرفتار بھی کیا تھا، یہ بابا ان خواتین کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا تھا جو بچے نہ ہونے کے مرض کا علاج کرانے کیلئے اس کے یہاں جایا کرتی تھیں۔
سوامی بھیمانند مہاراج بھی ایک معروف دھرم گرو ہے ، چتر کورٹ کے جمروہا گاؤں کا یہ رہنے والا ہے ،1997 میں دہلی کے لاجپت نگر میں سیکس ریکٹ چلانے کے جرم میں اس کی گرفتاری ہوئی تھی ، اب جیل کی سلاخوں سے باہر آنے کے بعد یہ خود کو بابا سائیں کا اوتار بتاتا ہے اور بہت بڑا سوامی کہلاتا ہے ۔
سادھوؤں کے ساتھ سادھویاں بھی گھناؤنا کارنامہ انجام دے رہی ہیں جن میں ایک ’’ رادھے ماں ‘‘ ہے، یہ عورت خود کو دیوی کا اوتار اور رومانٹک سادھوی بتاتی ہے، ڈانس بھی کرتی ہے اور اکثر نیم عریاں رہتی ہے ، اس کی حرکتوں پر خود ہندو سماج بھی شرمسار ہے ،اس پر ایک جوڑے کے درمیان تفریق کرانے کا سنگین الزام ہے ، گجرات ، ہریانہ اور مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں اس کے خلاف مقدمات درج ہیں، ممبئی کی عدالت میں اس سے تفتیش بھی ہوچکی ہے۔
ایک دھرم گرو نرمل بابا ہے ، تجارت اور بزنس میں جب اسے کامیابی نہیں ملی ، کئی مرتبہ کی ناکام کوششوں کے باوجود اس نے دھرم کے نام پر تجارت کرنے کا فیصلہ کرلیا اور خود کو ایک سنت قرار دے دیا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے بھی ہزاروں بھکت ہوگئے ، پھر اس نے نرمل دربار لگاکر لوگوں کی پریشانیاں حل کرنی شروع کردی بعد میں پولس نے یہ انکشاف کیا کہ جو خود اپنی پریشانیاں حل نہیں کرسکا تھا وہ دربار لگاکر دوسروں کی پریشانیاں حل کرنے کے نام پر غریبوں اور اندھ بھکتوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہاہے اور پروبلم حل کرنے کے نام پر پیسہ لوٹ رہاہے۔
خلاصہ یہ کہ ہندوستان میں ایسے باباؤں کی ایک لمبی فہرست ہے ،جن کے آشرموں میں سیکس ریکٹ چلتے ہیں، لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے ، دھرم کے نام پر عوام کو ٹھیس پہونچایا جاتاہے ، آشرموں میں جنگی سامان ہوتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک اور شرم کی بات یہ ہے کہ ایسے باباؤں اور دھرم گروؤں کے دربار میں اکثر سیاسی لیڈران حاضری دیتے ہیں ، ان کے چرنوں کو چھوتے ہیں، سروں پر ہاتھ رکھواکر ان کا آشرواد لیتے ہیں، انتخابات میں حمایت لیتے ہیں، دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بی جے پی اس میں سر فہرست ہے ، تقریباً ایسے اکثر باباؤں سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے اکثر لیڈروں کا تعلق ہے جو ریپ ، قتل ، اقدام قتل ، توہین عدالت سمیت کئی طرح کے سنگین مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
مسلسل ہورہے ان انکشافات کے بعد یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا ایک جمہوری اور سیکولر اقدار کے حامل ملک میں ایسے باباؤں اور دھرم گروؤں کیلئے کوئی جگہ ہے جہاں انسانیت اور عصمت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔تہذیب، تمدن، ثقافت کی بقا اور صالح معاشرہ کی تشکیل دینے کے دوران ایسے لوگوں سے ملنا ان کی حمایت مانگنا اور آشرواد لینا کہاں تک درست ہے؟۔
اسی سے یہ دوسرا سوال بھی پید ا ہوتاہے کہ عوام کی امنگوں اور جذبات کے ساتھ اس طرح کیوں کھلواڑ کیا جاتاہے، عوام ملکی فلاح ،اسٹیٹ کی ترقی اور لاء اینڈ آڈر کے مسئلے کو کنٹرول کرنے کیلئے کسی کو ووٹ دیتی ہے، اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھیجتی ہے لیکن یہ سیاسی لیڈران کامیاب ہوجانے کے بعد کرمنل ، داغی، ریپسٹ اور سماج کے مجرم باباؤں کے ساتھ مل جاتے ہیں، فلاح و بہبود کا کام کرنے کے بجائے سماج اور معاشرہ کو مزید پراگندہ کرنا شروع کردیتے ہیں
( مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)