پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کڑوروں لوگوں کا مبینہ بھگوان ریپ ، قتل اور دہشت گردی جیسے جرم میں پکڑا گیا ہے، ہندوستان کی تاریخ میں ایسے واقعات کی طویل فہرست ہے جس میں کڑوروں لوگوں کا بھگوان، خودساختہ خدا اور اپنے بھکتوں کی پریشانیاں دور کرنے والا بابا مختلف طرح کے جرائم میں پکڑا گیا ہے ، عوام کے سامنے انہونی کرنے والا سنت سیاہ کارناموں میں ملوث پایا گیا ہے ، مختلف اسباب اور ذرائع کا استعمال کرکے عوام کے سامنے اپنی خدائی کو ثابت کرنے والا پنڈٹوں کا پردہ فاش ہوا ہے، ایسے پنڈٹوں ، سنتو ں اور باباؤں کی طویل فہرست ہے ، ہندوستان میں بہت سے ایسے آشرم پائے جاتے ہیں جہاں دھرم کے نام پر سیکس ریکٹ چلتے ہیں، آستھا کے نام پر باباؤں کے چرنوں میں سر رکھنے والی معصوم لڑکیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتاہے، وہاں ہتھیار ، رائفل بندوق اور دیگر جنگی آلات رکھے ہوئے ہیں، بلکہ یوں کہئے کہ اب تک جتنے بھی آشرموں کے جرائم کا پردہ فاش ہوا ہے وہاں ریپ اور زنا کے واقعات انجام دیئے جانے کے ساتھ ہتھیار برآمد ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں ۔ ریپ کے الزام میں جیل کی سلاخوں میں بند باپو آسا رام کے آشرم سے بھی ہتھیار برآمد ہوئے تھے ، ان کے بھکتوں نے پولس اور میڈیا اہلکاروں پر حملہ کیا تھا، اس کیس کے اب تک کئی چشم دید گواہ بھی قتل کئے جاچکے ہیں، روہتک آشرم کے سربراہ رام پال یادو نے تو نومبر 2014 میں تین دنوں تک باضابطہ پولس اور پیری ملٹری فوج کو یر غمال بنائے رکھا تھا ، رام پال کے دہشت گردوں کے سامنے پولس بے بس اور لاچار نظر آرہی تھی، تین دنوں کی جدوجہد اور تدبیروں کے بعد پولس رام پال کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوسکی تھی، ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ رام رہیم سنگھ انسان کا معاملہ ابھی سب کے سامنے ہے ، کئی کڑور ہندؤوں کا بھگوان بن کر حیوانیت اور شیطانیت کی تمام حدیں پار کرچکا تھا، دن میں خدا بن کر بھکتوں کی پریشانیاں حل کرنے کا ڈھونگ کرتا تھا اور رات کو معصوم لڑکیوں کی عصمتیں تار تار کرتا تھا، یہاں تک کہ اپنی بیٹیوں کو بھی یہ شخص معاف نہیں کرتا تھا ، جب اس کا جرم ثابت ہوا اور عدالت نے مجرم قرار دیا تو ردعمل میں اس کے پالتو دہشت گردوں نے پچاس بے گناہوں کو موت کی نیند سلادیا، کئی شہروں کو آگ کے حوالے کردیا اور دہشت گردی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ ہندوستان کی پولس اور پیرا ملٹری فوج بھی اس کے سامنے بے بس نظر آئی ، 2013 میں دنیا نے عراق کا یہ منظر دیکھا تھا کہ وہاں کی فوج داعش سے خوف زدہ ہوکر الٹے قدموں بھاگ رہی تھی ، اگست 2017 میں یہ منظر ہندوستان کے پنچکولا کا تھا جہاں رام رہیم کے پالتوں دہشت گردوں کے سامنے پولس اور نیم فوج دستہ الٹے قدم اپنی جان بچانے کی فکر میں بھاگ رہا تھا ۔ پوری دنیا ٹی وی اسکرین کے ذریعہ یہ شرمناک منظر دیکھ رہی تھی ۔ ایسے اور بھی کئی بابا ہیں جن پر ریب ، غنڈہ گردی ، دہشت گردی ، قتل ، اقدام قتل اور توہین عدالت جیسا سنگین مقدمہ ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کے گندے ، غنڈے اور بدترین لوگوں کو اتنی بڑی تعداد کی حمایت کس بنیاد پر مل جاتی ہے ، کیوں لوگ روئے زمین کے ایسے بدترین شخص کو اپنا بھگوان مان لیتے ہیں، کیوں سماج میں اسے خدا تصور کرلیا جاتا ہے ، کیوں اسے لوگوں کا اعتماد مل جاتا ہے اور پھر یہ لوگ جادوئی کھیل دکھاکر آستھا اور بھکتی کا غلط استعمال کرکے پورے سماج کو رسوا و ذلیل کرتے ہیں، یہ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے ، خاص طور پر ہندوسماج کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک شخص دسویں میں فیل ہوجاتا ہے ، طالب علمی کے زمانہ میں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے الزام میں اسکول سے نکال دیا جاتا ہے پھر کچھ دنوں بعد وہ بھگوان ہونے کا دعوی کرتا ہے اور لاکھوں لوگ اسے بھگوان مان کر پوجنا بھی شروع کردیتے ہیں، ایک شخص انجینئر ہوتا ہے ، وہاں اسے اپنا کیریئر بنانے میں کامیابی نہیں مل پاتی ہے تو وہ دھرم کا سہارا لیتا ہے اور مندر بناکر خدائی کا دعوی کردیتا ہے، سوئے اتفاق اسے لاکھوں لوگ بھی ایسے مل جاتے ہیں جو اس بھگوان مان کر خود سے بالاتر سمجھتے ہیں، ایک شخص تجارت کرتا ہے لیکن ناکامی ملتی ہے ، کوئی سیکس ریکٹ چلانے کے الزام میں گرفتار ہوجاتا ہے پھر بعد میں سنت بن کر لاکھوں ہندووں کی عقیدت اور توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور بھگوان ہونے کا دعوی کر بیٹھتا ہے اور اس کے بھکت صرف جاہل اور ان پڑھ لوگ نہیں ہوتے ہیں بلکہ تعلیم اور مالدار لوگ بھی ہوتے ہیں، ریپ کے ان مجرموں کے بھکتوں میں اٹل بہاری واجپئی، ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، نریندر مودی سمیت کوئی اہم سیاسی رہنماؤں کا نام شامل ہے ۔
ایک واضح خدا کا تصور نہ ہونے کے بجائے ہر اچھی اور مفید چیز کو خدا سمجھنے کا یہ تصور سب سے اہم ہے اور برادران وطن کہ یہی نظریہ اکثر ان کی رسوائیوں اور ذلتوں کا سبب بنتا ہے، یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ عام انسان کیسے خدا اور بھگوان بن سکتاہے۔ سیاست داں بھی دھرم کا غلط استعمال کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں ، موجودہ بی جے پی سرکار کو ہی دیکھ لیجئے رام رہیم سنگھ پر 2002 سے ریپ کا مقدمہ چل رہا تھا اور 2014 میں اس نے گہرے دوستانہ تعلقات قائم کرلیئے ، مودی اور امت شاہ سے لیکر منوہر لال کھٹر تک زانی اور غنڈہ بابا کا گن گاتے نظر آئے ۔ شمالی ہندوستان میں مذہبی یکجہتی کے پیش نظر مسلمانوں نے گائے کھانا بند کردیا ہے ، کیوں کہ ہندو اسے اپنی ماتا مانتے ہیں لیکن اسی بی جے پی کی رہنما گوا اور جنوبی و مشرقی ہندوستان میں خود بھی کھاتے ہیں اور کھلے عام کھلاتے ہیں ۔
برسبیل تذکرہ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ محمود غزنوی اور اورنگزیب عالمگیر رحمہما اللہ نے جن مندروں کو منہدم کیا تھا وہاں بھی اسی طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں انجام دی جارہی تھیں اور ہندو راجاؤں کی درخواست پر ہی بنارس کی ایک مندر کو اورنگزیب عالمگیرؒ نے منہدم کیا تھا ۔ گذشتہ چند سالوں میں یہ حقیقت بھی منظر عام پر آگئی ہے کہ آشرموں میں ہتھیار، بندوق، بارود اور بم کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے ، یہ دعوی ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ تمام آشرموں میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں لیکن اب تک جتنے بھی آشرموں کا معاملہ سامنے آیا ہے وہاں اس طرح کی چیزیں پائی گئی ہیں ۔ اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کی سلامتی اور امن و آشتی کے پیش نظر آشرموں پر سخت نظر رکھی جائے ، تحقیق کی جائے اور دھرم کے نام پر جولوگ بھی اس طرح کی غیر اخلاقی ، غیرانسانی، غیر قانونی اور ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جائے۔
stqasmi@gmail.com