اب تک زندہ ہے عشرت کا لہو

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
عشرت جہاں کے لہوپر سیاست کا بازار پھر گرم ہے ،19 سالہ دوشیزہ کے قاتلین اب اس قتل کو جائز ٹھہرانے کی کوشش میں مصروف ہیں ، دہشت گرد ہیڈلی کے بیان پر مہرصداقت ثبت کرتے ہوئے ہندوستان کی عدلیہ کے فیصلہ کو غلط ٹھہرارہے ہیں، ضلع کورٹ اور عدالت علیا کے فیصلے اور سی بی آئی کی تحقیق کو کالعدم قراردیکر محض ہیڈلی کی لن ترانی کوسچ تسلیم کرتے ہوئے عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کو سچ قراردینے کی کوشش کی جارہی ہے، سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کو بھی اس میں گھسیٹا جارہاہے بلکہ دہشت گردی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی پاداش میں بھگوابریگیڈ انے انہیں بدنام کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کرلی ہے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کیا ہے سچ عشرت جہاں انکاؤنٹر کا؟ ،ڈیوڈہیڈلی کی اصلیت کیا ہے؟ اور کیوں پی چدمبرم کو بدنام کرنے کی کوشش جاری ہے ۔
عشرت جہاں مہاراشٹر کے ممبرا کی رہنے والی ایک 19سالہ دوشیزہ تھی ،ممبئی کے گورونانک خالصہ کالج میں بی ایس سی سال دوم میں زیر تعلیم تھی ،حصول تعلیم کے ساتھ ایک پرائیوٹ کمپنی میں وہ ملازمت کررہی تھی ۔ جسے اس کے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ احمد آباد کے مضافات میں 15 جون 2004 کوایک انکاؤنٹر کا ڈرامہ بناکر مار ڈالا گیاگ،الزام لگایا گیا تھا کہ وہ سبھی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے رکن تھے اور اس وقت گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کا قتل کرنے جارہے تھے۔
عشرت جہاں کو انکاؤنٹر میں قتل کئے جانے کے بعد سچائی سامنے آئی کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا ،لشکر طیبہ سے اس کاتعلق نہیں تھا ،مسلمانوں اور انصاف پسندوں کے شدید احتجاج کے بعد ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی گئی ،2009 میں احمد آباد کی عدالت میں میٹر وپولیٹن مجسٹریٹ ایس پی تمنگ نے یہ رپوٹ پیش کی عشرت جہاں اور اس کے چار ساتھیوں کا قتل فرضی انکاؤنٹر میں کیا گیا ہے ، رپوٹ میں اس بات کی بھی وضاحت تھی کہ 12 جون 2004 میں عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کو ممبئی کرائم برانچ پولس نے گرفتار کیا ،اسے ممبئی سے احمد آباد لے جایا گیا اور راستے میں انکاؤنٹر کے ذریعہ ان سبھی کا قتل کرکے یہ الزام لگا یاکہ یہ لشکر طیبہ کے آدمی ہیں جو نریندر مودی کوقتل کرنے کیلئے احمد آباد جارہے تھے ،چناں چہ میٹروپولیٹن عدالت نے اس انکاؤنٹر کو فرضی قراردیا ،اس بات کی بھی وضاحت کی کہ لشکر طیبیہ کے ساتھ مقتولین کے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے اور نہ ہی اس بارے میں ثبوت فراہم ہوسکے کہ یہ سب مودی کو قتل کرنے جارہے تھے ۔گجرات حکومت نے اس عدالتی فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج دیتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ پولس کو دفاع کا موقع نہیں دیا گیا ہے لہذا میٹروپولیٹین مجسٹریٹ کی رپوٹ کو ردی کی ٹکری میں ڈال دیا جائے اور از سرنو اس کی تحقیق کی جائے ۔ہائی کورٹ نے اس درخواست کو عملی جامہ پہنانے ہوئے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی2011 میں اس ٹیم نے بھی ہائی کورٹ میں یہ رپوٹ پیش کی کہ انکاؤنٹر فرضی تھا،رپوٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے دفعہ 302 کے تحت فرضی انکاؤنٹر میں شامل 20 اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ۔ جس میں ڈی جی ونجاڑہ سمیت کئی آئی پی ایس افسران ملوث نکلے ،گجرات حکومت کو ہائی کورٹ کی اس تفتیش سے بھی تسلی نہ ہوسکی ،عدالت علیہ کے فیصلے کے پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے یہ مقدمہ سی بی آئی کے حوالے کردیا گیا ،سی بی آئی نے اپنی تمام ترتحقیقات مکمل کرلینے کے بعد وہی انکشاف کیا جو پہلے جو گذشتہ دو رپوٹ میں ہوچکا تھا یعنی سی بی آئی کی تحقیق بھی اسی نتیجے پر پہونچی کا عشرت جہاں انکاؤنٹر فرضی تھا ۔
ڈسٹک عدالت ،ہائی کورٹ اور سی بی آئی کی تحقیق میں یہ حقیقت خورشید کی طرح عیاں ہوگئی کہ عشرت جہاں انکاؤنٹر فرضی تھا ،لشکر طیبہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا ،یہ لوگ نریند مودی کو قتل کرنے نہیں گئے تھے ،لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار کو اس سے بھی تسلی نہیں ہوسکی ،اپنی پشیمانی پر لگے بد نما داغ کو مٹانے کیلئے ایک دہشت گرد ہیڈلی کا سہارا لیا اور ہندوستان پر ہونے والے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ 26/11 کے اہم مجرم ڈیویڈ ہیڈلی کے بیان کو سچ مان لیا کر ،سی بی آئی کی انکوائر ی پر ایک دہشت گردکوترجیح دیتے ہوئے یہ بات ثابت کی گئی کہ ہندوستان میں عدلیہ اور سی بی آئی ناقابل اعتبار اور ایک دہشت گرد کی باتیں معتبر ہیں ۔برسبیل تذکرہ ہم آپ کو ڈیوڈہیڈلی کی اصلیت بھی بیان کردیتے ہیں
ہیڈلی کا اصل نام داؤد سید گیلانی ہے ،پاکستانی سفارتکار سید گیلانی کے یہاں واشنگٹن میں اس کی پیدائش ہوئی ،اس کی والدہ واشنگٹن میں واقع پاکستانی سفارت خانہ میں بطور سکریٹری کام کرتی تھی ،پیدائش کے بعد داؤد گیلانی کی فیملی پاکستان میں قیام پذیر ہوگئی ،تاہم اس کی والدہ یہاں کے معاشرہ کو زیادہ دنوں تک برداشت نہ کرسکی اور واپس امریکہ جاکر وہاں دوسری شادی کرلی ،یہاں پاکستان میں داؤدکے والدنے بھی دوسری شریک حیات کا انتخاب کرلیا ،دواؤد سوتیلی والدہ کے ساتھ زیادہ دنوں پاکستان میں نہ رہ سکا اور واپس امریکہ جاکر کاروبار کرنے لگا ۔ اس پر منشیات کی اسمگلنگ کا بھی الزام عائدہے ،کئی مقدمات اس پر لگے ہیں ،جس کے بعد اس نے اپنا نام تبدیل کرکے ڈیوڈ ہیڈلی رکھ لیا ۔
نام تبدیل کرنے کے بعد ہیڈلی نے ہندوستان کا کئی سفر کیا ،لشکر طیبہ سے ٹریننگ لی ،26/11 کے مجرموں میں ہیڈلی کا نام سرفہرست ہے ،منشیات کی اسملنگ کے جرم میں وہ امریکہ میں بھی زیر حراست رہ چکا ہے ،او رابھی بھی وہ زیر حراست ہے ،ہندوستان کی درخواست پر یہاں کی تحقیاتی ایجنسیوں کو ہیڈلی تک رسائی دی گئی اور کئی دنوں تک ممبئی کی ایک عدالت میں ہیڈلی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اپنا بیان درج کروایا جس میں اس نے یہ بھی کہاکہ عشرت جہاں کو لشکرطیبہ نے ٹریننگ دی تھی ۔
دہشت گردی ہیڈلی کے اس بیان کے بعد بی جے پی اور سنگھ پریوار کی لن ترانیاں شروع ہوگئی ہیں ،ہیڈلی بی جے پی صدر امت شاہ سمیت کئی لوگوں کی آنکھوں کا تارا بن گیاہے ،اس کو عزت واحترام کے القاب سے یاد کیا جانے لگا ہے،بیک زبان ہوکر سبھی نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہے ،یہ پورا معاملہ اور الزام درالزاما کا سلسلہ چل ہی رہاتھا کہ اس دوران سابق وزیر داخلہ پی چدمبر کو بھی اس میں ملوث ٹھہر ادیا گیا ،ان کے ساتھ کام کررہے اندر سکریٹری آر وی ایس منی نے الزام لگادیا کہ ’’ وزیر داخلہ (پی چدمبر) نے حلف نامہ میں دہشت گردی کا لفظ چھپانے کی ہدایت دی تھی ‘‘ اس سے قبل جے کے پلئی نے بھی عشرت معاملہ میں چدمبر کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی ،دراصل اگست 2009 میں عشرت جہاں انکاؤنٹر کے معاملہ عدالت میں پہلاحلف نامہ داخل کیا گیا تھا جس میں واضح طور پر یہ کہاگیاتھاکہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھی لشکر طیبہ سے منسلک ہوئے تھے ،لیکن بعد میں اس حلف نامہ کو تبدیل کردیا گیا جس پر منی کے دستخط ہیں مگر منی کا دعوی ہے کہ ان پر دباؤ بناکر دستخط لئے گئے اور اس حلف نامہ عشرت کے دہشت گر د ہونے کی بات ہٹالی گئی ۔
دوسری عدالت کی طرف سے عشرت جہاں قتل کیس میں مقرر ایک ایس آئی ٹی ٹیم کے رکن رہے سینئر پولیس افسر ستیش ورما نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2004 میں گجرات میں انجام دیا گیا انکاونٹر عشرت جہاں کا منصوبہ بند طریقہ سے قتل تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کے ذریعہ ان پر دباو ڈالے جانے کے الزامات کو بھی مسترد کر دیاہے ستیش ورما نے کہاہے کہ ہماری تحقیقات میں پتہ چلا کہ انکاونٹر سے کچھ دن پہلے آئی بی حکام نے عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں کو اٹھا لیا تھا۔ ان لوگوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور پھر قتل کردیا گیا۔ ستیش ورما معاملہ کی تحقیقات کے لئے گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی اسپیشل تفتیشی ٹیم کے رکن بھی تھے انہوں نے وزارت داخلہ میں انڈر سکریٹری رہ چکے آر وی ایس منی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور آئی بی کو پھنسانے کے لئے منی کو سگریٹ سے داغنے کے ان الزامات پر ستیش ورما نے کہا کہ منی جھوٹ بول رہے ہیں۔
پی چدمبر دراصل اسی وقت سے فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں جب انہوں نے این آئی اے اور ایس آئی ٹی کو بھگوادہشت گردی کا چہرہ بے نقاب کرنے کی اجازت دی تھی ، اس پورے معاملہ کو اوپن کرنے کو کہاتھا جس میں ملک کا یہ زہریلاسانپ چھپاتھا،اس تحقیق سے سازشوں کے کئی جال کا انکشاف ہوا،ہیمنت کرکرے ایسے کئی بارسوخ اشخاص تک پہونچ گئے تھے جو ملک میں دہشت گردانہ حملہ کرکے اس کا الزام غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے سر باندھنا چاہتے تھے ۔ہیمنت کرکرے تو شہید کردیئے گئے لیکن پی چدمبرم کو پھنسانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی اب جب مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار ہے تو وہ پی چدمبر م کو دہشت گردی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی مکمل سزادینے کیلئے کمربستہ نظر آرہی ہے ۔منی کے الزام کے بعد پی چدمبر م مشکل میں پھنس گئے ہیں ،بی جے پی کے چوطرفہ حملہ کا جواب دینے میں کانگریس ناکام نظر آرہی ہے ،ایئر سیل میکسس سودے میں رشوت کے الزام کا سامناکررہے چدمبرم کے بیٹے ان کی لئے دوہری مصیبت بن گئے ہیں ،تاہم سونیا گاندھی نے حمایت کرتے ہوئے صاف طور پر کہ دیا ہے کہ چدمبر م اس معاملے میں اپنا موقف پہلے ہی واضح کرچکے ہیں اس لئے پارلمینٹ میں اس پر بحث کی گنجائش نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود اسپیکرکا اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں اٹھائے جانے کی اجازت دینا یقیناًچدمبر م کو گھیرنے کی حکومتی سازش ہے ۔
عشرت جہاں کا قتل فرضی تھا یا حقیقی اس پر ہندوستان کی کئی عدلیہ فیصلہ کرچکی ہے ،سی بی آئی جیسی تفتیشی ٹیم اپنی رپوٹ میں انکاؤنٹر کی حقیقت واضح طور پر بتاچکی ہے ،لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہیڈلی کے بیان کو حقیقت مان لینا اور چدمبرم کے خلاف پارلیمنٹ میں بحث کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ موجودہ حکومت اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے ،اپنی حقیقت چھپانے اور اپنے جرائم کو پوشیدہ رکھنے کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے ،کچھ بھی کرسکتی ہے کسی کی لن ترانی کو حقیقت اور عدلیہ کی رپوٹ کو غلط قراردے سکتی ہے۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com