برما میں مظلوم مسلمانوں کے قتل عام پر دنیا کے ٹھیکیداروں کی خاموشی

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
برما ( میانمار ) جنوب مشرق ایشیا کا ملک ہے، جس کا ساحلی علاقہ خلیج بنگال سے بحیرہ انڈمان تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ دونوں بحر ہند سے جڑے ہوئے ہیں۔ غرضیکہ برما کا کافی حصہ سمندر کے کنارہ پر واقع ہے۔ خشکی کے اعتبار سے برما کے جنوب مشرق میں تھائی لینڈ، مشرق میں لاوس، شمال مشرق میں چین، شمال مغرب میں ہندوستان کی چار ریاستیں (اروناچل پردیش، ناگالینڈ، منی پور اور میزورم) ، جبکہ مغرب میں بنگلادیش ہے۔ اسی ملک کے جنوب میں ایک شہر رنگون واقع ہے جہاں انگریزوں نے آخری مغل بادشاہ اور 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے لیڈر بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنے پر 1858 میں زندگی بھر کے لیے بھیج دیا تھا۔ وہ 6 نومبر 1862 کو انتقال فرمائے گئے تھے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم اِن دِنوں برما کے دورے پر گئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ملک کی آزادی کے روح رواں (بہادر شاہ ظفر) کی قبر پر جاکر بہادر شاہ ظفر کے اِن اشعار کی یاد تازہ کردی: لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں۔۔۔ کس کی بنی ہے عالمِ نا پائیدار میں۔۔۔ کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں۔۔۔ اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغ دار میں۔۔۔ عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن۔۔۔ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں۔۔۔ کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے۔ ۔۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔۔۔

برما کی آبادی 2014 کے اعداد وشمار کے مطابق پانچ کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ جن میں تقریباً 80فیصد بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں، جبکہ باقی عیسائی، مسلمان اور دیگر اقلیتیں ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے آبادی بہت کم ہے، اس کی ایک وجہ مسلمانوں کا قتل عام اور ملک میں امن وسلامتی کا فقدان ہے۔ عمومی طور پر یہاں برمی زبان ہی بولی جاتی ہے، اگرچہ دیگر زبانیں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ حکومتی سطح پر پانچ فیصد مسلمانوں کی تعداد بتائی جاتی ہے، لیکن مسلمانوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق پانچ کروڑ آبادی میں سے پچاس سے اسّی لاکھ مسلمان ہیں، جن میں سے کافی لوگ بدھوں کے مظالم سے تنگ آکر مختلف ممالک خاص کر ہندوستان، بنگلادیش اور سعودی عرب میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

جمہوری نظام کے قیام کا ’’جھوٹا‘‘ دعویٰ کرکے اب اسے ’’میانمار کی یونین کی جمہوریہ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا دار السلطنت نیپیداو (Naypyidaw) ہے۔ اس سے قبل رنگون (Yangon) برما کا دارالسلطنت ہوا کرتا تھا۔ برما بھی ہندوستان کی طرح ایک عرصہ تک حکومت برطانیہ کے قبضہ میں تھا۔ 1937 سے اس کی آزادی کا سلسلہ شروع ہوا اور 1948میں حکومت برطانیہ سے مکمل طور پر آزاد ہوا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے حق میں برما آج تک آزاد نہیں ہوسکا کیونکہ انہیں غلام بناکر ہی رکھا گیا ہے اور اُن پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، جو اُن مظلوموں کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس ملک کا پرانا نام برما (Burma) ہے، جس کو بعد میں میانمار (Myanmar) کردیا گیا۔ اس نئے نام کو متعدد ممالک نے تسلیم کرلیا ہے جبکہ آج بھی دیگر ممالک نے تسلیم نہیں کیا ہے، جو ابھی بھی اس ملک کو برما ہی کہتے ہیں۔

اس ملک کا خلیج بنگال سے متصل ساحلی علاقہ اراکان کہلاتا ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے۔ اس کی شمالی حدود بنگلادیش سے ملتی ہیں۔ اسی علاقہ سے عرب تاجر کے ذریعہ عباسی خلیفہ ہارون رشید (763۔ 809) کے زمانہ میں آج سے تقریباً 1200 سال قبل اسلام داخل ہوا تھا۔ بندرگاہوں کے موجود ہونے کی وجہ سے عرب تاجر پہلے سے ہی اس علاقہ کا سفر کیا کرتے تھے۔ اس علاقہ میں اسلام کسی سیاسی اٹھا پٹک یاکسی جنگ کے ذریعہ داخل نہیں ہوا تھا بلکہ مسلمانوں کے اوصاف حمیدہ واخلاق عالیہ کی وجہ سے یہاں کے باشندوں نے مذہب اسلام قبول کیا تھا۔ چنانچہ اس علاقہ میں کثرت سے مساجد تعمیر کی گئیں حتی کہ 1430 میں بنگال کی مسلم حکومت کے تعاون سے اس علاقہ میں مسلم حکومت قائم ہوئی، جو 1784 میں بدھ مذہب کے ماننے والے برمی بادشاہ کی طرف سے اس علاقہ پر قبضہ تک جاری رہی۔ غرضیکہ 48 مسلم حکمرانوں نے 354سال مسلسل اس علاقہ میں حکومت کی۔ 1784 میں اس علاقہ پر ناجائز قبضہ کرکے بدھوں کی حکومت نے مسلمانوں پر ظلم وستم کرنا شروع کردیا حتی کہ اُن کی مساجد، مدارس اور اسلامی لائیبریریوں کو بھی ختم کردیا۔ اور بدھوں نے ہر اُس نشانی کو مٹادیا جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی اسلام یا مسلمانوں سے تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں، انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کرکے بدھ مذہب کے مطابق عبادت گاہیں بناکر مسلمانوں کو بدھ مذہب کے مطابق عبادت کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں مسلمان اپنی جان ودین کی حفاظت کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔ بدھوں نے چالیس سال تک مسلمانوں پر ایسا ظلم وستم کیا کہ زمین وآسمان نے ظلم وبربربیت کی ایسی مثالیں کم ہی دیکھیں ہوں گی۔

1824 میں پورے برما پر برطانیہ نے قبضہ کرکے برما کو بھی ہندوستانی حکومت کے ساتھ ملادیا تھا، مگر برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند ہونے پر 1937میں برطانوی حکومت نے اس علاقہ کو ہندوستانی حکومت سے الگ کرکے جزوی آزادی دے دی تھی مگر اپنی ہی حکومت باقی رکھی۔ یعنی تقریباً 113سال برما ہندوستان کا ہی حصہ رہا۔ اسی دوران 1942 میں بدھوں نے مسلمانوں خاص کر بوڑھوں، خواتین اور کمزوروں کو شہید کرکے اپنی دیرینہ خواہش پوری کرنے کی کوشش کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی بدھ مذہب کے ماننے والوں کو موقع ملا انہوں نے اقلیتوں پر ظلم وستم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بدھوں کے دلوں میں ذرہ برابر بھی انسانیت موجود نہیں ہے، انہوں نے درندے بن کر غریب وکمزور مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور ابھی بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں، چنانچہ 1947میں برما کی آزادی کے لیے مختلف جماعتوں اور قبیلوں کو جمع کرکے بدھوں نے ایک کانفرنس منعقد کی لیکن ہمیشہ کی طرح نفرت وعداوت رکھنے والے بدھ مذہب کے پیروکاروں نے اس کانفرنس میں مسلمانوں کوشرکت کی دعوت نہیں دی اور انہیں ملک سے نکالنے کی تدابیر پر غور وخوض کیا۔

1948 میں برطانیہ نے برما کو آزاد تو کردیا مگر مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ آج تک جاری ہے، حتی کہ امن کی نوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی کے برما کا حکمران بننے کے باوجود غریب وکمزور مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ غرضیکہ 1948 سے لے کر آج تک بدھوں نے نہ تو بین الاقوامی قوانین کا لحاظ رکھا ہے اور نہ ہی انسانیت کا کوئی عنصر اُن میں موجود ہے بلکہ وہ درندوں کی طرح وقتاً فوقتاً ہزاروں غریب مسلمانوں کو اس طرح قتل کرتے ہیں کہ انسانیت بھی شرمسار ہوجاتی ہے، سوشل میڈیا کے ذریعہ اُن کی حیوانیت کے مناظر دیکھ کر انسانوں کی آنکھوں سے آنسوں بہہ جاتے ہیں۔ مگر دنیا میں امن وسلامتی کے علمبردار، مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے اور ا سلامی تعلیمات پر تنقید کرنے والے ایک لفظ اِن ظالموں کے خلاف کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہی سب سے زیادہ ظلم کیا جارہا ہے اور مسلمان ہی سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ہیں، لیکن اس کے باوجود عالمی میڈیا مسلمانوں کو ہی بدنام کرتی ہے۔ مزید افسوس کی بات ہے کہ مسلم حکمرانوں نے بھی ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے۔

دنیا کے احوال سے واقف امن پسند انسان پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں اس قوم سے زیادہ کسی بھی جماعت یا قبیلہ پر ظلم وستم کے پہاڑ نہیں توڑے گئے۔ بدھ مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ میانمار حکومت بھی اِن غریب مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہے۔ میں نے بدھ مذہب کی تعلیمات نہیں پڑھی ہیں لیکن اس مذہب کے ماننے والوں کے قابل مذمت وقابل ملامت کرتوت کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مذہب ہی شاید انتہا پسندی، غریب وکمزور لوگوں پر ظلم کرنے، ان کو بے گھر کرنے اور انہیں کھلی فضا میں سانس نہ لینے دینے کی ہی دعوت دیتا ہے کیونکہ عرصۂ دراز سے ان نہتھے غریب مسلمانوں کو صرف اس لیے قتل کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ غریب مسلمانوں کشمیریوں کی طرح پتھروں سے بھی مقابلہ نہیں کرتے ہیں۔

1948 سے اب تک لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ ہزاروں افراد کو شہید کردیا گیا ہے، ہزاروں عورتوں کو بیوہ اور بے شمار بچوں کو یتیم بنادیاگیا ہے، اُن کو ملازمت کرنے کی عام اجازت نہیں ہے۔ عمومی طور پر اُن کا روزگار کھیتی پر منحصر ہے ، اس پر بھی بے شمار پابندیاں ہیں، اپنا گھر بنانے حتی کہ اس کی مرمت کرانے کے لیے متعدد قدغن لگی ہوئی ہیں۔ انہیں ووٹ ڈالنے کا حق بھی نہیں ہے، غرضیہ انہیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں ہے، اور ظلم وستم کا یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مگر امن وسلامتی اور انسانیت کے نام پر بنی بین الاقوامی اور علاقائی تنظیمیں صرف تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

عید الاضحی کے دنوں میں ایک بار پھر بدھوں نے اُن غریب مسلمانوں کا قتل عام کیا جن کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا، مگر دنیا کے ظاہری ٹھیکیدار چپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سیاسی حکمرانوں سے کسی اچھے کام کی توقع کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں ہمیں چاہئے کہ انسانیت اور اخوت کی اعلیٰ مثال پیش کرکے برما کے مظلوم مسلمانوں کی حتی الامکان مالی مدد کریں، انہیں اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں اور قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مساجد اور علماء کرام سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ اگر ہمارا رشتہ مساجد اور علماء کرام سے مضبوط ہوگا تو ان شاء اللہ باطل طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ ورنہ یاد رکھیں کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں بھی اس نوعیت کے احوال مستقبل میں سامنے آسکتے ہیں۔ برما کے اراکان علاقہ پر 354 سال مسلمانوں کی حکومت رہی ہے لیکن آج وہاں کے مسلمان اقتصادی اعتبار سے بھی بہت کمزور ہیں، دینی اعتبار سے بھی اُن میں کمزوری موجود ہے اور اُن پر ایسا ظلم وستم کیا جارہا ہے کہ غالباً اُن کے آباو اجداد نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہم ہندوستان میں 15۔20 فیصد ہوکر اپنے بچوں کے مستقبل کو زیادہ محفوظ نہ سمجھیں کیونکہ ہندوستان میں بھی گنگا جمنی تہذیب کے برخلاف اِن دِنوں نفرت، عداوت اور دشمنی کی سیاست کی جارہی ہے۔ آپس میں نفرت پھیلانے، اقلیتوں میں خوف وہراس پیدا کرنے اور قتل وغارت گری میں ایک طبقہ کے ذاتی مفادات مضمر ہیں، جو ہندوستان کے سیکولر کردار کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ہندوتوا کی جڑیں کافی مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔ آئے دن مسلمانوں کو گاؤکشی کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔ مساجد، مکاتب اسلامیہ، مدارس، علماء کرام اور مسلم تنظیموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تین طلاق کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ آپسی اختلاف کو پس پشت ڈال کر شریعت اسلامیہ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ سینکڑوں سالوں کے اختلاف چند دن میں ختم کردئے جائیں، لیکن ہم اتحاد واتفاق کا عملی مظاہرہ ضرور کرسکتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے 95 فیصد مسائل جن پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے، اُن کو اپنی زندگی میں لاکر اُن کی خوب تبلیغ کریں۔ پانچ فیصد مختلف فیہ مسائل میں جھگڑا کرنے کے بجائے اپنے اپنے علماء سے رجوع کرکے ان پر عمل کریں۔ جن مسائل کاحل آج تک نہیں ہوا ہے، اُن مسائل کے حل میں اپنی صلاحیتیں لگانے کے بجائے جن 95 فیصد مسائل میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے اُن کو اپنے قول وعمل سے زندہ کریں۔ جس طرح برما کے لوگ مسلمانوں کے اخلاق عالیہ واوصاف حمیدہ دیکھ کر ایمان لائے تھے، اسی طرح ہم اپنے اخلاق کو بہتر بنائیں، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، ملازمین کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں خواہ وہ کسی بھی علاقہ کا رہنے والا ہو۔ معاشرہ کی برائیوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اور قرآن وحدیث کے علوم سیکھنے کے ساتھ دنیاوی تعلیم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
(www.najeebqasmi.com)