روہنگیا!
تم اس طرح مارے گئے
کاٹے گئے
میں چپ رہا
روہنگیا!
بولو نہ کچھ
روہنگیا تم کو بھی کیوں چپ لگ گئی
کیوں اس طرح روٹھے ہو تم
بولو مرے روہنگیا!
میں کیا کروں روہنگیا!
مجھ سے مرے ابا بھی اب ناراض ہیں
ان کی لحد سے ہر گھڑی آواز آتی ہےمجھے
بیٹے! تمہیں کچھ کمسنی کی یاد بھی آتی نہیں
بیٹے! تمہیں کچھ ابن قاسم بن کے جینے کی وصیت بھی نہیں ہے یاد کیا
بیٹے! تمہیں سترہ برس کے اس محمد ابن قاسم کی قسم
جس کو بہن کی عفت و عصمت نے للکارا تو اس نے وقت کی جبار قوت کو مٹا کر دم لیا
روہنگیا!
تم اس طرح مارے گئے
کاٹے گئے
میں چپ رہا
میں کیا کروں
اب تو مرے دادا میاں کی روح بھی شرمندہ ہے
میری ولادت پر مرے دادا نے خالد نام رکھا کس قدر ارمان سے اور شوق سے
سنتے ہو تم
خالد ہوں میں روہنگیا
پھر بھی مگر خاموش ہوں
خالد نہیں بزدل ہوں میں
روہنگیا، روہنگیا!
مجھ میں بھلا خالد کی کچھ خو بو کہاں
خالد نہیں بزدل ہوں میں
روہنگیا!
تم مرگئے، تم کٹ گئے
روہنگیا ماؤں کی اور بہنوں کی عصمت لٹ گئی
میں چپ رہا
غیرت ہی میری مرگئی
روہنگیا
خالد نہیں بزدل ہوں میں
بزدل نہیں، مردہ ہوں میں
روہنگیا! آؤ جنازہ پڑھ بھی لو
مردہ ہوں میں، مردہ ہوں میں، مردہ ہوں میں۔
خالد مبشر
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی