خبردرخبر(524)
شمس تبریز قاسمی
ہندتوا کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرنے والی بیباک خاتون جرنلسٹ گوری لنکیش نے اپناآخری مضمون لکھاتھا’’فیک نیوز کے اس زمانے میں ‘‘اس تحریر میں انہوں نے آر ایس ایس کی جانب سے چلائی جانے والی فرضی خبروں کا تفصیل سے جائزہ لیاتھا ،کہاجاتاہے کہ سنگھ کیلئے یہ تحریر ناقابل برداشت ہوگئی تھی او ران کے قتل کا سبب بھی بنی ،گوری کے اس مضمون کو بہت شہرت ملی ،اردو میں بھی ترجمہ ہوکر سوشل میڈیا پر یہ مضمون وائرل ہوا،گوری لنکیش کے ہی اس انداز کو اختیار کرتے ہوئے آج میں نے اپنے اس کالم کا عنوان لگایا ہے ’’ بھکتی کے اس زمانے میں‘‘ یہاں بھی تذکرہ فرضی خبروں کا ہی ہوگا تاہم کردار کچھ مختلف ہوگا انہوں نے آر ایس ایس اور اس کے بھکتوں کی جانب سے چلائے جانے والی فرضی خبروں کا تجزیہ کیاتھا، یہاں مسلم حکمرانوں کے بھکتوں کی جانب سے چلائی جانی والے فرضی خبروں کا تذکرہ کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ عقیدت ،محبت اور فرط جذبات میں ہم مسلمان اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کرجاتے ہیں،صداقت اور تحقیق کو گناہ سمجھتے ہوئے طیب اردگان،شاہ سلمان اور حسن روحانی سے متعلق ہر خبر کو دوسروں تک پہونچا فرض عین سمجھتے ہیں،افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیاکے ساتھ اب مسجد کے ممبر ومحراب سے بھی فرضی خبروں کی تشہیر کی جانے لگی ہے۔
اس تحریر کا آغاز ہم عصر حاضرکی سب سے بڑی فرضی خبر سے کرنے جارہے ہیں ،جی ہاں! گذشتہ ایک ہفتہ سے سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ تعداد میں جو خبر شیئر ہوئی ہے وہ یہ’’ کہ 57 مسلم ممالک پر مشتمل دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الاقوامی آرگنائزیشن ’’اسلامی تعاون تنظیم ‘‘بہت جلد میانمار پر حملہ کرنے والی ہے ،مسلم حکمرانوں نے روہنگیا کی ہورہی نسل کشی کے خلاف میانمار کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کا فیصلہ کیا ہے ،یہ خبر وہاٹس ایپ ،فیس بک او ردیگر سوشل میڈیاپر عوام کے ساتھ تعلیم یافتہ اور سماج کے ذی شعور لوگ بھی شیئر کررہے ہیں،میرے پاس بھی دسیوں آدمی نے یہ خبر بھیج رکھی ہے ،البتہ ان میں چند ایسے بھی تھے جنہوں نے خبر بھیج کر اس کے تصدیق چاہی ۔حالاں کہ اسلامی تعاون تنظیم نے سوائے مذمت کے کچھ اور نہیں کیاہے ، ان دنوں قزاقستان کی راجدھانی آستانہ میں آئی اوسی کا اجلاس جاری ہے ،رپوٹ کے مطابق روہنگیا کے سلسلے میں بھی کچھ تبادلہ خیال ہوگا ۔
اسی سے ملتی جلتی ایک اور بہت بڑی فرضی خبر سوشل میڈیا پر بہت تیزی کے ساتھ وائر ل ہورہی ہے ،متعدد تجزیہ نگاروں کی تردید کے باوجود فرط عقیدت میں اس خبر کے شیئر ہونے کا سلسلہ رک نہیں پارہاہے ، ہوسکتاہے آپ نے بھی یہ خبر شیئر کی ہوگی کہ ’’ترکی او رایران کی فوج اگلے 24 گھنٹے میں میانما ر پر حملہ کرنے والی ہے‘‘ ،یہ خبر یکم ستمبر کے بعد سے ہی شیئر ہورہی ہے اور کڑورں کی تعداد میں تقریباسوشل میڈیا پر پوسٹ ہوچکی ہے ، جبکہ اس خبر میں ذرہ برابر بھی کوئی صداقت نہیں ہے ،اس کے جھوٹ ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ یکم ستمبر کے بعد سے اب تک دسیوں چوبیس گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن اب تک ان دونوں ملکوں نے اپنا سفارتی رشتہ بھی منقطع نہیں کیا ہے،فوجی آپریشن اور حملہ ان کی رسائی ابھی بہت دور ہے ۔طیب اردگان کی بہت کوششوں اور فون کے ذریعہ آنگ سوچی پر دباؤ ڈالنے کے بعد ترکی کو اب وہاں امداد کرنے کی اجازت ملی ہے۔اس فیک نیوزسے پریشان ہوکر ایران اور ترکی کو بھی وضاحت کرنی پڑی کہ ایسا کچھ نہیں ہے ،یہ محض افواہ ہے ۔ وہاٹس ایپ کے کچھ گروپس میں اس طرح کی خبر پر بھی نظر پڑی کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف جو ان دنوں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل شدہ 34 ممالک کی فوج کے سربراہ ہیں بہت جلد میانما رکا وجود نیست ونابود کرنے والے ہیں،اسلامی ممالک کی جانب سے انہیں اجازت بھی مل چکی ہے ،کسی بھی وقت حملہ ہوسکتاہے ۔
فرضی خبروں کی تشہیر کیلئے سوشل میڈیا سب سے زیادہ بدنام ہے ، اسی لئے ان ذرائع سے آنے والی خبروں کی تصدیق ضروری ہوتی ہے ،لیکن گزشتہ جمعہ کو ایک ایسی ہی فرضی خبر مسجد کے ممبر ومحراب سے سننے کوملی ،دہلی کی ایک مسجد کے خطیب محترم انتہائی جرات مندی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ سعودی حکومت نے بنگلہ دیش کی سرکار سے کہاہے کہ وہ روہنگیا کیلئے اپنے دروازے کھول دے ،مہاجرین کے تمام مصارف سعودی حکومت برداشت کرے گی ،خطیب محترم نے میڈیا اور دیگر لوگوں کو اس خبر کو چھپانے کیلئے موردالزام بھی ٹھہرایا اور منافق تک کہ بیٹھے ،جبکہ سچائی یہ ہے کہ سعودی عرب نے بنگلہ دیش میں پناہ گزین مہاجرین کے سلسلے میں اب تک کوئی اعلان نہیں کیاہے ، البتہ یہ ضرور ہے کہ سعودی عرب میں دولاکھ سے زائد روہنگیا پناہ گزین ہیں اوروہاں کی حکومت ان کی مکمل کفالت کررہی ہے ۔امام محترم کی زبان سے سننے کے بعد عرب اخبارات کے ساتھ سعودی عرب کی سرکاری ایجنسی میں بھی میں نے یہ نیوز تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ خبرکہیں بھی نہیں مل سکی ،اس کی مزید تحقیق کیلئے میں نے فیس بک پر لکھا کہ ایسا کہاگیاہے ،براہ کرم کوئی صاحب اس نیوز کا لنک بھیج دیں۔لیکن فیس بک دوستوں نے کوئی معقول جواب پیش کرنے یا تحقیقی بات کرنے کے بجائے محراب سے جھوٹ بولنے والے امام کی طرفدار کربیٹھے او رالٹے راقم الحروف پر ہی تنقید کی بو چھا کرنے لگے۔
فرضی خبروں کی تشہیر اور اس طرح کی نیوز کو وائرل کرنے میں سب سے نمایاں رول پاکستان کی اردو میڈیا انجام دیتی ہے ،ترکی اور ایران کے تعلق سے مذکورہ خبریں بھی پاکستان ہوکر ہی ہندوستان پہونچی ہے ، بنگلہ دیش کے تعلق سے پاک میڈیا پیر و پیگنڈا کرنے میں کوئی موقع نہیں گنوا تی ہے ،اقوام متحدہ کے مطابق گذشتہ 25 اگست کے بعد سے لیکر اب تک تقریبا سولاکھ سے زائد روہنگیا بنگلہ دیش کا رخ کرچکے ہیں ،الجزیرہ کی رپوٹ کے مطابق پہلے سے وہاں پانچ لاکھ مہاجرین موجود ہیں،دوسرے لفظوں میں یوں کہیئے کہ سب سے زیادہ روہنگیا بنگلہ دیش میں ہی پناہ گزین ہیں،اس کے باوجود پاک میڈیا یہ خبر شائع کرتی رہتی ہے کہ بنگلہ دیش نے دشمنوں سے بدتر سلوک روہنگیا کے ساتھ کیا،مہاجرین کی کشتی کو واپس لوٹادیاجبکہ ان خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے ۔
گزشتہ دنوں ترک صدر رجب طیب اردگان کی اہلیہ بنگلہ دیش کے دوڑے پر تھیں،وہاں نے انہوں نے مہاجرین کے کیمپ کا جائزہ لیا ،ان کے درمیان ریلیف تقسیم کیا اور ان کے غم میں شریک ہوکر انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی ،لیکن اس خبر کے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر امینہ اردگان کی ایک سال پرانی تصویر اور ویڈیو شائع ہونے لگی جب وہ برما گئی تھیں،اتفاق کہیئے کہ اس تصویر میں سابق وزیر اعظم داؤ اوغلو ہر جگہ نظر آرہے ہیں اس لئے باآسانی تحقیق ہوگئی کہ یہ پرانی تصویر ہے ، سوئے اتفاق ملت ٹائمز کی ایک نیوز میں بھی پرانی تصویر شائع ہوگئی ۔
بھکتی اور عقیدت کے نام پر وائرل ہونے والی ایسی فرضی خبروں کی ایک طویل فہرست ہے ،تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس طرح کی خبروں کی تشہیر میں عموما تعلیم یافتہ لوگ ملوث ہوتے ہیں،ہر ماہ دو تین آڈیو بھی اس نہج کی موصول ہوجاتی ہے یہ فلاں مسجد کی تصویر ہے ،مودی سرکار اس کو توڑی رہے ہے ،تمام مسلمان بھائی ایمانی غیر ت کا ثبوت دیتے ہوئے مسجد کے تحفظ کی فکریں جبکہ وہاں اس طرح کی کوئی مسجد نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں ذرہ برابر کوئی سچائی ہوتی ہے ۔