قاسم سید
قومی و عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں ، رفاقتوں اور رشتو ں کی نئی زنجیروں کی تخلیق میں دہشت گردی کی مارکیٹنگ کا سب سے کلیدی رول ہے ۔ضرورت کے حساب سے دہشت گرد تنظیمیں تشکیل دی جاتی ہیں ان کا دائرہ کار طے کیا جاتا ہے اور جب ان کے قیام کا مقصد و اہداف پورے ہو جاتے ہیں تو ان کو تباہ کردیا جاتا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کہ داعش کا بیج ہیلری کلنٹن نے ڈالا تھا یعنی سابق امریکی حکومتوں کا رول بھی بین حقیقت ہے اسی طرح القاعدہ ہو یا النصرہ فرنٹ یا کوئی اور نام بوکو حرام سے لے کر شام ،یمن ،عراق وغیرہ میں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں صرف آلہ کار ہیں یہ روبوٹ کی طرح کا م کرتی ہیں اسلام کا نام لے کر مخالفین کو تہ تیغ کرتی ہیں ورنہ جو بھی اسلام کا پیرو کار ہے وہ بے گناہ کی جان لے ہی نہیں سکتا ۔ایسی تنظیموں کے تار و پود رد عمل کے خمیر سے تیار کئے جاتے ہیں آگے بڑھ کر یہ طاقتیں ایسی تحریکوں کو بھی دہشت گردوں کے زمرہ میں شامل کر لیتی ہیں جو ان کے اشاروں پر کتھک کرنے کو تیار نہیں ہوتیں ۔انہیں بلیٹ کے ذریعہ اقتدار تک پہنچے سے روکا جاتا ہے جیسے الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ اور فلسطین میں حماس ،مصر میں اخوان ،مراکش میں النہضہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں انہیں عوام نے ووٹوں کے ذریعہ اقتدار سونپا تو کہیں فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا یا پھر ایسی اڑچنیں ڈالی جاتی ہیں کہ عوام بدظن ہو جائیں جو اپنے ذہن و دماغ سے نہ سوچیں بلکہ جو کچھ بتایا جائے بغیر اعتراض چوں چرا کے اس پر عمل کریں ،ان کو ڈکٹیٹر ، بادشاہ عزیز ہیں کیونکہ وہ بیساکھیوں پر چلتے ہیں جمہوری حکمراں ناقابل برداشت کہ وہ اپنی راہ خود چننے پر اصرار کرتے ہیں ،نافرمانوں کو نظریاتی دہشت گرد بتا کر انہیں تعزیرات میں کس دیا جاتا ہے ۔فرضی ڈوھونگی عدالتوں سے فیصلہ کرکے پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں ،اپنی سہولتوں کے مطابق مجاہدین اور ضرورتوں کے تحت دہشت گرد کا پرسکار دیا جاتا ہے ،کبھی دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈالا جاتا ہے اور سیاسی ٹول بنانے کے لئے کبھی اس فہرست سے نکال دیتے ہیں یہ تماشے ہر جگہ ہر سطح ہر ہوتے ہیں فرضی دہشت تنظیمیں جن کا کہیں وجو د نہیں ہوتا کاغذوں میںبنتی ہیں ان کے سر کچھ حملے ڈال دیتے ہیں اور پھر تفتیش کے بہانے بے گناہوں کو اٹھانے کی مہم چلتی ہے ۔ہر حمہوری یا غیر جمہوری ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی یہ سرگرمیاں کھلا راز ہیں ۔اب تو حال یہ ہے کہ لکھنے والوں کو بھی معتوبین کے درجہ سے سرفراز کرنے کی فیاضی کے مظاہرےعام ہو گئے ہیں ۔یہی نہیں اب حکومتوں کے خلاف یا ان کے حق میں مظاہرے بھی مینیج کئے جاتے ہیں گویا کواکب ہیں کچھ نظر آتےہیں کچھ یہ بازی گر کھلا دھوکہ دیتے ہیں ۔ان حالات میں بہت صبر و تحمل، قوت برداشت اختلاف میں اتحاد کی راہیں تلاش کرنے کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔دام ہم رنگ زمین کے مصداق یہ پتہ لگانا بہت مشکل ہو گیاہے کہ کون خیر خواہ ہے اور کون دشمن ،کون آگ پر پانی ڈال رہا ہے اور کون پٹرول چھڑک کر اسے آتش فشاں بنانا چاہتا ہے ۔کون ہمدردی کی کھال اوڑھے لوٹنے ،غلط راستے پر ڈالنے اور جذبات کو غلط سمت دے کر اندھے کنوئیں میں دھکیل دینا چاہتا ہے ۔
روہنگیا کے معاملہ میں بھی یہی دیکھا گیا خالص انسانی المیہ کو بڑی عیاری و مکاری کے ساتھ مسلمانو ں کا المیہ بنا دیا گیا ۔پھر اسے فرقہ وارانہ کھاد دی گئی تاکہ نفرتوں کی کھیتی سرسبز و شاداب رہے کہیں نہ کہیں اس جال میں الجھتے گئے ۔مسلمان مسلمان کے کھیل میں رہنگیائی شہریوںکی جان پر بن آئی جب کوئی ملک قبول کرنے کو تیار نہیں مسلم ممالک نے بھی اپنے دروازے بند کر دئے اور دکھاوے کے لئے امداد کے کچھ کاغذ پھینک دیے تو ہندوستان جنت نشاں میں ان سیاسی قوتوں کو زبان ملک گئی جو روہنگیاؤں کو ایک پل برداشت کرنے کو تیار نہیں اور انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں ۔میانمار کا سرکاری نظریہ یہی ہے کہ روہنگیا دہشت گردی پھیلا رہے ہیں ملک کی سلامتی کے ئے خطرہ ہیں وہاں سرگرم عسکری تنظیم کی کارروائیوں نے روہنگیا کے مظلومین کا مقدمہ کمزور کیا ہے ۔عالمی برادری سے جو ہو سکتا ہے وہ کر رہی ہے اس سے زیادہ کیا جاسکتا تھا مگر عام شکایت یہی ہے کہ خاص طور سے عرب ممالک گونگے کاگڑ کھا کر بیٹھے ہیں جس طرح فلسطینیوں کا صابرہ وششیلا کیمپوں میں اجتماعی قتل عام ہوا تھا،روہنگیائی شہریوں کے ساتھ میانمار کی فوج اپنی نوبل امن یافتہ لیڈر کی حمایت و معاونت سے انجام دے رہی ہے ،اجتماعی عصمت دری ،خواتین کے پرائیوٹ پارٹ کے ساتھ وحشیانہ درندگی کے ثبوت بنگلہ دیش پہنچتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،فرضی ویڈیو اور تصاویر آگ میں گھی ڈالتے ہیں اور نوجوان نسل یہ سب دیکھ کر پاگل ہو جاتی ہے اس کے غصہ کو صبر کے باندھ کی ضرورت ہوتی ہے ۔احتجاجی مظاہرے تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں دباؤ بنانےمیں مدد کرتے ہیں مگر حکمت عملی کے فقدان سے ہدف حاصل نہیں ہوتے ،سفارتی تعلقات منقطع کرنے تجارتی رشتے توڑنے کے غیر منطقی مطالبے ہمارے تدبر کا مذاق اڑاتے ہیں یہ گڑیا گڈے کا کھیل نہیں ہے یعنی ہمیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ ہم چاہتے کیا ہیں ۔جذباتی نعروں اور تیزابی تقریروں سے جذبوں کی طغیانی کو کنارہ ملک جاتا ہے لیکن مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنگیا کے باشندے مسلمان ہیں انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے ہی ستایا جا رہا ہے ۔عالمی برادری نے دہائیوں پرانےمسئلہ کا اب تک کوئی حل تلاش نہیںکیا لیکن اس سے زیادہ یہ انسانی بحران ہے بد قسمتی سے انسانی بحران اور المیہ مسلم المیہ میں تبدیل ہوگیا ۔یہ ان عناصر کی ناآسودہ آرزوؤں کی تکمیل ہے جو مسلمانوں کی تاریخ کو اسپین میں انجام سے جوڑنے کا خواب دیکھتے ہیں اور اسے دہرانے کی خواہش میں بارود بھری جاتی ہے ۔ہندوؤں کی مبینہ اجتماعی قبریں ملنے کی میانمار کی سرکاری خبر نے ہندوستان کے ماحول میں آتش گیرمادہ اچھالنے کا کام کیا ہے۔ٹی وی ڈیبیٹ اور سرکاری کا رندوں کے بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روہنگیا کوکس طرح چارہ کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت اختیار کی گئی ہے اور جب کوئی معاملہ دہشت گردی سے بھی جو ڑ دیا جائے تو پھر دوآتشہ ہو جاتا ہے ۔دہشت گردی اور مسلمان ہماری لاکھ کوششوں اور مزاحمتوں کے باوجود لازم و ملزوم بنا دیے گئے ہیں اس پر فرقہ وارانہ نفرت کا غازہ لگا دیا جائے تو ہندو تووادی طاقتوں کے لئے اسٹیج تیار ہو جاتا ہے ہم نے بھی اپنی غلطیوں سے روہنگیائی مسئلہ پر مسلم رنگ چڑھا دیااور وہ غالب آگیا۔اس طرح خالص انسانی المیہ اس غبار میں کھو گیا ۔روہنگیا کے بہانے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کو یقیناً ہر ذی شعور اچھی طرح سمجھ رہا ہوگا ۔اسکی نزاکتوں کو محسوس کر رہا ہوگا ۔
مثلا ڈوکلام میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہند-چین روہنگیا معاملہ پر ایک ساتھ کھڑے ہیں امریکہ زیادہ سرگرم اس لئے نہیں ہونا چاہتا کہ چین کے علاوہ میانمار کے چین کی گود میں جانے کا خطرہ ہے ۔دہشت گردی سے معاملہ جڑنے کے بہانے ہندوستان میانمار کی حمایت کرنے پر مجبور ہے جب تک بین الاقوامی پیچیدگیوں پرنظر نہیں ہوگی معاملہ کی تہہ تک پہنچنا مشکل ہوگا ۔ روہنگیا کے بہانے ہر کھلاڑی اپنی بساط بچھا رہاہے ۔رہے عرب ممالک تو ان پر صرف ترس کھایا جا سکتا ہے وہ اپنے دن گن رہے ہیں انہیں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی مہم سے فرصت ملے تو ادھر کی فکر کریں ۔ اپنے بھائیوں پر چڑھائی اور ان کے خلاف مہم جوئی کا مرحلہ ختم ہو تو میانمار کی طرف دیکھیں بس اندیشہ یہ ہے کہ حساس ترین مسائل سےصرف نظر کرنےسے وہ کہیں مسلم قیادت کا رتبہ نہ کھو دیں بھلے ہی ان کا اکرام و احترام باقی رہے ۔ہمارا کیس کتنا ہی مضبوط ہو وکیل کی زیادہ فعالیت اور جوش سے مقدمہ ہار جاتے ہیں ۔بد قسمتی سے اس معاملے میں ریکارڈ اچھا نہیں ہے ۔اشاروں میں کہی گئی باتیں زیادہ معنی خیز ہوتی ہیں اور بات دور تک پہنچ جاتی ہے کیا یہ بات صحیح ہے ۔
qasimsyed2008@gmail.com