میانمار فوج کے شکار ہندو روہنگیا

 ڈاکٹر ایم اے ابراہیمی
(ریٹائرڈ ائی اے ایس) 

میانمار فوج اور حکومت کے ذریعہ روہنگیا آبادی کی نسل کشی کی ظالمانہ حرکتوں سے اب پوری دنیا واقف ہو چکی ہے۔ عالمی رہنماﺅں اور دنیاکے لوگوں کے ذریعہ آنگ سو کی کے کردار پر سخت تنقید کیا جارہا ہے ۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے غصہ کا سامنا کرنے کی وہ ہمت جٹا نہیں پارہی ہے۔ انکو اعزازی ڈگری دینے والی ایک یونیورسیٹی نے ڈگری واپس لے لی ہے۔ان سے امن کا نوبل انعام چھین لینے کی مانگ بھی زور پکڑ لی ہے۔ 

میانمار کی آزادی سے لیکر اب تک فوج کا کردار ایک نہایت ہی شرمناک تاریخ ہے۔ انلوگوں نے خود اپنے منتخب رہنما ﺅںکا قتل کرکے جمہوریت کو سلب کر لیاتھا۔شاید یہ فوج پوری دنیامیں ایک غیر مہذب اور ظالم فوج کی شکل میں نظر آتی ہے جو اپنی عوام پر بھی بے انتہا ظلم کرتی ہے۔ 

پوری دنیامیں پرزور تنقید کا سامنا کرنے والی میانمار حکومت اور فوج نے ہندو مسلم مذہبی خطوط پر روہنگیا کو تقسیم کرنے کیلئے پروپگنڈہ اور شر انگیزی مہم شروع کیا ہے ۔ وہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ حکومت ہنداور ہندوستانی عوام ہندوستان میں رہ رہے روہنگیا مسلم پناہ گزینوں سے کوئی انسانی ہمدردی دکھائے ۔

میانمار فوج اب یہ افواہ پھیلارہی ہے کہ روہنگیا ہندو ﺅںکو روہنگیا مسلم دہشت گردوں کے ذریعہ قتل کیا گیاہے ۔ اس سے پہلے انہوں نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ فرار ہونے والے روہنگیا مسلم اپنا آشیانہ اور گاﺅں خود نذ ر آتش کر رہے ہیں ۔ دنیا نے میانمار کے الزام کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ کچھ دن کے بعد یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ر وہنگیا مسلمانوںنے آپس میں قتل و غارتگیری کیا اور اپنے اجسام کو خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کیا اور خود کو زندہ جلادیا ۔ سیاسی اور مذہبی منافرت والے ایسے ماحول میں ایسے افواہ اورپروپگنڈہ پھیلائے جاتے ہیں جو بہت کم وقفہ کیلئے ہو سکتا ہے ۔ 

میں میانمار کے شر انگیزپروپگنڈہ او ر سفید جھوٹ کو سامنے لانا چاہتا ہوں کہ روہنگیا ہندوﺅں کو روہنگیا مسلم دہشت گردوں کے ذریعہ قتل کیا گیاہے۔ 

۱۔ میانمار کے رکھائن اور دوسرے صوبوں میں بودھوں کی کثیر آبادی ہے ۔ روہنگیا مسلم اور ر وہنگیا ہندو کی آبادی کا تناسب بہت ہی کم ہے انکی آبادی کا فرق بھی کم ہے ۔ اس سے پہلے ہندو مسلم رسہ کشی کے بارے میں کوئی جانکاری بھی دستیاب نہیں ہے۔

۲۔ روہنگیا ہندو ﺅں کی بدقسمتی بھی وہی ہیں جو روہنگیا مسلمانوںکو درپیش ہے۔ دونوں اسٹیٹ لیس ہیں انلوگوں کو شہریت کا حق حاصل نہیں ہے ، کوئی تعلیم نہیں ہے۔ غلامی کی زندگی کے ساتھ غربت کی زبردست مار بھی جھیل رہے ہیں۔ وہ لوگ یکساں پریشانی، مشکلات اور قسمت کو ایک دوسرے سے شریک کرتے ہیں۔ انکی زبان بنگالی ہے ۔ غالب نسلی آبادی بودھ کیلئے یہ سبھی صرف روہنگیا ہیں ۔ دونوں ہندو اور مسلم روہنگیا غالب آبادی بودھ کے تشدد اور ظلم کو صدیوں سے جھیلتے آرہے ہیں ۔

۳۔ رکھائن سے فرار ہونے کے وقت کیوں روہنگیا ہندوﺅں نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ مسلم آبادی والے ملک بنگلہ دیش کی سرحد میں ہی داخل ہونے کو مناسب سمجھا ، کیا ان لوگوںکو میانمار فوج کے ذریعہ یا غالب بودھ آبادی کے ذریعہ کوئی مدد حاصل ہوئی تھی تو روہنگیا ہندو اپنے ہی گاﺅں میں رہ جاتے یا میانمار کے اندرونی ریاستوں میں ہجرت کرتے۔ یہ لوگ جنوب میں راجدھانی یانگون کی طرف بھی روانہ ہو جاتے ۔لیکن ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان لوگوں نے ایک مسلمان ملک میں پناہ لینا مناسب سمجھا۔ یہ اسلئے کیونکہ روہنگیا چاہے و ہ ہند و ہو یا مسلمان آپس میںصدیوں سے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات ہیں ۔ یہ لوگ سانحہ کے وقت بھی ایک ساتھ ہیں۔

۴۔ حکومت بنگلہ دیش اور غیر سرکاری تنظیمیں بغیر کسی تعصب کے دونوں ہند و مسلم پناہ گزینوں کو یکساں طور پر راحت و ریلیف پہنچا رہے ہیں۔ پناہ گزین بحران کے وقت اپنے محدود وسائل اور زمین کے باوجود پوری دنیا میں بنگلہ دیش کی تعریف ہو رہی ہے۔ روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران کا حل بنگلہ دیش کی پالیسی اور کارکردگی میں شامل ہیں۔کچھ حلقوں سے کچھ متعصب شور کے باوجود ہندوستان باضابطہ حکومت بنگلہ دیش کے رابط میں ہے۔ ہملوگوں کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ سیاسی پارٹیوں اور سرکار کا آنا جانا لگا رہتاہے مگر خارجہ پالیسی زیادہ تر یکساں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میںہندوستان کی شبیہ بھی داﺅ پر ہے۔ کیا ہم لوگ حکومت کناڈا، جرمنی، اور دوسرے یوروپی ممالک کے ذریعہ ان ملکوں میں پناہ گزینوں کو پناہ دینے کی تعریف نہیں کرتے ہیں۔ ہندوستان نے پہلے ہی تبت ،سری لنکا ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزینوں کا استقبال کیا تھا۔ہندوستان کی عظمت بھی انسانی قدروں میں ظاہر ہوتا ہے۔ 

۵۔ کاکس بازار میں روہنگیا پناہ گزینوں کے حالات پر رپورٹ کرنے میں بنگلہ دیشی میڈیا نے اہم رول ادا کیا ہے۔ روہنگیا مسلم کے علاوہ انہوں نے روہنگیا ہندوﺅں کے بارے میں بھی رپورٹ دئے اور انکے سانحات کو بھی اجاگر کیا ہے ۔

۶۔ یہ نوٹ کرنے والی بات ہے کہ کسی روہنگیا ہندو پناہ گزین نے یہ نہیں کہا کہ انکے اوپر روہنگیا مسلم دہشت گردوں نے حملہ کیاتھا۔

۷۔ جو بھی میانمار کے اند ر تشہیر کیا جارہا ہے اس پر یقین ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سبھی مجرم اپنے جرم کا ٹھیکرا دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میانمار اب نسل کشی کے عمل کو چھپا رہا ہے۔ 

۸۔حکومت میانمار کچھ قبروں کو دکھا رہا ہے اور یہ الزام لگا رہا ہے کہ روہنگیا ہندو ﺅں کی قبریں ہیں۔ لیکن فوج نے روہنگیا کے ایسے قبروں کو سیکڑوں کی تعداد میں بنایاہے۔ انلوگوں نے ایسے خندق میں روہنگیا کو زندہ پھینک کر اس کو مٹی بھرنے والی مشین سے ڈھک دیا۔ جوبھی قبریں وہاں دکھائی جارہی ہیں وہ انہیں خندق میں سے ایک ہے۔

۹۔ میانمار فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہندو روہنگیا کے کچھ بیانات کا انتظام کیا ہے۔ لیکن آنگ سو کی اور فوج یہ بھی پھیلارہی ہے کہ میانمار میں باقی ماندہ روہنگیا مسلم خوش ہیں اور وہ لوگ میانمار میں خوشی خوشی رہ رہے ہیں۔ غلط بیانی یہ بھی ثابت کر تا ہے کہ انہوں نے اپنی جان کو خطرہ میں محسوس کرتے ہوئے میانمار فوج کے حق میں بیان دیا ہے۔ سخت ترین مجرموں کی گرفت میں رہنے پر ایسے مجرموں کے حق میںکوئی معصوم ایسے بیانات لکھ دیتاہے۔ ایسے بیانات کو عدلیہ بھی خارج کرتا ہے۔

۱۰ ۔ روہنگیا ہندو اور مسلم پناہ گزینوں کی قسمت اور مستقبل یکساں ہی ہیں ۔ان لوگوں کی قسمت ایک دوسرے سے جڑی ہیں ۔

( واضح رہے یہ مضمون انگریزی زبان میں ہے ،انوارالہدیٰ نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں