یوگی سرکار کے اس فیصلہ کو کیا نام دیا جائے، اسے احمقانہ فیصلہ کہا جائے یا پھر اس اقدام کو انتہاء پسندی پر محمول کیا جائے بہرحال جو بھی مشن ہے ، جو بھی ایجنڈا ہے وہ ہندوستان کیلئے باعث ذلت اور انتہائی شرمناک ہے ، برطانیہ کے معروف اخبار دی گارجین نے تاج محل کے تعلق سے بی جے پی اور آ ر ایس ایس کی پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ آگرہ کا تاج محل پوری دنیا میں محبت کی علامت ہے ، اس پر کسی بھی طرح کا تنازع عالمی سطح پر ہندوستان کے وقار کو ٹھیس پہونچانے کا سبب بنے گا، دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت اس کی اقتصادی طاقت، سیاسی قوت یا جدید ٹیکنالوجی کی وجہ نہیں بلکہ سترہویں صدی میں تعمیر شدہ یہی تاج محل ہے ۔ تاج محل کی اہمیت، لال قعلہ کی وقعت اور جامع مسجد کی عظمت کا تعلق حکومت ہند کے سیاحتی مقامات میں شامل کرنے سے نہیں ہے، پوری دنیا ان مقامات کو سیاحتی مقامات میں سرفہرست رکھتی ہے ، اس کی عظمت کل بھی تھی آج بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی ۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام قابل فخر اور یادگار عمارتیں مسلم بادشاہوں کی ہی دین ہے ، یا پھر انگریزوں نے کچھ یادگار چیزیں بنوائی ہیں ۔آزاد ہندوستان کے سترسالوں میں ایسا کچھ قابل فخر کارنامہ ہندوستان میں وجود پذیرنہیں ہوسکا ہے جو اسے عالمی شہرت دلاسکے اور کسی کا متبادل ثابت ہوسکے ۔
پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
شاہ جہاں کا شمار کامیاب اور قابل فخر مغل بادشاہوں میں ہوتاہے ،جہانگیر کی وفات کے بعد 1628 میں شاہ جہاں نے پانچویں مغل بادشاہ کی حیثیت سے تخت پر قابض ہونے میں کامیابی حاصل کی،ان کے دور بادشاہت میں متحدہ ہندوستان نے بے مثال ترقی کی، آج بھی ہندوستان کی ان کی پالیسوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور ان کے کارناموں کی وجہ دنیا بھر میں عزت وعظمت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، انہوں نے کئی یادگار عمارتیں بنوائیں، دہلی کی جامع مسجد سمیت متعدد عمارتیں ان کے دورِ بادشاہت میں بنائی گئیں جس نے ہندوستان کی عظمت و وقار میں اضافہ کیا آج بھی انہی عمارتوں کی وجہ سے ملک کو دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل ہے ، پندرہ اگست اور 26 جنوری کو جس لال قلعہ کی فصیل سے وزیراء اعظم اور صدر جمہوریہ جھنڈا لہراتے ہیں، ہندوستان کی عظمت کو سلامی پیش کرتے ہیں اس کی بھی تعمیر اسی شاہ جہاں نے کی تھی لیکن ان سب کے درمیان شاہ جہاں کی جس تعمیر نے سب سے زیادہ عالمگیر شہرت حاصل کی ہے وہ تاج محل ہے ۔
تاج محل دراصل ان کی بیوی ممتاز محل کا مقبرہ ہے، کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا، اس عمارت کی تعمیر 1632 میں شروع ہوئی اور 1650میں کل 25 سال بعد تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا، تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے، عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچکاری کی ہوئی ہے، مقبرے کے اندر اور باہر پچکاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں، عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے، عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے ، سنگ سرخ کا ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف کرسی کے نیچے ایک حوض ہے جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں، مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے۔ اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہ جہان کی قبریں ہیں۔ دائیں جانب ایک مسجد ہے ۔ حالیہ دنوں میں وہاں صرف جمعہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے ۔ یو این ای ایس سی او کی رپوٹ کے مطابق ہندوستان کے سیاحتی مقام میں تاج محل سر فہرست ہے ، اوسطاً چالیس لاکھ ہر سال تاج محل کو دنیا بھر سے دیکھنے آتے ہیں، سال 2014 میں سات ملین لوگوں نے تاج محل کی سیر کی تھی ۔ سن 1874 میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے کہا تھا کہ دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے۔2007 میں ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دورِ جدید کے سات عجائبات میں آگرہ کے تاج محل کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔
یہ تاج محل کی مختصر تاریخ ہے جس نے ہندوستان کی عظمت میں اضافہ کیا ہے ، جس کی بنیاد پر ہندوستان کا شمار ان سات ممالک میں ہوتاہے جہاں عجائب پائے جاتے ہیں، ہندوستان کی اقتصادیات میں یہ اضافے کا ذریعہ بنتا ہے ، جس کے دیدار کیلئے دنیا بھر کے سیاح ہندوستان میں آتے ہیں اس تاج محل کو ہندوستان کے شدت پسند عناصر نے بارہا متنازع بنانے کی کوشش کی ہے ، گذشتہ کئی سالوں سے بابری مسجد کی طرح اس کو بھی مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، شدت پسند ہندؤوں کا دعوی ہے کہ یہ تاج محل دراصل شیوا مندر ہے جسے راجپوتوں نے شاہ جہاں کو گفٹ کیا تھا ، اسی مندر کے اوپر تاج محل کی تعمیر کی گئی ، ان شدت پسندوں میں بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی اور یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی شامل ہیں، اس گروپ کا دعوی ہے کہ تاج محل کے نیچے ایسے ثبوت ملے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مندر کے اوپر ممتاز محل کا مقبرہ بنایا گیا ہے، یہ معاملہ عدلیہ میں زیرِ بحث ہے، آگرہ کی عدالت سے اس مقدمہ کو خارج کردیا گیا ہے تاہم تاج محل کو شیوا مندر بنانے والے اپنے دعوی پر اٹل ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک رپوٹ کے مطابق اس تنازع کیلئے اصل ذمہ دار پی این اوک نامی ایک شخص ہے جنہوں نے1989 میں کتاب لکھی تھی ’’ تاج محل :حقیقی کہانی ‘‘ Taj Mahal: The True Story۔ اس کتاب میں مصنف نے دعوی کیا ہے کہ تاج محل در اصل شیوا مندر ہے جس کی تعمیر ایک راجپوت بادشا ہ نے 1155 میں مغل بادشاہت کے جود سے بہت پہلے کی تھی جس پر شاہ جہاں نے قبضہ کرکے اپنی بیوی کا مقبرہ بنادیا، یہ شخص خود کو مورخ کہتاہے ، 2000 میں اس نے سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا تھا تاہم سپریم کورٹ کو ا س دعوی میں کوئی سچائی نہیں مل سکی اور پی این اوک کو نامراد ہوکر لوٹنا پڑا۔ تاج محل کو مندر میں تبدیل کرنے کی یہ کوشش ابھی سرد نہیں پڑی ہے ، بر سر اقتدار پارٹی بی جے پی کی جانب سے اس کو مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش جاری ہے ، دوسری جانب آر کیا لوجیکل سرے آف انڈیا بار ہار یہ ثبوت پیش کرچکی ہے کہ تاج محل کے مندر ہونے کا دعوی بے بنیاد اور محض ایک افسانہ ہے ۔
اتر پردیش کی یوگی سرکار نے اب تاج محل کو سیاحتی مقامات کی فہرست سے خارج کردیا ہے ، وزارت سیاحت سے نے جو کتابچہ شائع کیا ہے اس میں اتر پردیش کے 32 سیاحتی مقامات کا تذکرہ ہے لیکن تاج محل اس میں شامل نہیں ہے ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ متعدد مرتبہ یہ بول چکے ہیں تاج محل مندر ہے، وہ سیاحتی مقامات میں شامل نہیں ہے، اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے اس کا عملی مظاہر ہ بھی کردیا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یوپی سرکار کے اس فیصلے سے تاج محل کی وقعت کم ہوجائے گی ، دنیا کے سات عجائب کی فہرست سے اس کا نام خارج ہوجائے گا ، دنیا کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں اس کا شمار نہیں ہوگا ، دنیا بھر کے زائرین کے یہاں آنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا، تاریخ کے صفحات سے تاج محل کا تذکرہ معدوم ہوجائے گا ، شاعروں ، فن کاروں ، مصوروں اور ادیبوں کی دل چسپی اس سے ختم ہوجائے گی ۔ محبت کی علامت تاج کی مثال کی عالمی اہمیت بے وقعت ثابت ہوگی ۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ یوگی سرکار کے اس فیصلہ کو کیا نام دیا جائے، اسے احمقانہ فیصلہ کہا جائے یا پھر اس اقدام کو انتہاء پسندی پر محمول کیا جائے بہرحال جو بھی مشن ہے ، جو بھی ایجنڈا ہے وہ ہندوستان کیلئے باعث ذلت اور انتہائی شرمناک ہے ، برطانیہ کے معروف اخبار دی گارجین نے تاج محل کے تعلق سے بی جے پی اور آ ر ایس ایس کی پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ آگرہ کا تاج محل پوری دنیا میں محبت کی علامت ہے ، اس پر کسی بھی طرح کا تنازع عالمی سطح پر ہندوستان کے وقار کو ٹھیس پہونچانے کا سبب بنے گا، دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت اس کی اقتصادی طاقت، سیاسی قوت یا جدید ٹیکنالوجی کی وجہ نہیں بلکہ سترہویں صدی میں تعمیر شدہ یہی تاج محل ہے ۔ تاج محل کی اہمیت، لال قعلہ کی وقعت اور جامع مسجد کی عظمت کا تعلق حکومت ہند کے سیاحتی مقامات میں شامل کرنے سے نہیں ہے، پوری دنیا ان مقامات کو سیاحتی مقامات میں سرفہرست رکھتی ہے ، اس کی عظمت کل بھی تھی آج بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی ۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام قابل فخر اور یادگار عمارتیں مسلم بادشاہوں کی ہی دین ہے ، یا پھر انگریزوں نے کچھ یادگار چیزیں بنوائی ہیں ۔آزاد ہندوستان کے سترسالوں میں ایسا کچھ قابل فخر کارنامہ ہندوستان میں وجود پذیرنہیں ہوسکا ہے جو اسے عالمی شہرت دلاسکے اور کسی کا متبادل ثابت ہوسکے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com