قاسم سید
کہتے ہیں کہ محنت‘ حوصلے‘استقلال ‘مثبت فکر اور اتحاد کے مضبوط جذبے کے ساتھ کام کیاجائے تو مشکل ماحول میں بھی اپنے سماج کو بہت کچھ دیاجاسکتا ہے۔ معاشی وسیاسی وجود کو مستحکم بنانے میں مدد ملتی ہے اور جب عادت زیادہ تر شکوے‘دوسروں پر بے جا تنقید‘وقت کا ضیا ع لایعنی فضول بحثوں میں توانائی کا بے دریغ استعمال محنت سے راہ فرار اپنی ذمہ داریوں اور جواب دہی کےاحساس سے بے نیازی دوسروں پر انگلی اٹھاکر طعن وتشنیع کے پتھر برسانے کی عادت‘ ذہنی تلذز کے لئے کسی پرکوئی بھی الزام لگانے کی فراخدلی‘جھوٹ‘افترا پردازی‘دروغ گوئی کو تفریحا مزاج کا حصہ بنانے کی خواور ہر مصیبت اور آزمائش کا قصوروار دوسروں کو بتانے کا مرض‘پتھروں سے سرٹکرانے کی حماقت امتیازی اوصاف میں شمار ہونے لگیں تو فکری وذہنی انتشار کی کیسی حالت ہوگی تصور کیاجاسکتا ہے۔ کانٹوں سے الجھنے کی بجائے دامن کو بچاکر راستہ بنانا ہی حکمت ودانائی کا پتہ دیتا ہے۔ تعمیری مشن سے ر خ ہٹ جانے سے ظاہر ہے ذاتی اغراض و مقاصد وقتی موقع پرستی اور سازش کرنے کی صلاحیتیں اپنے جوہر دکھانے لگتی ہیں اس وقت جو صورت حال ہے اس سے لگتا ہے کہ ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق انتشار کو بڑھانے‘شگاف کو اور چوڑاکرنے اور اتحاد کی بچی کچھی امیدوں پر پانی پھیرنے کی مسابقتی جنگ میں مصروف ہے۔ مضبوط‘پراعتماد اور ملت کے تئیں مخلص قیادت کے فقدان کاروناکم وبیش ہر ایک کی زبان پر ہے اور اسے ہی اپنے تمام مسائل ومصائب کا ذمہ دار گرانتے ہیں۔یقینا اس کی کوتاہیاںشامل حال ہیں۔ تن آسانی بیانات وکانفرنسوں سےہر مرض کا علاج ڈھونڈنے کی سادہ لوحی اور کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی وغیر مشروط وفاداری کے لازمی نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ سوال ہمیشہ باقی رہے گا کہ اگر اس نے غلطیاں کیں اور ہم وفادار نہیں تو بھی تودلدار نہیں کہہ کرصرف شکوہ ہی کرتے رہے۔ علاج تنگی داماں ہونے کے باوجود اپنے حصہ کا فرض ادا نہیں کیاگیا۔چلئے مان لیتے ہیں کہ مسئلہ ٹھوس پرعزم مستقل مزاج باحوصلہ قیادت کے فقدان کا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یکھا جاناچاہئے کہ اطاعت کا جذبہ کس حد تک نبھایا گیا۔ کسی کی سننے کی عادت ہی کب ڈالی گئی جو آیا اس پر شکوک وشبہات کی بوچھا رالزامات کی یلغار اور اس پر اصرار کی جارحیت سے فرصت کب ملی کہ سمع وطاعت کے نیک احساسات کو بھی خانہ دل میں جگہ دیتے۔ گلہ شکوے کی زبان کی جگہ اتحاد کی کونپلوں کو تعاون کا پانی اور رفاقت کی کھاددیتے ۔حکم دینے کے ساتھ حکم لینے اور اس پر عمل کا بھی مظاہرہ کیاجائے تو پچاس فیصد صورت حال اس سے سنبھل سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے طوفان نے بھی بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور تبھی آواز بھی پیدا ہوتی ہے اگر کمیاں قیادت کی ہیںاس کے مزاج میں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جو ناپسندیدگی کے درجہ میں شمار کی جاتی ہیں تو دوسری طرف سے بھی وہ پیار‘اعتماد‘بھروسہ نہیں ملا جس کی وہ مستحق ہوسکتی ہے جب رشتوں میں اعتماد نہ ہو ‘شکوک وشبہات کے جنگل میں حقائق گم ہوجاتے ہیں تو پھر کوئی بی جے پی کا ایجنٹ کسی کو آر ایس ایس کا مخبر ‘کسی پر کانگریس کا وفادار تو کوئی خفیہ ایجنسی کا ہمدرد بتاکر بدنامی وتہمتوں کے پتھروں سے بے دردی کے ساتھ سنگسار کردیتے ہیں۔ ماضی کی تاریخ بھی اس حوالہ سے بہت تابناک اورقابل فخر نہیں رہی ہے۔بڑے سے بڑے عالم دین اور بزرگ قائدین کی صداقت وذہانت پر کھنے کے لئے ایسی کسوٹی بنائی گئی کہ انسانوں کے لئے اس پر کھرا اترنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور رہا۔ اس معیار مطلوب پر تو صرف فرشتے ہی اترسکتے تھے آج بھی پوری ’جاہ وحشمت‘ کے ساتھ یہ روایت جاری ہے جسے ہم پسند کرتے ہیں اس کی شان وعظمت میں رتی بھر کمی برداشت نہیں کرسکتے جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے اس میں ذرہ برابر خامی یا کمزوری کا تذکرہ بھی گناہ ماناجاتا ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں تلاش کرلیتے ہیں جن کا علم اس ذات کو بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی نے گستاخی کی جرأت کی اس کی سات پشتوں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں ہوسکتے دوسری طرف جو ہمارے معیار مطلوب پر کھرا نہیں اترتا یا ہمارے مرکز عقیدت سے اختلاف رکھتا ہے اس میں ڈھونڈنے میں بھی کوئی اچھائی نظرنہیں آتی وہ صرف سنگ ملامت کا ہی مستحق گردانا جاتا ہے اس افراط وتفریط نے ہمارے معاشرہ کو بھدا مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ میڈیا جو ایسے معاملات میں غیر جانبداری سے حالات کاتجزیہ کرتا ہے اور چھپائے گئے سچ کو اجاگر کرتا ہے وہ بھی خاموش رہ کر تماشہ دیکھ رہا ہے یاپھر اس نے کسی کے ساتھ خود کوبریکٹ کرلیا ہے اس کا عقیدت مندانہ جھکائو خواہ کاروباری مفادات کی مجبوریوں کے تحت کیوں نہ ہو نظرآجاتا ہے جس سےاس کی امیج بھی مسخ ہوگئی جب معاشرہ بگڑتا ہے ‘اتھل پتھل ہوتی ہے یادھینگا مشتی عام ہوجاتی ہے اس صورت کو میڈیا سنبھالتا ہے وہ امراض کی نشاندہی کرکے علاج کی تدابیر بتاتا ہے اس کو بھی مصلحتوں کا ڈینگو ہوگیا ہے۔ زندہ رہنے کے دبائونے اچھے اچھوں کے کس بل نکال دئیے ہیں اور دم ہلانے پر مجبور کردیا ہے۔ عالمی سطح کے حالات اس سے مختف نہیں ہیں مثلاً شام میں الجھی طاقتوں میں دونوں طرف مسلم ممالک نظرآئیں گے۔ قطر کے معاملہ پر ٹکرائو میں فریقوں میں مسلم ملک ہی ملیں گے۔ سعودی عرب ایران کے درمیان اختلافات‘کردستان پر جاری گھمسان ‘فلسطین کا تنازع‘یمن کی لڑائی اس وقت دنیا میں موضوع بحث مسائل ہیں زیادہ تر لڑائیاں خانہ جنگیاں ہم سے عبارت ہیں اسلام کے نام سے ہی تشدد وغارت گری کا بازار گرم ہے۔ مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں۔ پاکستان میں بم دھماکوں میں مارے جانے والے اور خودکش دھماکوں میں جان گنوانے والے دونوں ہی کلمہ گو کہلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں روہنگیائی مہاجرین کے کیمپ اور مظفرنگر فسادکے بعد شاملی و آس پاس کے علاقوں میں آج بھی موجودہ پناہ گزین کیمپوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں ۔ کوئی اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بنادیاگیا اور کہیں شہریت کے سوال پر تخت وتاراج کردئیے گئے۔ یعنی اپنوں کے ہاتھوں سے بھی مارے جارہے ہیں اور دوسرو ں نے بھی ستانے‘پریشان کرنے اور ہاتھ آزمانے کے لئے سب سے کمزور ولاچار طبقہ کی نشاندہی کرلی ہے۔ ہر طرف مذہبی انتہاپسندی نقطہ عروج پر ہے مذہب کا اعتدال پسند چہرہ کہیں گم ہوگیا ہے عدم برداشت کا دائرہ پھیلتاجارہا ہے ۔مسلکی شدت پسندی اس کا عملی نمونہ ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق اور محرم کے بغیرسفر حج جیسے مسائل پر قوم کے جوہر خوب سامنے آئے ہیں۔
جب ایک دوسرے کو برداشت کرنے اختلاف رائے کا احترام کرنے‘ مخالف کی باتوں کو صبرو تحمل سے سننے اور منطقی جواب دینے کی ضرورت کا جذبہ ختم یاکمزور ہوجائے‘رویوں میں لچک ‘مزاج میں نرمی اور جھکائو ‘انکساری‘مواخاۃ‘بھائی چارہ کو جگہ نہ ملے تو ہزاروں کانفرنسیں کرلیجئے۔ لاکھوں افراد کو جمع کرلیجئے۔ قومی یک جہتی ایکتا امن کی باتیں کرلیں جب دل کی زمین بنجر ہوجائے تو کوئی بھی بارش اسے سرسبز نہیں کرسکتی۔ ہر عام آدمی کی زبان بن چکا سوشل میڈیا جس طرح شتر بے مہار ہوگیا ہے اور ہمارے فاضل نوجوان اپنی جولانیاں دکھارہے ہیں اس سے عمومی مزاج ورجحان کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ تعلیمی ادارے ومدارس کتنے ہونہار اورباصلاحیت فرزند پیداکر رہے ہیں اور وہ ملک وملت کو کہاں لےجاناچاہتے ہیں۔ ان کے پاس ذہانت ہے‘ دلائل ہیں مخالفین کا شجرہ ہے۔ ان سب کا استعمال کب اور کہاں کرنا ہے انہیں بخوبی معلوم ہے۔ وہ زبان پر لگام اور الفاظ کے استعمال پر کنٹرول کب اور کتنا کرنا ہے اس سے واقف ہیں دوسروں کی نیت میں کیا فتور ہے کس کے اشاروں پر کام کیاجارہا ہے کون کس کا ایجنٹ ہے یہ علم غیب بھی ہے۔ ممکن ہے انہی میں سے کچھ نوجوان نکل کر آئیں اور قوم وملت کی قیادت سنبھالیں اور خزاں رسیدہ ملت کو بہار کی رونقوں سے آشنا کریں ۔
ہندوستان کی 65فیصد سے زائد آبادی نوجوانو ںپر مشتمل ہے اس میں مسلم نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد ہے۔ہر کمیونٹی میں نوجوان قیادت سامنے آرہی ہے یوگی اس کا ایک اظہارہیں انہیں آگے بڑھایاجارہا ہے۔ اس طرح ہادرک‘اپلیش‘جگنیش اور چندر شیکھر راون جیسے نوجوانوں نے اپنی کمیونٹی کا اعتماد اور بھروسے حاصل کرلیا ہے مگر یہ سب آسانی سے یا صرف سوشل میڈیا کی میز پر بیٹھ کر نہیں ملا‘ گاؤں گاؤں دورہ کیا۔ اپنے لوگوں کے مسائل سنے جھگی جھونپڑیوں میں وقت گزارا۔ پولیس کی لاٹھیاں کھائیں جیلوں میں بند کئے گئے۔ غداری جیسے سنگین الزامات کے تحت مقدمے چلائے گئے۔ آئے دن گرفتاریوں کا سامنا کیا۔ پسینہ ہی نہیں خون بھی بہایا ۔ عوام جن کےلئے ہم کام کرناچاہتے ہیں۔ وہ بسوں میں بھر کر اس وقت تک لائے جاتے ہیں جب قیادت کے ساتھ براہ راست کنکشن نہ جڑا ہو ورنہ وہ پیدل چل کر وہاں پہنچتے ہیں جہاں بلایاجاتا ہے پھران کے روڈ شو میں بھیڑ امڈکر آتی ہے اور جان پر واری ہوتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اس مٹی سے مطلوبہ قیادت ابھرے گی۔ یہ دور نوجوانوں کا ہے یہ بات ابھی ہم سمجھ نہیں رہے یا سمجھنا نہیں چاہتے اس قوت کو زیادہ دنوں تک دباکر نہیں رکھاجاسکتا یاتو جگہ دینی پڑے گی۔ یاپھر خالی کرنی ہوگی روایتی طور طریقوں سے کئے چیلنجو ں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ذوق یقین سے چیلنجوں کی زنجیریں کاٹی جاسکتی ہیں مگر ذوق یقین کے ساتھ وسعت قلبی اور ذہنی کشادگی کے بغیر نہ لوگوں کو قریب کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا بھروسہ واعتماد جیتا جاسکتا ہے۔ قربانیاں لینے کا تقاضہ اس وقت کیا جائے جب قربانی دینے کا عملی مظاہرہ کیا جائے پھرکوئی کتنی کوشش کرے راستہ نہیں روکا جاسکتا۔