سیمیں کرن
وقت کو اسی لیے شاید خدا کہا گیا ہے کہ کچھ فیصلے وقت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، کچھ لمحے ،کچھ وقت منتخب ہوتے ہیں، یا پھر ان وقتوں میں کچھ فیصلوں کا انتخاب کرلیا جاتا ہے۔ اور یہ وقت کا ہی فیصلہ تھا کہ اردو افسانے کے باب میں دو دستاویزات کو اپنی نوعیت کے دو انسائیکلو پیڈیاز کو یکے بعد دیگرے آنا تھا۔
سو کہا جاسکتا ہے کہ یہ وقت اردو افسانے کا ٹھہرا ،گو کہ ان دونوں دستاویزات میں، ان دونوں انسائیکلو پیڈیاز میں روایتی قسم کا کوئی بھی تقابلی جائزہ ممکن نہیں ہے،کیونکہ دونوں اپنی نوعیت میں بالکل مختلف ہیں ۔اوردونوں اپنی جگہ بالکل مختلف ہوتے ہوئے بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں کی سمت جدا ہے، نوعیت الگ ہے۔ مگر مقصد ایک ہے، وہ ہے اردو افسانہ،اس کی ترقی، اس کا فروغ،اور یہی مقصد دونوں کو ارفع و تاریخ ساز مقام عطا کرتا ہے۔
پہلی دستاویز محترم ممتاز شیخ کا ادبی جریدہ لوح ہے، جس کا یہ افسانہ نمبر تھا، یہ کوئی روایتی افسانہ نمبر نہیں تھا، محترم ممتاز شیخ نے افسانے کے طویل عہد کو اس جریدے میں سمیٹ دیا ہے۔ ایسے کام فرد واحد کے کرنے کے نہیں ہوتے، یہ کام معتبر اداروں کی زیرِ نگرانی تشکیل پاتے ہیں، مگر محترم ممتاز شیخ نے یہ کارنامہ تن تنہا سر انجام دے کر دکھا دیا۔ یہاں افسانے کی ایک سو پندرہ سال پرانی تاریخ جگمگا رہی ہے۔
وہ “ حرفِ لوح “ میں رقمطراز ہیں :
” لوح کے چار شماروں کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ لوح عصری ادب کی ایک مستند دستاویز کے طور پر اپنی پہچان اور انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب رہا مگر یہ لوح کی منزل نہیں ہے۔ اسے دنیائے ادب میں اپنے کام کی وجہ سے اکیسویں صدی کا باکمال پرچہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنا ہے۔ ان شا اللہ ! ”
مگر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ وہ یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ افسانہ نمبر جیسا ایک انسائیکلو پیڈیا مرتب کرکے انہوں نے اردو کی ایک عظیم خدمت سر انجام دی ہے۔ تحقیق کے باب میں جہاں یہ طلبا کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگی۔ وہاں اساتذہ اردو ادب کے شائقین کے لیے بھی اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس دستاویز کو مرتب کرنے میں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کے لفظؤں میں سنیے!
“میرے نقطۂ نظر سے دورِ حاضر کی سب سے بڑی ادبی صنف فسانہ طرازی ہے یہ ساری دنیا کو ہمیشہ سے کہانی کی طلب رہی ہے۔ میرے پیش نظر یہ بات رہی ہے کہ ابتدائے داستاں گوئی سے لے کر دورِ حاضر کے افسانہ نگاروں کی فہرست سازی اس طرح ہو کہ کوئی ناگزیر نام رہ نہ جائے، اردو افسانے کا عہد بہ عہد اس طرح مطالعہ کرنا کہ اردو افسانے کے مختلف ادوار سامنے آجائیں اور اس دوران موضؤعات، تکنیک اور اظہار کے حوالے سے جو تبدیلیاں ہونی ہیں ان کا کماحقہ احاطہ ہوسکے۔ زیرِ نظر افسانہ نمبر کے لیے مواد کی دستیابی ایک جان لیوا اور جاں گسل مرحلہ تھا، خصوصاً 1947 کے بعد ہندوستانی افسانہ نگاروں کی فہرست سازی اور مواد کے حصول نے پسینے چھڑا دیے “۔
اس افسانہ نمبر کو میں افسانے کا ایک خصوصی انسائیکلو پیڈیا کہنے میں اس لیے حق بجانب ہوں کیوں کہ اس میں تنقیدی مضامین شامل نہیں کیے گئے، بلکہ ایک سو پندرہ سالہ تاریخ کو مختلف ادوار میں افسانے کی صورت جانچا گیا ہے۔ اور صرف افسانے ہی شامل ہیں۔ ادب کے ادنیٰ ترین طالب علم ہونے کی حیثیت سے میرا یہ واضح نقطۂ نظر ہے کہ اردو افسانے پر اس طرح کی سنجیدہ اور غیر جانبدار تنقید نہیں لکھی گئی، جو اس کا حق ادا کرسکتی، زیادہ تر مضامین ادبی اور نظریاتی گروہ بندی کے حوالے سے ہی لکھے گئے ہیں جن میں ایک دوسرے کو رد کرنے یا نیچا دکھانے کی کوشش زیادہ نمایاں رہی ہے۔
جی ہاں یہی وجہ ہے کہ میں اسے افسانے پہ ایک خصوصی انسائیکلو پیڈیا کہنے پر مجبور ہوں کیونکہ اس میں ایک سو پندرہ سالہ افسانوی تاریخ مقید ہے۔ اور لوح کی روشن پیشانی پہ درج ہے۔
” ایک سو پندرہ سالہ افسانوی تاریخ کے اہم اور ناگزیر افسانے “۔
یہ دور 1901 سے شروع ہوکر 2017 تک آپہنچا ہے، یہ روایت میر باقر علی کے ” برا خاوند “ سے شروع ہوتی ہے، اور ہر افسانے کو چھ ادوار میں تقسیم کردیا ہے۔ ہر دور کے نمائندہ، چمکتے دمکتے، ہم ناموں کے منتخب افسانے شامل اشاعت کیے گئے ہیں۔
پہلے عہد میں سترہ نام ہیں، جن میں اوپندر ناتھ اشک، پریم چند، راشد الخیری، سجاد حیدر یلدرم، مجنوں گورکھ پوری جیسے لوگ ہیں جو آج بھی مختلف درجوں میں نصاب کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دوسرا دور صرف تین ناموں احمد علی، سجاد ظہیر اور رشید جہاں پر مشتمل ہے۔
تیسرا دور منٹو جیسے قد آور ادیب، افسانہ نگار کا دور ہے یہاں کُل 9 افسانہ نگار ملتے ہیں جن میں احمد ندیم قاسمی، راجندر سنگھ بیدی، حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، غلام عباس، کرشن چندر، مسز عبدالقادر، اور ممتاز مفتی جیسے عظیم نام ہمیں نظر آتے ہیں۔
چوتھا دور تنتالیس افسانوں سے دمک رہا ہے۔ آغا بابر سے شروع ہوتا ہوا سرور تک چلتا ہے، اس دور نے بہت سے قد آور ادیب پیدا کیے، جیسے اشفاق احمد، بانو قدسیہ، احمد زین الدین، اے حمید ، الطاف فاطمہ، خدیجہ مستور ذکاءالرحمن، حسن منظر، رضیہ فصیح احمد، قدرت اللہ شہاب، قرۃالعین حیدر، واجدہ تبسم و دیگر …
ایک طویل کہکشاں ہے ، صرف فہرست مرتب کرنے میں مجھے کئی صفحے درکار ہیں۔
پانچواں دور پینسٹھ افسانوں پر مشتمل ہے، یہ عہد اس لیے بھی اہم ہے کہ اس عہد کے بہت سے قد آور ادیب جو اپنا نام مستحکم کروا چکے ، سنہری حروف سے لکھوا چکے ، ہمارے ساتھ چھٹے عہد میں ہماری راہنمائی کو موجود ہیں۔
ان کو ہمصر کہنے کی بے ادبی نہ کرتے ہوئے بھی اس ممنونیت و خؤشی کا اظہار کرنا ضروری ہے کہ وہ ہمارے عہد میں اپنی تحریر کی تابانی بکھیر رہے ہیں۔ ان پینسٹھ ناموں میں اسد محمد خاں، احمد شمس، انتظار حسین، رشید امجد، سمیع آہوجہ، شمس الرحمٰن فاروقی، انور سجاد، خالدہ حسین زاہدہ حنا، پروین عاطف، طاہرہ نقوی ، مظہر الاسلام محمد حامد سراج، مستنصر حسین تارڑ ، یونس جاوید ، محمود احمد قاضی ، ذکیہ مشہدی، فرخندہ لودھی، گلزار ، محمد الیاس، محمد منشا یاد، غرض ایک طویل فہرست ہے ستاروں کی۔
چھٹا دور، آج کا دور کُل تیئس افسانوں پر مشتمل ہے، جو آصف فرخی سے شروع ہوکر ممتاز شیخ تک پہنچتاہے۔ اس عہد میں محمد حمید شاہد جیسا افسانہ نگار موجود ہے، ہماری خوش بختی ہے، یہاں راقم الحروف کے علاوہ مزید کُل بائیس اہم ناموں کو منتخب کیا گیا ہے۔ جن میں خالد فتح محمد، مبین مرزا، طاہرہ اقبال جیسے اہم لوگ شامل ہیں۔ اس عہد کے تیئس کے تیئس نام اردو افسانے کا موجودہ چہرے کا ناگزیر حصہ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ادوار کے اوپر تاریخ بھی دے دی جاتی۔
مگر پھر ایک بار کہوں گی کہ شاید کچھ اور بھی ہو جو رہ گیا ہو۔ مگر یہ تحقیقی کام فردِ واحد کے نہیں ہوتے، اور ممتاز شیخ نے یہ کام تنہا سرانجام دے کر ایک ضخیم دستاویز رقم کرکے ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے جو یقیناً سراہنے لائق ہے۔
دوسرا انسائیکلو پیڈیا معروف افسانہ نگار
رابعہ الربا نے مرتب کیا ہے اور اس کو عنوان دیا ہے”اردو افسانہ عہدِ حاضر میں “۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں ایک سو بارہ افسانے ہیں، اسے ملتان انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اینڈ ریسرچ نے شائع کیا ہے، گر پہلا انسائیکلو پیڈیا اپنی نوعیت میں خاص ہے، نمائندہ ناموں پر مشتمل پاکر ایک خاص حیثیت قائم کرتا ہے۔ تو اردو افسانہ عہد حاضر میں اپنی نوعیت میں عمومیت اختیار کرکے اپنی اہمیت قائم کرتا ہے۔ کیونکہ یوں یہ عہد حاضر کا ایک شفاف آئینہ قرار پاتا ہے۔
رابعہ سوال پوچھنے پر کہتی ہیں کہ میں نے اپنی حتی المقدور کوشش کی کہ ملک کے مختلف علاقوں کو نمائندگی دی جائے ، کئی نام غیر معروف ہیں ، ان علاقوں کے لکھنے والوں کو غیر معیاری کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ میرے لیے محبت نامہ ہے یہاں کوئی لابی نہیں ہے، نہ کسی کو سر بلند کیا گیا ہے، نہ ہی کسی کو سجدہ کیا گیا، محمود و ایاز ایک ساتھ ہیں۔
یہاں میں رابعہ سے بڑی محبت سے کچھ اختلاف کروں گی، یہ محبت ہی ہے جو ایسے بڑے کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس سفر میں بہت سی کٹھنائیاں لکھی ہوں گی، مگر رابعہ نے ایمانداری سے عہد حاضر کا چہرہ پینٹ کرنا تھا۔ ایمانداری کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اچھے برے ، بھدے پھیکے جیسے بھی رنگ ہیں ، وہ قاری کے سامنے، تحقیق کرنے والے طلبا کے سامنے رکھ دیے جائیں ۔ اور رابعہ نے یہ کردکھایا۔جو دیکھنا چاہے دیکھ سکتا ہے۔ عہدِ حاضر میں کون کیا اور کیسا لکھ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں اس عہد حاضر کے افسانے میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ چہرہ مکمل ہوسکے مگر انسانی کاموں میں بہر حال گنجائش باقی رہتی ہے۔
کچھ نام ان دونوں معزز افراد سے چھوٹے ہوں گے، کچھ جگہ انسانی خطا کا احتمال ہوا ہوگا، اور کچھ جگہ پر وضاحت دیتے ہوئے رابعہ کہتی ہیں، کچھ وضاحتیں بھی ضروری ہیں، سب سے پہلے تو یہ کہ اگر کچھ معزز نام آپ کو ان صفحات پر مسکراتے نظر نہ آئیں تو بہت معذرت کے ساتھ میں بے ادب نہیں ہوں، ان کا حکم تھا کہ اگر حروف تہجی کی ترتیب سے ہو تو ان کا نام اس کام سے الگ کردیا جائے۔، سو میں نے صرف حکم کی تعمیل کی ہے۔ کچھ محترم افسانہ نگار یہاں اپنا نام، کام دیکھ کر حیران و برہم ہوں کیوں کہ انہوں نے خؤد ابھی تک مجھے اپنا نام نہیں بھیجا تھا۔ مگر چونکہ ان کے افسانے رسائل و جرائد و اخبارات کی زینت بنتے رہتے تھے۔
یہاں مجھے کہنے دیجئے کہ میرے دونوں معزز احباب محترم ممتاز شیخ، اور رابعہ الربا بہت زیرک اور دانا نکلے اور ترتیب حروف تہجی کی رکھ کر ادب میں پیدا ہونے والے عظیم قضیوں سے جان بچا بلکہ چھڑالی ہے، ورنہ نیکی برباد، ثواب دریا برد۔ اور گناہ لازم ہوجاتا۔ یہ تصفیے کون حل کرواتا پھرتا، سو اس دانشمندانہ فیصلے پر ڈھیروں داد …
حرفِ جمال میں وہ رقمطراز ہیں کہ
جب کوئی بڑا نام منظرِ عام پر آتا ہے تو وہ بہت سوں کی کاوش ہوتی ہے، آپ سب کے تعاون کے ساتھ جو ادیب کسی نہ کسی طرح ہم قدم ہے ان میں عاصم بٹ، مشرف عالم ذوقی، اقبال نظر ، زیب اذکار، حسین، فرخ ندیم، حمید شاہد، اشرف سلیم، اسرار گاندی، مشتاق احمد نوری، ظہیر بدر، نورین علی حق، وقار وامق، سیمیں کرن، ثمینہ سید، وحید قمر، آدم شیر، غل شیر بٹ، حفیظ خان۔ بہت سے دوستوں کے ساتھ میری فیملی بھی شامل ہے۔ کہ جن کو میں جب بھی زیادہ کام ہوا تو وقت نہ دے سکی، چونکہ یہ عشرے پہ محیط کہانی ہے۔
یہ دیکھیے یہ چند نام ہین جن کا ذکر انہوں نے حروف جمالی میں کیا، مگر یہ انسائیکلو پیڈیا آپ کو برصغیر کے افسانے کا چہرہ دکھا رہا ہے۔ وہ افسانہ جو بقول رابعہ کے ” دو جنگیں دیکھ چکا ہے“ ۔۔۔ گر بقول رابعہ ” یہ سفر تو محبت کا تھا “۔
سو یہ عصرِ حاضر کا افسانہ جنگ پسندوں اور جنگ پرستوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہے۔ کہ اردو کو دونوں اطراف چاہنے والے موجود ہیں۔ یہاں ایک دنیا سمٹ رہی ہے۔ اور محبت کے اس سفر کا اعجاز ہی یہ ہے کہ یہاں محمود و ایاز ایک جگہ نمازِ محبت ادا کرتے ملیں گے۔
سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عہدِ حاضر کے اردو افسانے کی ڈائریکٹری ہے۔ اور تحقیق کرنے والے ، ادب کے طالب علم جانتے ہیں کہ اس کام کی کیا اہمیت ہے، اور یہ کس قدر آسانیاں پیدا کرے گا۔
حرفِ آخر کے طور پر یہی کہوں گی کہ یہ دونوں احباب ادب میں محبتیں اور آسانیاں بانٹنے کے لیے سفر پر نکلے ہیں۔ ان کا ہونا اردو ادب اور اردو افسانے کو مبارک ہو۔