بیرونِ عدالت  نزاعات حل کرنے کی ضرورت

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

راقم الحروف کے دوستوں میں ایک صاحب ہیں ،جن کا شمار ملک کے بڑے دانشوروں میں کیا جاتا ہے وہ چند گنے چنے اعلیٰ ترین ماہرین قانون میں ہیں ، الکٹرانک میڈیا میں ان کا ا نٹر ویو آتا رہتا ہے اور پرنٹ میڈیا میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں اور وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ،اسلام موافق اور مخالف دونوں حلقوں میں پڑھے جاتے ہیں ، انھوں نے مجھ سے خود اپنا واقعہ نقل کیا کہ ۱۹۸۸ء میں راجیوگاندھی کے دور میں ’’ تحفظ حقوقِ مسلم مطلقہ خواتین قانون ‘‘ پاس ہوا اور پھر اس کے بعد سپریم کورٹ کے معزز جج نے اس قانون کی ایسی تشریح کردی جو پوری طرح اس قانون کے منشاو مقصد کے خلاف تھی ، وہ جج غالباً ان کے استاذ تھے ، یا بہر حال ان کا ان سے محبت اور بے تکلفی کا تعلق تھا ، انھوں نے اُن جج صاحب سے نجی گفتگو میں کہا کہ آپ نے اس طرح کا فیصلہ کیسے کردیا، جب کہ نہ قانون کے الفاظ سے پوری طرح اس کی تائید ہوتی ہے نہ قانون کے پس منظر سے ، نیز کسی قانون کے بنتے وقت پارلیمنٹ میں جو بحث ہوتی ہے، اس سے بھی قانون کے مقصد کو سمجھنے میں سہولت ہوتی ہے، وہ بھی اس فیصلہ کے خلاف ہے ؟ جج صاحب مختلف جوابات دیتے رہے اور انھوں نے اِن کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ؛ لیکن یہ صاحب مطمئن نہیں ہوسکے، آخر میں انھوں نے جوبات کہی ،وہ ہمارے لئے تازیانۂ عبرت اور غور و فکر کے لائق ہے ، انھوں نے کہا کہ کیا ہم نے آپ لوگوں سے اپنا مقدمہ ہماری عدالت میں لانے کو کہا تھا ؟ اگر آپ ہمارے پاس اپنا کیس لائیں گے توہم اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے ، میرے وہ دوست کہنے لگے کہ میرے پاس اُن کے اِس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔
حالاں کہ جج صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے ؛ کیوں کہ عدالتوں کا کام اپنے ضمیر اور اپنی سوچ کے مطابق فیصلہ کرنا نہیں ہے ، عدالتوں کا کام قانون کے الفاظ کے دائرہ میں رہتے ہوئے پیش آنے والے واقعات نپرقانون کو منطبق کرناہے ، قانون بنانا مقننہ کا کام ہے ، عدلیہ کا نہیں ؛ لیکن اگر قانون بناتے وقت مبہم الفاظ استعمال کئے گئے ہیں تو اُس ابہام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی سوچ کے مطابق قانون کی تشریح کی گنجائش پیداہوجاتی ہے ، بعض جج حضرات اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ، مسلمانوں کو اِس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شرعی قوانین کے تحفظ کے بارے میں سوچنا چاہئے ۔
اِس مسئلہ کا حقیقی حل یہی ہے کہ مسلمان معاشرتی مسائل سے متعلق اپنے نزاعات کو عدالت سے باہر حل کرنے کا مزاج پیدا کریں؛تا کہ ایسے مقدمات کو عدالت میں لے جانے کی نوبت ہی نہیں آئے ، اِس کے لئے ایک صورت دارالقضاء یا شرعی پنجایت کی ہے ، مسلم پرسنل لا بورڈ پورے ملک میں دارالقضاء کے نظام کو وسعت دینے کی کوشش کررہا ہے ، اِسی طرح جمعیۃ علماء ہند ، شرعی پنچایتوں( محاکم شرعی ) کے قیام کے لئے کوشاں ہے ، یہ بڑی اہم کوششیں ہیں ، جو نہ صرف سماجی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے مفید ہیں ؛ بلکہ شرعی اعتبار سے بھی اِن کی بڑی اہمیت ہے ، تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس میں بھرپور تعاون کریں دارالقضاء اور شرعی پنچایتوں سے جو فیصلہ ہو، سماجی اور اخلاقی دباؤ کے ذریعہ اُس کو نافذ کریں ، یہ ایسا نظام ہے جس سے جلد ، سستا اور شریعت سے ہم آہنگ فیصلہ حاصل ہوسکتا ہے ۔
دوسرا اہم کام جس کی طرف اِس وقت توجہ دلانی مقصود ہے، وہ ہے آپسی مصالحت اور مفاہمت کے لئے ادارہ کاقیام، اسلام میں صلح جوئی بہت ہی محبوب عمل ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عام طورپر جو سرگوشیاں کی جاتی ہیں ، ان میں خیر نہیں ہے ؛ لیکن بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے سرگوشی کرنا مطلوب ہے ، قرآن مجید نے اس سلسلہ میں تین باتوں کا ذکر کیا ہے ، صدقہ کا حکم دینا ، کسی بھلائی کی دعوت دینا ، یا لوگوں کے درمیان صلح کرانا ، ( النساء : ۱۱۴) سرگوشی کے معنی ہیں کسی بات کو کان میں کہنا ، اِس میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بعض دفعہ علی الاعلان کسی بات پر ٹوکنا یا اس سے روکنا مفید نہیں ہوتا ، اگر اُسی بات کو تنہائی میں کہا جائے ،یا ایک دو ہم مزاج ہمراز لوگوں کے درمیان کہا جائے تو اُس کو قبول کرنا آسان ہوجاتا ہے ،ایسی صورت میں اِنسان کے لئے اپنے موقف سے ہٹنے میں بے عزتی اور شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا اور مسئلہ حل ہوجاتا ہے ، قرآن مجید میں کئی مواقع پر صلح کرانے کی فضیلت بیان کی گئی ہے ، ( بقرہ : ۱۸۲ ، ۲۲۴ ، اعراف : ۱۷۰) اوردو مسلمانوں کے درمیان کسی بھی نزاع میں صلح کرانے کا حکم دیا گیا ہے : ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْْنَ أَخَوَیْْکُمْ‘‘ ( الحجرات : ۱۰) لیکن قرآن مجید نے خاص طورپر ازدواجی معاملات میں پیدا ہونے والی نزاع کو حل کرنے اور اُن کے درمیان صلح کرانے کو بڑی اہمیت دی ہے ، اگر بیوی کو اپنے شوہر سے شکایت ہو تو اُس کو چاہئے کہ پیش قدمی کرے اور صلح کا راستہ اختیار کرے :
وَ إِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوْزاً أَوْ إِعْرَاضاً فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ۔( النسا: ۱۲۸) 
شوہر کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ صلح کا راستہ اختیار کرے ، ( النساء : ۱۲۹) اور اگر شوہر و بیوی باہمی مفاہمت کے ذریعہ مسئلہ کو حل نہیں کر پائیں اوراُن کے درمیان صلح نہیں ہو پائے تو سماج کو کہا گیا کہ وہ دونوں خاندان کے ایک ایک بزرگ کو مصالحتی کوششوں کے لئے کھڑا کرے :
وَ إِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اﷲُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اﷲَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْراً۔ (النساء : ۳۵)
اگر تم کو میاں بیوی کے درمیان نزاع کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے بھیجو ، اگر وہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کے درمیان موافقت پیدا کردیں گے ، یقیناًاللہ سب کچھ جانتے ہیں اور ساری باتوں سے واقف ہیں ۔
چنانچہ حضرت عثمان غنیؓ کے وقت میں بھی اِس طرح کا واقعہ پیش آیا اور انھوں نے اُس میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت معاویہؓ کو حَکم نامزد فرمایا ، ( بیہقی : ۷؍۴۹۹ ، حدیث نمبر : ۱۴۷۸۶) اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی اِس طرح کا واقعہ پیش آیا اور انھوں نے بھی دو حَکم مقرر فرمائے ۔ ( بیہقی : ۷؍۴۹۸ ، حدیث نمبر :۱۴۷۸۲)
جھوٹ بولنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے ؛ لیکن اگر دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا پڑے تو اِس کی نہ صرف اجازت ہے ؛ بلکہ یہ ایک بہتر عمل ہے ؛ چنانچہ آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے، جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور ایک طرف نسبت کرتے ہوئے دوسرے کی طرف اچھی بات پہنچائے : ’’ لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس خیراََفینمی‘‘ ( رواہ البخاری،باب لیس الکذب الذی یصلح بین الناس،رقم الحدیث:۲۶۹۲ ) مشہور محدث علامہ ابن شہاب زہری کا بیان ہے کہ بحیثیت مجموعی تین مواقع پر جھوٹ کی اجازت دی گئی ہے ، اُن میں جہاں لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا ذکر ہے، وہیں یہ بھی ہے کہ شوہر اپنی بیوی یا بیوی اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولے ؛ کیوں کہ اختلاف گو کہ کسی بھی دو مسلمان بلکہ دو انسانوں کے درمیان ناپسندیدہ ہے ؛ لیکن خاص کر میاں بیوی کے اختلاف سے خاندان بکھر جاتا ہے ، دو افراد ہی کے درمیان نہیں؛ بلکہ دو خاندان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوجاتی ہے اور بچے ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں ، اس لئے اگر ازدواجی رشتہ میں کوئی کڑواہٹ پیدا ہوجائے تو اُس کو حل کرنے کے لئے خصوصی طورپر حکم دیا گیا ہے ۔
اس طرح کے مسائل کے حل کے لئے جہاں دارالقضاء یا شرعی پنچایت کی ضرورت ہے، وہیں اس سے بڑھ کر کاؤنسلنگ سنٹر یا صلح کمیٹی کا قیام ضروری ہے ، اگر یہاں مسئلہ حل نہیں ہوسکے تو پھر فریقین کو دارالقضاء جانا چاہئے ، کاؤنسلنگ سنٹر میں قانون پر مبنی فیصلہ نہیں ہوگا ؛ بلکہ صلح کرائی جائے گی ، فیصلہ مکمل عدل کی بنیاد پر ہوتا ہے ، یعنی جس کا جو حق ہو،وہ اُس کو دے دیا جائے، نہ کسی فریق کو حصہ سے زیادہ ملے اور نہ کسی کو اُس کے حصہ سے کم ، اگر فریقین فیصلہ کو قبول کرلیں اور اُس پر عمل ہوجائے تو ظلم کا مداوا تو ہوجاتا ہے ؛ لیکن باہمی تلخیاں دور نہیں ہوتیں اور دِلوں کے فاصلے برقرار رہتے ہیں ، صلح میں ’’لواور دو پر‘‘ معاملہ طے ہوتا ہے ، یعنی معاملہ کو حل کرنے کے لئے کسی فریق کو سمجھا بجھاکر اپنا حق چھوڑنے پر آمادہ کرلیاگیاہو، اور دوسرے فریق کو بقیہ حق ادا کرنے پر تیار کرلیا جائے ، صلح کی وجہ سے آپسی رنجشیں دُور ہوجاتی ہیں ، فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور تعلقات معمول پر آجاتے ہیں ، جس فریق کو اپنے کچھ حق سے دستبردار ہونا پڑا، اُس کی اَنا کو بھی ٹھیس نہیں لگتی ،وہ اس میں بے عزتی محسوس نہیں کرتا ؛ کیوں کہ وہ اپنے حق کا کچھ حصہ خود اپنی رضامندی سے چھوڑتا ہے ، اس لئے یہ باہمی نزاع کو حل کرنے کا بہترین راستہ ہے ۔
موجودہ حالات میں ہر مسلم آبادی میں کونسلنگ سنٹر ہونا چاہئے ، کوشش کرنی چاہئے کہ اس میں کوئی عالم دین بھی ہو ؛ کیوں کہ ایسی صلح جائز نہیں جس میں کسی حرام کو حلال کرلیا ہو ، کوئی ماہر نفسیات یا معاملات طے کرنے کا تجربہ کار آدمی بھی ہو اور ایک ایسا شخص بھی شامل ہو جو سماج میں اثر و رسوخ رکھتا ہو اور فریقین اُس کا اخلاقی دباؤ محسوس کریں ۔
ایسا کاؤنسلنگ سنٹر ہر مسجد کے تحت ہو،اگر آبادی میں مدرسہ ہو تو مدرسہ کے تحت ہو،اوراس کو آبادی کے لحاظ سے محلہ وار یا قصبہ وار ہونا چاہئے ، اگر ہرجگہ ایسے لوگ میسر نہ ہوں تو مسلم آبادیوں کے درمیان کسی مرکزی جگہ میں اِس طرح کا سنٹر قائم کیا جائے اور علاقے کے تمام مسلمان اپنے معاملات میں یہاں سے رُجوع کیا کریں ، یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور عدالت کے باہر اپنے مسائل کو حل کرنے کا ایک ایسا مفید راستہ ہے، جو شریعت میں بھی مطلوب ہے اور جس کی قانون بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، عدالتیں بھی چاہتی ہیں کہ عدالت پر بڑھتے ہوئے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے ایسی تدبیریں اختیار کی جائیں ۔
دو سال پہلے ملک کے چیف جسٹس نے بتایا تھا کہ اِس وقت ہائی کورٹوں میں اتنے مقدمات ہیں کہ ان سب کے فیصلوں کے لئے ایک سو ساٹھ سال چاہئے ، یہ تو ہائی کورٹ کے مقدمات کی مقدار ہے ، اگر نیچے سے لے کراوپرتک تمام عدالتوں کے مقدمات دیکھے جائیں تو نہ معلوم کتنی مدت درکار ہو ،ضرورت ہے کہ ملی تنظیمیں ، علماء اور سماجی رہنما اِس پہلو پر فوری توجہ کریں ؛ تاکہ اس وقت قانونِ شریعت سے متعلق جس طرح کے فیصلے کئے جارہے ہیں ،اورشریعت میں مداخلت کی صورتیں پیداہورہی ہیں،اُن سے بچا جاسکے ۔
***