فکری یلغار: ٹوٹتے حصار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقۂ کار کو از کارِ رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔
لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند ، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل و شعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات و معتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔
فکری یلغار کا یہ سلسلہ آج سے نہیں زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے ، ہندوستان کی حد تک اس کا آغاز مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ، انگریزوں کے عہد میں فکری یلغار کا یہ سلسلہ دراز ہوا، لارڈ میکالے نے ایک ایسی تعلیمی پالیسی غلام ہندوستان کو دیا ، جس کی وجہ سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی تھا ، لیکن اس کا ذوق، ذہن اخلاق اور فہم و فراست انگریزوں کے سانچے میں ڈھلے ہوے تھے ، یہی وہ چیز تھی جس کو ختم کرنے کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دار العلوم دیوبند قائم کیا اور یہ فکر بخشی کہ ہمیں ایک ایسی نسل تیار کر نی ہے؛ جو دیکھنے سننے اور رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہو ، لیکن اس کے جسم میں دھڑکتا دل اور عقل و شعور ایمانی واسلامی پانی سے سیراب کیے گیے ہوں، اور ان کی تربیت اس نہج پر کی گئی ہو کہ ان پر اللہ کا رنگ غالب آگیا ہو اور اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے، حضرت نانوتویؒ کے اس فکر کو اللہ نے قبول کیا ، پورے ملک میں علماء اس کام کے لیے کھڑے ہو گئے، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا ۔الحمدللہ حضرت نانوتویؒ کا یہ فیضان آج بھی جاری ہے اور انشاءاللہ تا قیامت جاری رہے گا۔
عصر حاضر میں اس سلسلہ کو پھر سے خطرات لاحق ہیں، ان کے یہ خطرہ انگریزوں سے نہیں فرقہ پرست تنظیموں اور تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، ان کا منصوبہ یہ ہے کہ تعلیمی نصاب و نظام کو ہندو توا کے رنگ میں رنگ دیا جائے،جس کی تیاری تقریباً مکمل ہے اور بہت جلد مرکزی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کر نے والی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جائے گا جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کرنے والے ہوں گے ، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیا جائے گا ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر اسلام کے خلاف فکری یلغار امریکہ ، اس کے حلیف ممالک اور مغرب کی طرف سے مسلسل جاری ہے ، اور اب اس نے عالم عربی میں اپنی جگہ بنانی شروع کر دی ہے، اس کے لیے امریکہ نے عالم اسلام کے قلب سعودی عرب میں اپنی آفس کھول رکھی ہے ، اس کا مقصد سعودی عرب میں رائج نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر دینی کتابوں سے تشدد پر مشتمل مواد کو خارج نصاب کرنا ہے، وہابی تحریک انگریزوں کے مخالف رہی ہے اس لیے سعودی عرب کے نصاب سے وہابی تحریک کے ذکر کو حذف کر دینا ہے، ائمہ ، علماءاور نوجوانوں کی معتدل تربیت کا نظم اب وہائٹ ہاؤس کی نگرانی میں کیا جائے گا، تاکہ ایک اعتدال پسند نسل کو وجود میں لایا جائے ، جو عقال ، عبا اور چوغہ پہنتی ہو، لیکن اس کا دل و دماغ امریکہ و برطانیہ کے افکار و اقدار میں گروی ہو، اور اس کے معتقدات اسلام سے میل نہ کھاتے ہوں، یہ سب محض خیالات نہیں ہیں، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن Rex Tillerson نے سعودی عرب کے دورہ کے بعد Scot Berry کے سوالات کے جوابات میں حال ہی میں ان خیالات کا اظہار کیاہے اور ۷۱؍ جولائی ۷۱۰۲؁ء کے الخلیج الجدید نے وہابی ازم سے نمٹنے کے لیے سعودیہ میں نصاب تعلیم کی تبدیلی پر ملک سلمان اور صدر ٹرمپ کے اس معاہدہ کی حقیقت بیان کی ہے۔ یہ بات ذرائع ابلاغ اور میڈیا میں اب آئی ہے ، حالانکہ سموئیل ماری نیوس زویمر (Samuel Marinus Zwemer) نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی اعلان کر دیا تھا ، کہ ہم نے اسلامی ممالک کے نظام تعلیم پر اپنا کنڑول کر لیا ہے، زویمر کے ساتھ کرومر (Cromer) بھی اس مہم میں شریک رہا ہے اور مصر کی تعلیمی نظام اور تربیتی اقدار کو تبدیل کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، مصر کے بعد ترکی ان کا بڑا ہدف رہا ، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسلامی نظریات اور طریقوں کو جس طرح وہاں سے حکومتی سطح پر بے دخل اور نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی وہ تاریخ کا بد ترین باب ہے۔ اور اس باب کو بند ہونے میں کم وبیش پنچانوے سال لگ گیے، اور ابھی بھی جو پیش رفت ہے وہ رجب طیب اردگان کی اپنی فکر اور سوچ کا نتیجہ ہے، ان کی قوت ارادی نے ترکی کو اسلام کے رخ پر ڈال دیا ہے۔
اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجاً وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔
سعودی عرب کی نئی نسل مغربی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے پر فخر کر تی رہی ہے، اور آج بھی وہاں اکثر کلیدی عہدوں پر وہی لوگ فائز ہیں، جنہوں نے مغرب کی درسگاہوں سے علم حاصل کیا ہے، اور جن کی تربیت وہاں کے خدا بیزار ماحول میں ہوئی ہے، ان میں اگر نیکیوں کے اثرات ہیں تو وہ ارض پاک کی مٹی اور ہواؤں کا اثر ہے، جن پر اس کا اثر نہیں ہوا ،ان کے اقدام کو راہ حق سے آپ دور پائیں گے۔
پوری دنیا کے مسلمان یہ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب جہاں ہمارا قبلہ و کعبہ ہے، اور جس کی طرف رخ کر کے ہم عبادت کر تے ہیں ، وہ بڑی تیزی سے اپنا قبلہ مغرب کو بناتا جا رہا ہے اور امریکہ کے چشم و ابرو پر ایسے ایسے عجیب و غریب فیصلے کر رہا ہے کہ عقل حیران ہے، شاعر کا ایک شعر نوکِ قلم پر آگیا۔ ؎
ای تماشہ گاہ روئے عالم تو
تو کجا بہر تماشہ می روی؟
(کالم نگار معروف مصنف اور امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں