مولانا ندیم الواجدی
کل رات ہزاروں کی بھیڑ نے ایک نحیف ونزار اور بے جان جسم کو جو بیماریوں سے لڑ لڑ کر مشت استخواں بن چکا تھااپنے کاندھوں پر اٹھا کر اس کی آخری منزل تک پہنچا دیا، نگاہوں کے سامنے سے وہ منظر نہیں ہٹتا جب ہر شخص اس جنازے کو کندھا دینا چاہتا تھا، کندھا نہ دے پانے کی صورت میں وہ صرف اس چارپائی کو ہاتھ لگانے کی کوشش کررہا تھا جس پر یہ بے جان جسم رکھا ہوا تھا، اُن کے گھر سے دار العلوم کا فاصلہ اتنا مختصر ہے کہ اسے فاصلہ بھی نہیں کہہ سکتے مگر جنازے کو وہاں تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ گیا، نماز جنازہ سے کافی پہلے احاطۂ مولسری، باب قاسم کا اندرونی حصہ، باب قاسم سے باہر محلہ دیوان تک؛ سرہی سر تھے، اندرون دار العلوم دونوں طرف کی درسگاہیں اور ان کی چھتیں بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، ہزاروں افراد دار العلوم کے صحن چمن میں دورویہ قطاریں بناکر کھرے ہوئے تھے، جو جگہ نہ ہونے کے باعث نماز سے محروم رہ گئے، یا اللہ! یہ کس عاشق کا جنازہ ہے جو اس قدر دھوم سے نکل رہا ہے، سڑکیں، راستے اور گلیاں اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کررہی ہیں، یہ جنازہ تھا خاندان قاسمی کی چوتھی نسل کے ایک ممتاز عالم مولانا محمد اسلم قاسمی کا جنہوں نے طویل علالت کے بعد کل دن میں داعیِ اجل کو لبیک کہا، جنازے میں امڈی ہوئی بھیڑ کو دیکھ کر ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوا، واقعی آج بھی ہمارے یہاں نسبتوں کا بڑا احترام ہے، مولانا محمد اسلم قاسمی جن بلند پایہ نسبتوں کے امین تھے ان میں ایک نسبت تو علم دین کی نسبت تھی جس کا اظہار کبھی درس وتدریس کبھی وعظ وتقریر اور کبھی تحریر وتصنیف کے ذریعے ہوتا رہتا تھا، اس کے علاوہ بھی ان کو کئی بلند پایہ نسبتیں حاصل تھیں، وہ قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دار العلوم دیوبند کے پڑپوتے تھے، اور ان کے علوم ومعارف کے شارح وترجمان بھی، وہ دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم اور نظام حیدر آباد کے سابق چیف جسٹس مولانا حافظ محمد احمدؒ کے پوتے تھے، وہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے بیٹے تھے جنھوں نے ساٹھ سال تک دار العلوم دیوبند کا انتظام سنبھالے رکھا، مولانا اسلم قاسمی کو جن لوگوں نے دیکھا ہے اور جن لوگوں نے سنا ہے وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ اپنے والد بزرگوار کا عکسِ جمیل تھے، نہ صرف ظاہری رکھ رکھاؤ میں بل کہ اپنے باطنی اوصاف میں بھی وہ اپنے والد محترم کے اوصاف کا حسین پرتو نظر آتے تھے، جب تقریر کرتے تو آواز کے نشیب وفراز، الفاظ کے درو بست اور علوم ومعارف کے بہاؤ سے صاف محسوس ہوتا کہ مولانا اسلم کے قالب بدن میں حکیم الاسلام کی روح حلول کرگئی ہے اور ان کی زبان حکیم الاسلام کی ترجمان بن گئی ہے، ظاہر وباطن کی اتنی مشابہت کم ہی دیکھی گئی ہوگی۔
مولانا محمد اسلم قاسمی کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ہمارے دور کا ایک علمی معجزہ تھے، اس جملے کی وضاحت کے لئے مجھے کافی پیچھے لوٹنا ہوگا، اپنے دورِ طالب علمی کی طرف، ہم دیکھتے تھے کہ ایک صاحب جن کی عمر چالیس پینتالیس کے آس پاس ہوگی دار العلوم دیوبند کے ایک دفتر میں آتے جاتے ہیں، یہ دفتر دار العلوم دیوبند کے شعبۂ برقیات کا تھا، یہ خالص انتظامی شعبہ تھا، علم سے اس کا صرف اس قدر واسطہ تھا کہ وہ اہل علم کو روشنی بہم پہنچاتا تھا، دار العلوم میں داخل ہونے کے بعد دائیں طرف شعبۂ برقیات کا دفتر ہوا کرتا تھا، اجلاس صد سالہ کے موقع پر اس دفتر کو خالی کراکے راستہ بنا دیا گیا تھا، جو آنے جانے والوں کو دار العلوم دیوبند کی لائبریری، تنظیم وترقی کے دفتر اور دار الصنائع کے احاطے تک پہنچاتا ہے، میں نے جس شخص کا ذکر کیا ہے ان کا نام تھا مولانا محمد اسلم قاسمی، شعبۂ برقیات ان ہی کی نظامت میں کام کرتا تھا، طلبہ میں عام تأثر یہ تھا کہ بس یہ ایک صاحبزادے ہیں، علمی قابلیت ان میں کچھ خاص نہیں، ورنہ وہ بھی اپنے برادر معظم حضرت مولانا محمد سالم قاسمی کی طرح دار العلوم دیوبند کی کسی درسگاہ میں پڑھاتے ہوئے نظر آتے، دار العلوم سے نکل کر وہ اپنے تجارتی مکتبے کتب خانہ قاسمی میں جا بیٹھتے، ان کے حال احوال دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ عالم بھی ہیں، اللہ معاف کرے اوروں کی طرح ہم بھی اسی گمانِ فاسد میں مبتلا تھے، آہستہ آہستہ ان کے جوہر کُھلے اور کُھلتے چلے گئے، بیس پچیس سال تک غیر علمی مصروفیتوں سے نکل کر وہ ایک علمی معجزے کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوئے، اس وقت اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی خصوصیتوں سے نواز رکھا تھا، بس وہ ان کے اندر کہیں چھپی ہوئی تھیں، مناسب وقت آیا تو اللہ نے ان کو ظاہر بھی کردیا۔
۱۹۷۷ء کی بات ہوگی جب دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے دار العلوم دیوبند کا اجلاس صد سالہ (سوسالہ جشن) منانے کا فیصلہ کیا، وہ بھی چھوٹے موٹے پیمانے پر نہیں بل کہ عالمی پیمانے پر، جشن کی تیاریوں کے لئے ایک دفتر بنایا گیا، اوّلاً اس کے ذمہ دار مولانا حامد الانصاری غازیؒ بنائے گئے، موصوف اپنی پیرانہ سالی کے باعث اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ انجام نہ دے سکے، دو سال بعد اس دفتر کا انچارج مولانا اسلم قاسمی کو بنا دیا گیا، کام بڑا تھا، وقت کم تھا، لگتا نہیں تھا کہ اجلاس صد سالہ مقررہ وقت پر ہو بھی پائے گا یا نہیں، مگر دیکھتے ہی دیکھتے دفترِ صد سالہ پر جمی برف کی تہیںپگھلنے لگیں اور کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ اس کی کارگزاریوں کے اثرات صاف نظر آنے لگے، مولانا اسلم صاحب قاسمیؒ نے سب سے پہلے مختلف کاموں کے لئے مناسب اور موزوں افراد کار کا انتخاب کیا، اور ان کی مدد سے سال ڈیڑھ سال کے عرصے میںوہ کر دکھایا جو کبھی خواب لگتا تھا، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دیوبند کی عیدگاہ کے عقب میں واقع قاسم پورہ روڈ کے دونوں جانب کی زمینوں پر حد نظر تک پنڈالوں اور خیموں کا شہر آباد ہوچکا ہے، ابھی ۲۱،۲۲،۲۳ مارچ ۱۹۸۰ء کی آمد میں کچھ وقت ہے مگر خیموں کا یہ شہر مہمانوں کے استقبال کے لئے دولہن کی طرح سجا دیا گیا ہے، اسٹیج بھی اس قدر وسیع وعریض کہ شاید ہی اس سے پہلے کبھی بنا ہوا ہو بل کہ بعد میں بھی کبھی نہیں بنا، مہمان بھی ہر طرح کے، عالمی شخصیات بھی بڑی تعداد میں آنے والی تھیں، تین دن کے اجلاس کا پروگرام، طعام وقیام کا نظم، میٹنگیں، سمینار، مشورے، ہر کام اس طرح ہورہا تھا اور اس طرح ہوا کہ آج بھی تصور کرکے حیرت ہوتی ہے، یہ سب کام مولانا اسلم قاسمیؒ کی قیادت میں، ان کی نگرانی میں، اور ان کی فعال شخصیت کے زیر سایہ انجام دئے جارہے تھے، دار العلوم دیوبند کا جشن صد سالہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ منایا گیا، بلاشبہ ان رعنائیوں میں مولانا اسلم قاسمیؒ کی انتظامی صلاحیت اور بصیرت کا جلوہ نمایا ں طور پر نظر آتا تھا۔
جشن صد سالہ تو ہوگیا، مگر اس کے بعد دار العلوم دیوبند کو جن ناگفتہ بہ حالات سے گزرنا پڑا وہ اگرچہ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں مگر دل سے محو نہیں ہوسکے ہیں، تفصیل کی نہ ضرورت نہ موقع، مختصرًا اتنا عرض ہے کہ حالات اتنے بگڑے کہ دار العلوم بند کرنا پڑا، کیمپ کی شکل میں متوازی دار العلوم قائم ہوگیا، قاری محمد طیب صاحبؒ کو منصب اہتمام سے ہٹا دیا گیا، کیمپ ختم ہوگیا، دار العلوم کھل گیا، حضرت قاری صاحبؒ کے ساتھ پچاسی ملازمین دار العلوم سے باہر آگئے، مولانا اسلم قاسمی بھی ان پچاسی لوگوں میں شامل تھے، اجلاس صد سالہ کی مصروفیات کے دوران مولانا اسلم صاحب کا تجارتی مکتبہ روبہ زوال ہوچکا تھا، ملازمت ختم ہوگئی تھی، اقتصادی طور پر اوروں کی طرح مولانا بھی پریشان ہوگئے تھے، ان کا ارادہ تھا کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں، یا علی گڑھ جاکر کسی مناسب ملازمت کے لئے انٹرویو دیں، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، دار العلوم وقف کی بنیاد پڑی داخلے ہوئے، اسباق کا آغاز ہوا، پڑھانے والوں میں مولانا اسلم قاسمی بھی شامل تھے، حیرت سب کو ہوئی، مگر یہ حیرت جلدی ہی دور بھی ہوگئی، لوگوں نے دیکھا کہ بیس پچیس سال قبل جو کتابیں انھوں نے طاق نسیان پر رکھ دی تھیں وہ ابھی تک ان کو ازبر ہیں، وہ ایک کامیاب مدرس بن کر ابھرے، اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے والد بزرگوار کے نقشِ قدم پر چل کر ملک وبیرون ملک میں وعظ وتقریر کا سلسلہ بھی شروع کیا، اس میدان میں بھی وہ کامیاب رہے، عصر بعد کی مجلسیں بھی شروع ہوئیں، یہ مجلسیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے زمانے میں بھی ہوا کرتی تھیں، یہاں بھی انھوں نے دل نشیں نقش چھوڑا، اس طرح ہم ایک نئی شخصیت سے متعارف ہوئے، جو ۸۰ء سے پہلے کی شخصیت سے یکسر مختلف تھی، میں اس تبدیلی کو علمی معجزے سے تعبیر نہ کروں تو اس کو کیا نام دوں؟
مولانا اسلم قاسمیؒ بہترین شاعر بھی تھے، مگر اپنے آباء کی طرح انھوں نے اس کو کبھی پیشہ یا مشغلہ نہیں بنایا، سیرت حلبیہ کا اردو ترجمہ کیا، بچوں کے لئے سیرت کی ایک عربی کتاب کا ترجمہ بھی کیا، جو سیرت پاک کے نام سے چھپ چکی ہے، اسلوب نگارش بڑا عمدہ اور متأثر کن تھا، اشعار میں بھی بڑی پختگی تھی، ان سب سے بڑھ کر اہم بات یہ تھی کہ وہ گوناگوں اخلاق عالیہ سے بھی متصف تھے، تواضع، انکساری، خوش خلقی، ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جس سے ملتے اس پر اپنے تعلق خاطر کا گہرا نقش قائم کردیتے، راقم السطور بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن سے مولانا کی ملاقات دید وشنید تک محدود نہ تھی، طالب علمی کے دور میں احقر نے ان کی فرمائش پر کئی عربی کتابوں کے ترجمے لکھ کر ان کو دئے، جو ان کے مکتبے سے شائع بھی ہوئے، دفتر رسالہ دار العلوم میں بہت سے لوگ مدیر رسالہ مولانا سید ازہر شاہ قیصر کی باغ وبہار شخصیت کی نرم گرم گفتگو سے لطف اندوز ہونے کے لئے تقریبًا ہر روز جمع ہوتے تھے ان میں ایک اہم شخصیت مولانا اسلم صاحبؒ کی بھی تھی، احقر بھی اس مجلس کے دریوزہ گروں میں شامل تھا، اس مجلس میں بھی مولانا کا وقار قابل دید ہوا کرتا تھا، جب وہ بات کرتے تو زبان سے پھول جھڑتے ان کی گفتگو سننے کے لئے حاضرینِ مجلس ہمہ تن گوش ہوجاتے، یہ مختصر مضمون زیادہ تفصیل کا متحمل نہیں، لوگ لکھیں گے، اور ان کی زندگی کے کچھ اور گوشے تفصیل واختصار کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں گے، صحیح معنی میں اسی وقت ان کی شخصیت کے کمالات کا صحیح اعتراف و اظہار ہوگا، اخبار کے مختصر کالم میں اس قدر گنجائش کہاں؟ بس ان دو مصرعوں کے ذریعے اپنے دلی رنج والم کا اظہار کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں
ع آں قدح بہ شکست وآں ساقی نہ ماند
اور
ع مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
nadimulwajidi@gmail.com