محمد سلمان کے اس جذبہ کو سلام ، رکشہ چلاکر وہ بننا چاہتے ہیں ڈاکٹر

مولانا مجاہد حسین حبیبی 

دوستو اس لڑکے نے تو حیران کردیا مجھے کہ اس دور میں بھی ایسے بچے ہیں جنکے حوصلے کے سامنے ہمالیہ بھی چھوٹا نظر آتا ہے ۔
پیارے دوستو!
مجھے نثر میں بالکل ہی مہارت نہیں ہے کچھ لکھنا نہیں آتا یقین ،جانیئے جو میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا اگر میری جگہ پر اردو کے بیباک صحافی ،اردو ادب کے ٹائیگر عالی جناب شمس تبریز قاسمی بھائی ،عالی جناب نایاب حسن صاحب یا مشفق دوست جمیل اختر شفیق ہوتے تو آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی چونکہ ان لوگوں کو خدا نے اس میدان کا شہنشاہ بنایا ہے خیر کچھ مجھ سے بھی سن لیجیئے ،شاید آپ کو پسند آے اور آپ کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہو ۔
بارہ بنکی کے مشاعرے کے بعد میں دو دن خالی تھا کچھ شاعر دوستو نے کہا کہ مجاہد بھائی آپکو لکھنو دیکھاتے ہیں دل باغ باغ ہوجائے گا اور آپکو شعر بھی بات بات پر سنانا ہے بھائی اشفاق بہرانچی اور سجاد اعظم لکھیم پوری بھاءحافظ صادق صاحب نے کئی پارک کا نام لیا کافی دیر کے بعد فیصلہ ہوا کے جانیشور پارک چلتے ہیں شام تک حبیبی کے ساتھ رہیں گے اور چار باغ اسٹیشن سے گاڑی ہے حبیبی کی بستی کے لیئے 16/11/2017 کے مشاعرے میں شرکت کرنی ہے بہت دیر تک پارک میں تفریح کرتارہا دھیرے دھیرے اندھیرا چھا گیا میری گاڑی پانچ گھنٹے لیٹ تھی ویسے بھی اس وقت گاڑیاں اتنی بے وفیاں کر رہی ہے جتنی مودی جی اپنی پتنی سے کرتے ہیں پارک سے باہر جب نکلا تو رکشہ والے چاروں طرف سے گھیر لیا کہاں جانا ہے اچانک ایک آواز آئی مولانا مجھے خدمت کا موقع دیجیئے پھر سب رکشے کو چھوڑ کر میں اسی میں بیٹھ گیا ساتھیوں نے رکشے والے سے پوچھا چار باغ تک کا کیا لوگے اس نے 150 کہا۔ ایک ساتھی نے کہا جب حبیبی ہے تو دیکھنا کیا آجکل تو بہت لمبالمبا لفافہ لیتے ہیں چلو بیٹھو ۔بیٹھتے ہی مذاق شروع ۔زور زور کے قہقہے لگانے لگے ۔ساتھ میں تمام ساتھیوں کے ہم بھی ہنستے رہے۔ پھر اچانک ساتھیوں نے کہا رکشے والے بھائی آپ کیوں خاموش ہیں؟ ۔آپ بھی کچھ سنایئے ۔اسی دوران دیکھتا کیا ہوں کے وہ رکشہ بھی چلا رہے ہیں اور سامنے انگریزی کی کتاب بھی رکھی ہے جسے وہ پڑھ رہے ہیں اپنی دھن میں پڑھے جارہے ہیں کسی سے کوئی مطلب نہیں ایک ساتھی نے مذاق ہی مزاق میں کہا یہ لکھنو کے میٹرو کا انجینیئر ہے ۔ساتھیوں پر برستے ہوئے میں نے کہا تھوڑا ۔اپنا خیال کیجیئے بھائی کیا سوچے گا کہ مولوی ملا کیسے ہوتے ہیں۔ پھر میں نے رکشے والے بھائی سے پوچھا آپ کی تعریف کیا ہے ۔کہا مجھے سب محمد سلمان کہتے ہیں میرا غریب خانہ ہردوئی ہے میں نے کہا بھائی ایک دن میں آپ کیا کمالیتے ہو اس نے کہا مولانا 450/کمالیتا ہوں یا کبھی 400/کمالیتا ہوں مہینے میں تین دن ہی چلاتا ہوں میں نے کہا بھائی باقی دن میں کیا کرتے ہو اس نے کہا مولانا صاحب پڑھائی کرتا ہوں میرے دوست کی گاڑی ہے اس نے مجھے سکھا دیا ہے رکشہ چلانا۔ ابو کے پاس پیسے نہیں ہے، غریب گھر سے ہوں۔ میرے دوست کا بڑا احسان ہے کہ وہ مہینے میں تین دن مجھے رکشہ دیدیتے ہیں اسی سے خرچ نکال لیتا ہوں۔ خدا کے کرم سے زندگی گزر رہی ہے۔ مولانا آپ لوگ تو مولانا حافظ ہیں مدرسے میں رہتے ہیں میرے لیئے دعا کیجیئے گا۔ خدا ہمکو ڈاکٹر بنادے ،تاکہ میں غریبوں کا علاج مفت میں کر سکوں ۔
یہ ساری بات سننے کے بعد سارے ساتھی مایوس ہوگئے سب کی بولتی بند ہوگئی ہر آدمی محبت کی نگاہ سے دیکھنے لگا سلمان بھائی نے کہا رکشہ چلاتے چلاتے بھائی آپ لوگ مجھے معاف کرنا آپ سب کی خوشی میں دخل دیا میں نے کتنا اچھا آپ لوگ ہنس رہے تھے میں بھی پاگل ہوں میں نے ٹھنڈی آہ لی کہا بھائی تو پاگل نہیں توغریب بھی نہیں ہے تیرے حوصلے کے سامنے ہمالہ خود چھوٹا نظر آتا ہے ایک نہ ایک دن بھائی تیری محنت رنگ ضرور لاے گی بات کرتے ہی کرتے چار باغ اسٹیشن آگیا اب سب ساتھی پیسہ دینے کو تیار وہ کہ رہا ہے کرایا میں دونگا تو میں دونگا میں نے کہا ایسا کرو آج کرایا سب دے گا اپنے چھوٹے بھائی کو سب نے دیا وہ شرماتے ہوے بولا مولانا میں بھیک نہیں مانگتا مجھے کیوں شرمندہ کر رہے ہیں میں نے کہا مجھے بڑا بھائی مانتے ہو تم میرے کلمہ شریک بھائی ہو جس خدا کو تم مانتے ہو اسی خدا اور رسول کو ہم بھی مانتے ہیں یہ میرا حکم ہے اسے رکھو پھر میں نے بھی اپنی جیب میں ہاتھ دیا اور کہا یہ رکھو میری طرف سے اور میرا نمبر یہ مجھ سے رابطے میں رہنا مجھ سے جو بن پڑے گا میں تمہاری خدمت کرونگا اور میں ادھر آتا ہی رہتا ہوں آپ سے ملونگا بھائی میں نہیں پڑھ سکا پر تو ضرور پڑھنا ایک دن ایسا آئے گا دنیا تیرے پیچھے ہوگی دوستو میں تو اپنی ماضی میں ہی کھو گیا تھا چونکے میں وہ دن ابھی بھی نہیں بھولا ہوں گھر کے لوگوں نے کہا بیٹا اب مجھے پڑھانے کی ہمت نہیں ہے میں اپنے رشتہ کے جو بھائی لگتے ہیں بڑے بڑے سیٹھ تھے میں نے کہا بھائی مجھے 400/500/روپیہ مہینہ دیجیئے میں کچھ عربی پڑھنا چاہتا ہوں اسکے بعد جب پڑھاونگا تو آپکا واپس کردونگا وہ جملے آج بھی نہیں بھولتا یہ کہ کر کار خانے سے باہر کر دیا کہ باپ مدرسے کا چندہ کرتے ہیں رمضان میں اور چھ چھ بہن ہے اور خود لنگڑا کوئی کام کا نہیں اس سے بہتر ہے کام سیکھ لیں بہتر ہوگا اتنی لمبی فیملی ہے گھر کیسے چلے گا ایک دو بار مدرسے کی رسید لیکر میں بھی گیا تو خاندان کے لوگ کہتے تھے کہ دونوں باپ بیٹا چھوٹ کی ایک کتاب رکھے ہیں اور رمضان میں لوگوں کو پڑھاتے ہیں پتا نہیں کیا کیا سننے کو ملا دیکھتے ہی دیکھتے دو سال کے اندر ہی اندر ہم نے اسی جلسے اور مشاعرے کی کمائی سے تین ہمشیرہ کی شادی کردی خدا کے کرم سے جو مجھ سے چھوٹی تھی عمر میں پھر رمضان کے مہینے میں اب بڑے احترام کے ساتھ باپ ماں بھائی بہن کے ساتھ رمضان بتاتا ہوں اور مجھ سے جو بن پڑتا علاقے کے ادارے کی خدمت کرتا ہوں بڑے ذوق کے ساتھ فی الحال کچھ نہیں کرتا اب آپ دوستوں کی دعا سے اور خدا کے کرم سے صرف پروگرام ہی مشغلہ ہے حالکہ بڑے بڑے ادارے سے آفر ملا پر مصروفیت کے سبب نہیں دیپاتا وقت لیکن کچھ کرنا چاہیئے مجھے بار بار سوچتا ہوں دوستو خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں حوصلہ انسان کو بلند رکھنا چاہیئے اور کسی کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہے اور حقیر نہ سمجھنا چاہیئے اگر کسی کو کچھ نہیں دے سکتے ہو تو مت دو مگر اس کا حوصلہ نہیں توڑو آپ کا ایک حوصلہ ممکن ہے اسے کہاں سے کہاں پہچا دے لکھنے میں بہت ساری غلطی ہوسکتی ہے اسلیئے ٹرین میں لکھ رہا ہوں گاڑی تیز ہے اور ٹائم 4/45/منٹ ہو رہے ہیں اور کل رات بھر جاگنا ہے آل انڈیا نعتیہ مشاعرہ ہے احباب سے دعا کی درخواست ہے۔
(مضمون نگاربہار کے ضلع سیتامڑھی سے تعلق رکھتے ہیں، دینی جلسوں اورنعتیہ مشاعروں کے معروف اناﺅنسر ہیں )