قاسم سید
کیا سافٹ ہندوتو اور جارح ہندوتو میں مفاہمت ہوگئی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو غیر محسوس طریقہ سے پورا کریں گے۔ کیا سماج کے کمزور طبقات اور اقلیتوں کو دباکر رکھنے کے تعلق سے ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں غیر تحریری معاہدہ ہوگیا ہے ۔ موب لنچنگ نے باقاعدہ بزنس کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یونیورسیٹیوں میں ٹینک رکھ کر قوم پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کی تجویز گائے کے نام پر انسانوں کو مارنے کی منصوبہ بند مہم‘ مرنے والوں کو مجرم اور قاتلوں کو بے گناہ بتانے کی ضد۔ گوڈسے کے مندر قائم کرنے کا جنون ‘ جینس پہننے والی لڑکیوں کی پٹائی‘ بھیڑ کی طرف سے دوڑا دوڑا کر جاوید اختر جیسے لوگوں کو سبق سکھانے کی دھمکی‘ دپیکا پڈوکون کی ناک کاٹنے اور بھنسالی کا سر قلم کرنے والوں کو دس کروڑ انعام کا اعلان فاروق عبداللہ کی زبان کاٹنے والوں کو انعام کی ترغیب‘ مخالفین کی سیکس سی ڈیز عام کرنے کی حکمت عملی ‘مزاحمت کرنے پر زندہ جلانے کی وارننگ‘ پدماوتی کو راشٹر ماتا کا درجہ دے کر ایک فلم کے خلاف پرتشدد طاقت کے مظاہرے سنیما گھروں کو آگ لگادینے کا کھلم کھلم اظہار اور اس پر قانون کی خاموشی۔ سوال کرنے والوں کو دیش دروہی کہنے کا بڑھتا چلن‘ قوم پرستی کے نئے مفاہیم کی تخلیق‘ پرائمری اسکول کی کتابوں کے کور کو بھگوا بنانے کی ضد‘بسوں دیواروں‘ صوفوں پر بھگوا رنگ چڑھانے کی اسکیم۔آسام کے تعلق سے ایک بیان دینے پر مولانا ارشد مدنی جیسے بزرگ پر ایف آئی آر اور ملک میں آگ لگادینے کی دھمکیاں دینے والوں کے مطالبہ پر سرکاروں کی نیازمندی‘لڑائی کے نام پر ٹرین سے پھینک دینے اور قتل کرنے جیسے معاملات ڈرا دینے والے ہیں۔ کیا ملک میں اب قانون کام کرنے سے معذور ہے یا پھر حکومت کے ہاتھوں سے ڈور چھوٹ رہی ہے۔ یہ سب دہشت پھیلانے کا کھیل ہے جو مل جل کر کھیلا جارہا ہے۔ یہ انارکی پیداکرنے کی کوشش ہے یا فاشزم کے لئے راستہ ہموار کیاجارہا ہے۔
سول سوسائٹی کے سر پر خوف مسلط کرنے کی مہم ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مصلحتاً خاموش ہیں یا انہیں خاموش رہنے کا حکم دیاگیا ہے۔ مہاتما گاندھی کو کھلے عام گالیاں دی جارہی ہیں اور گوڈ سے کا مندر بنانے کی حوصلہ افزائی‘ عدم تشدد کے فلسفہ کا حامل ملک اتنا متشدد غیر روادار اور جارح کیوں بنایاجارہا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ صرف اعلیٰ ذات والوں کی ہی عزت ہوتی ہے۔ پدماوتی کے لئے مرنے اور مارنے کی دھمکیاں دینے والوں کی سیاسی سرپرستی ہو رہی ہے ۔ایک کے بعد ایک ریاست راجپوتوں کی مہم کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے معاملہ صرف ایک فلم کے چلنے دینے کا نہیں ہے ایک ایسی ’رانی‘ کے نام پر خون وخرابہ کرنے اور اینٹ سے اینٹ بجادینے کا اعلان پریس کانفرنسوں کے ذریعہ کیاجارہا ہے جس کا تاریخ میں کوئی وجود نہیں۔ ہم نے صرف راشٹرپتا کا نام سناتھا مگر اب پدماتی کے نام کی راشٹر ماتا کا بھی ظہور ہوگیا ہےاور گئو ماتا کی طرح کل ان کا احترام کرنے کا سرکاری حکم نامہ آجائے تو کسی کو تعجب نہیں ہوناچاہئے کبھی کسی زندہ عورت کی آبرو اور وقار کے لئے اتنا جنون نہیں دیکھاگیا ہوگا اور اسے خوشامد اور نسل پرستی کہنے کی بجائے سوابھیمان کی لڑائی سےتعبیر کیا جارہا ہے۔ کیا یہ صرف پدماوتی کا معاملہ نہیں بلکہ اعلی ذات کی بالادستی‘نسل پرستی اور فرقہ واریت یا ایک لفظ میں کہیں تو جارح ہندوتو کا جھنڈا بلند کرنے کی حکمت عملی ہے۔ اس کو صرف بی جے پی کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔ بلکہ کانگریس بھی درپردہ اس تحریک کے ساتھ ہے۔ اگر یوگی آدتیہ ناتھ ‘شوراج سنگھ چوہان اور وسندھرا راجے نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگاتی ہے تو پنجاب کے وزیراعلی کیپٹن امریندر سنگھ بھی پیچھے نہیں رہے جو کانگریس سرکار کے وزیراعلیٰ ہیں۔ کرنی سینا کا صدر دپیکا پڈوکون کی ناک کاٹنے کی دھمکی دیتا ہے اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی دوسری طرف اونا میں گائے کی چمڑی اتارنے سے انکار کرنے پر دلتوں کی چمڑی ادھیڑ دی جاتی ہے اور یوپی میں نوجوان دلت لیڈر چندرشیکھر راون کو احتجاج کرنے کی گستاخی میں جیل میں ٹھونس دیاجاتا ہے کیونکہ وہ چمار ہے۔ جب عدالت اسے تمام معاملوں میں ضمانت پر رہا کردیتی ہے تو جیل سے باہر آنے سے قبل اس پر دوبارہ این ایس اے یعنی قومی سلامتی ایکٹ لگادیاجاتا ہے‘جیلوں میں اذیتیں دی جاتی ہیں۔ ملک کی اکثر جیلوں میں موجودقیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد دلتوں قبائلیوں اور اقلیتی طبقہ کے لوگوں کی کیوں ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے مطالبات کو منوانے کی طاقت نہیں ہے وہ سنیما گھروں میں آگ لگادینے ‘کسی کی ناک کاٹ دینے اور سر قلم کرنے کی دھمکیاں نہیں دے سکتے۔ اگر ایسی حماقت کرتے بھی ہیں تو قانون فورا حرکت میں آجاتا ہے۔ پھولن دیوی کو کسی فلم میں ننگا دکھانے پر احتجاج نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تعلق سماج کے کمزور ترین طبقہ سے تھا۔ ان کی عورتیں مال غنیمت ہوتی ہیں اجتماعی عصمت دری کرکے کھیتوں میں پھینک دی جاتی ہیں کسی کا ضمیر نہیں جاگتا۔
کسی کی غیر ت جوش نہیں مارتی کیونکہ عزت و عصمت تو صرف راجپوت ہی رکھتے ہیں جنہوں نے انگریزوں کی خوشامد کرکے اپنے تاج بچائےاب تاریخ از سر نو لکھی جائے گی۔ شکست خوردہ راجہ کو فاتح اور ان کو دھول چٹانے والے مفتوح کہلائے جائیں گے۔ جو بھی جارحانہ قوم پرستی پر احتجاج کرے گا‘ ایوارڈ واپس کرے گا۔ عدم رواداری پر تشویش ظاہر کرے گا اس کا جینا حرام کردیا جائے گا۔ اخلاق سے لے کر گوری لنکیش تک اختلاف رنگ ونسل مذہب ونظریہ کی بنیاد پر بے رحمانہ قتل کا سلسلہ کہیں تھمنے والا نہیں ہے اور اب آسام میں روہنگیا جیسے حالات پیدا کرنے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے جہاں ہزاروں افراد جو وہاں کے اصل شہری ہیں ڈیٹنشن گرائونڈ میں رکھے گئے ہیں۔ سوال یہی ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں اس ملک میں نوٹ بندی‘ جی ایس ٹی‘انسانی حقوق کی پامالی صحافیوں کے قتل‘کسانوں کی خودکشی‘ نوجوانوں کی بے روزگاری ‘ جی ایس ٹی میں گراوٹ‘ہوش ربا گرانی ‘گئو رکشا کے نام پر بے گناہ لوگوں کا پیٹ پیٹ کر قتل‘ ان کی نعش کی بے حرمتی کے بعد ان پر ہی مقدمہ اور قاتلوں کی پشت پناہی جیسے سنگین مسائل راشٹر ماتا پدماوتی کے آنچل میں چھپا دئیے گئے۔ ڈیبٹ میں رام مندرتین طلاق‘ہنی پریت کے راز‘رادھے ماں کے ٹھمکے حاوی ہیں۔ پدماوتی کے نام پر اظہار رائے کی آزادی کو کچل دیاگیا ہے۔ اس میں ریاستیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ یہ اس لئے بھی اور اہم ہیں کہ گجرات میں الیکشن ہو رہے ہیں اور 2019 کے لئے صف بندی زوروں پر ہے۔
فسطائی نظام آکٹوپس کی طرح اپنے تمام پنجے ہندوستانی سماج میں گاڑ چکا ہے۔ یہ حب الوطنی اندھی قوم پرستی اور نسلی امتیاز کی بنیاد پر قائم برہمنی سامراجیت کے تسلط کے لئے پرچموں‘نغموں‘نعروں‘ تہذیبی علامات ‘لسانی جارحیت کا بے تحاشہ استعمال کرتا ہے تاکہ ملک کی اکثریت کا کوئی ایک ہی بیانہ ہرف طرف گونجے اور اس کا لہو گرم رہے۔ اس کے لئے دیدہ ونادیدہ دشمنوں کا خوف‘قومی سلامتی خطرے میں ہے کا شور مچایاجاتا ہے تاکہ عوام کو ریاستی تحفظ اور حب الوطنی کے نام پر بنیادی انسانی حقوق سے دستبرداری کا جذبہ پیدا کیاجائے اور وہ قتل‘ اذیت رسانی‘ مقدمات‘ سزائوں اور قیدوبند کے ریاستی دہشت گردی کے عمل کو معمول کی کارروائی سمجھ کر نظرانداز کریں۔ کسی دانشور نے لکھا ہے کہ فاشزم ہمیشہ مشترکہ دشمن یاقربانی کے کمزور بکرے پر فوکس کرتا ہے اورقومی دیوانگی کا سرور بڑھ جاتا ہے تاکہ کمزور طبقات کی چیخیں اس میں سنائی نہ دیں۔ یہ مشترکہ دشمن کوئی نسلی‘ علاقائی یا مذہبی اقلیت‘ لبرل‘ کمیونسٹ متبادل یا مذہبی اکائی ‘غیر ملکی سازشوں یا کسی بیرونی ایجنسی کا ’ایجنٹ‘ ہوسکتاہے۔ اس کے ساتھ فوجی اداروں کا احترام‘ ان کی کارکردگی کی تعریف اور جنگی رجحان کی حوصلہ افزائی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ میڈیا کا براہ راست یابالواسطہ کنٹرول فسطائیت کے لئے ناگزیر ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا نہ کئے جاسکیں۔ کاروبارو اختیارمیرٹ زیادہ وفاداری کے گرد گھومتا ہے۔ احتساب بدعنوانی کانہیں مخالف کا ہوتاہے۔ ایک مخصوص ٹولہ کے ہاتھ میں طاقت مرتکز ہوجاتی ہے اور جمہوری ادارے کمزور کردئیے جاتے ہیں۔ ہم جہاںکہیں یہ نشانیاں دیکھیں سمجھیں کہ فسطائیت دستک دے رہی ہے۔ اس میں نسل پرستی کا غرورچمکاجاتا ہے اور سب سے زیادہ شامت کمزور طبقات کی آتی ہے۔
کانگریس اور بی جے پی اس معاملہ میں جڑواںبہنیں ہیں کانگریس گجرات میں نرم ہندو کا تجربہ کر رہی ہے اندراگاندھی نے ایمرجنسی میں فسطائیت کا ذائقہ چکھایا تھا ضمیر اورمزاج کے اعتبار سے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل میں اقلیتیں آنے والی ہیں۔ مسلمانوں کی بزرگ قیادت و نمایاں شخصیت ممتاز مولانا ارشد مدنی پر صدائے حق بلند کرنے پر ایف آئی آر اس کی ایک علامت اور ہمارا ایسڈ ٹسٹ ہے۔ ان حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے قورمہ و بریانی سے ہٹ کر کمزور طبقات کے ساتھ مل کر اپنا وجود بچانے کے لئے کیاکیاجاسکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے دھیرے دھیرے ہاتھ دراز ہورہاہے پدماوتی اور آسام اس کی ایک بانگ ہے۔
qasimsyed2008@gmail.com