نئی دہلی،29نومبر (ملت ٹائمز)
سپریم کورٹ نے آج آسام میں جاری شہریت تنازع سے متعلق تقریباً آدھا درجن عرضداشتوں پرسماعت کرتے ہوئے ’اصل مقیم‘شہریت معاملے میں اپنافیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس رنجن گوگوئی اورجسٹس روہنٹن نریمن کی بینچ کے سامنے آج جمعیة علما ہند ،آل آسام مائینارٹی اسٹوڈنٹ یونین ( آ±مسو)، کانگریس کے سات ممبران اسمبلی اور آدی واسی اور بنگالی ہندو ﺅںکی جانب سے دائر عرضداشتوںپرکئی گھنٹے تک بحث ہوئی ۔آمسو کی پٹیشن پر جمعیة علماءہند کے وکیل کپل سبل نے ، کانگریس کے ممبران اسمبلی کی پٹیشن پرسلمان خورشید نے، دوآدیواسی عرضداشتوں پراندرا جے سنگھ اور بنگالی ہندﺅں کی دوعرض داشتوں پر سنجے ہیگڑے نے بحث کی ۔بحث مکمل ہونے کے بعد بنچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔
عدالت میں بحث کے دوران جمعیة کی جانب یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ جب آسام میں این آرسی کا عمل چل رہا ہے تو اس میں صرف شہریت کی بنیاد پر ہی داخلہ ہوناچاہئے ۔ جبکہ مخالفین اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں ’ اصل مقیم‘ بھی ایک پروویجن ہے اور انہیں بغیر کسی دستاویز کے این آر سی میں شامل کیا جائے۔ جمعیة کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ طے تویہ ہونا ہے کہ کون شہری ہے اور کون نہیں ہے۔ شہری ثابت کرنے کے لئے دستاویزات پیش کرنے ہوتے ہیں ۔اگر کوئی شہری ہے تو اصل مقیم ہویا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ شہریت دستاویزات کی بنیاد پر دی جاتی ہے ۔ دوسری جانب ’ اصل مقیم‘ کے آپشن میں کسی دستاویز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔عدالت میں بتایا گیا کہ جس وقت اصل مقیم کا قانون بنایا گیا تھااس وقت نیّت یہ تھی کہ جن آدیواسیوں کے پاس پہننے کوکپڑے تک نہیں ہیں انکے پاس شہریت کے دستاویزات کیا ںہوں گے ۔ اس لئے ایسے لوگوں کی خاطر گنجائش نکالی گئی تھی۔لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آسام میں جن سوا تین کروڑ افراد کی شہریت کلیئر ہونی ہے ان میں سے دوکروڑکی شناخت ہوچکی ہے اوران دو کروڑ افرادمیں تقریبا سواکروڑافراداصل مقیم ہیں جبکہ سترلاکھ افراد دستاویزات کے بنیادپر شہری تسلیم کئے گئے ہیں ۔
جمعیہ علما ءہند نے اپنی عرضداشت میں یہ مطالبہ کیاتھا کہ ’اصل مقیم‘ کے تعلق سے گائیڈلائن واضح کی جائیں ۔عدالت میں آج حکومت ہند کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے اصل مقیم معاملے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق 1951میں آئین ہند کے نفاذ کے وقت جو آسام کا شہری تھا اسے ’ اصل مقیم تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔ وہ عدالت کوسامنے یہ واضح نہیں کرسکے کہ اس بات کوکیسے ثابت کیا گیا کہ فلاں شخص 1951کوبھی آسام کا شہری تھا۔عدالت نے اس معاملے میں سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو آپ دوطرح کے شہری پیدا کررہے ہیں۔ آسام معاہدہ کی کٹ آف ڈیٹ1971ہے ۔ ایسے میں شہری شہری میںفرق پیدا ہوجائے گا۔آسام حکومت کے وکیل کے پاس عدالت کے اس سوال کاکوئی معقول جواب نہیں تھا۔ بنچ نے بحث مکمل کرانے کے بعد اپنافیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔ عدالت کل حکومت کے اس مطالبہ پر غور کرے گی جس میں اس نے این آرسی کا کامکمل کرنے کے آخری تاریخ 31دسمبر 2017سے بڑھا کرجولائی 2018کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعیة علماہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ میںآج اصل مقیم معاملہ میں ہوئی بحث اور اس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلئے جانے کا خیر مقدم کیا ہے ۔ مولانامدنی نے کہا کہ عدالت نے بہت سنجیدگی سے سماعت کی اورہمارے وکلا نے اپنی بات دلائل کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کی ۔ عدالت نے آسام حکومت اورمرکزی حکومت کے وکلا سے سخت سوالات کئے اور انکے جواب پر اپنی جانب سے سوال بھی اٹھائے ۔ آسام سرکار کے وکیل مسٹر گوئل بھی عدالت کے سامنے اطمینان بخش وضاحت کرنے میں ناکام رہے۔مولانا مدنی نے امید ظاہر کی کہ انشا اللہ اس معاملے میں خوش آئند فیصلہ سامنے آئے گا۔بحث کے دوران جمعیةعلماءہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ فضل ایوبی اور جمعیةعلماءآسام کے صدرمولانا مشتاق عنفر بھی موجودتھے ۔