نئی دہلی5دسمبر(ملت ٹائمز پریس ریلیز)
سپریم کورٹ نے آج آسام میں لاکھوں لوگوں کی شہریت سے متعلق ایک انتہائی اہم کیس میں تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے تقریبا 48 لاکھ لوگوں بالخصوص شادی شدہ عورتوں کی شہریت پر لٹکی تلوار سے راحت دیا ہے۔ آج جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس نریمن پر مشتمل عدالت عظمی کی دو رکنی بنچ نے 28 فروری 2017 کوگوہاٹی ہائی کورٹ کے ذریعہ دئے گئے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا جس کی وجہ سے آسام میں نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں اندراج کے لئے پنچایت سر ٹیفیکٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔
جمعیہ علما ءہند کے جنرل سکریٹری مولانا مولانا سید محمود اسعد مدنی اور جمعیہ علماءصوبہ آسام کے صدر ورکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی نے اپنے مشترکہ بیان میں اسے انصاف کی جیت اور تاریخی اہمیت کا حامل فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ یہ فیصلہ لاکھوں لوگوں کی شہریت کے تحفظ کا ضامن ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حق اور انصاف پر مبنی ہے ،لاکھوں لوگوں کی زندگی کو سکون ملاہے اور ہندوستانی عوام کا اعتماد عدلیہ کے تئیں مزید مضبوط ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ یہ بھی بتاتاہے کہ ہندوستان میں آئین اور دستور کی بالادستی باقی ہے اور عدلیہ انصاف کے اصولوںپر گامز ن ہے ۔
ان دونوں حضرات نے انصاف کی اس لڑائی میں شریک تمام حضرات، نیز اس کے لئے دعا و¿ں کا اہتمام کر نے والوں کا شکریہ ادا کیا۔
آج جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس نریمن پر مشتمل عدالت عظمی کی دو رکنی بنچ نے 28 فروری 2017 کوگوہاٹی ہائی کورٹ کے ذریعہ دئے گئے اس فیصلہ کو رد کر دیا جس کی وجہ سے آسام میں نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں اندراج کے لئے پنچایت سر ٹیفیکٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کی وجہ سے تقریبا 48 لاکھ لوگ جنہوں نے پنچایت سرٹیفیکٹ کو معاون دستاویز کے طور پر صرف اس بات کو ثابت کر نے کے لئے جمع کیا تھا کہ وہ فلاں کی بیٹی یا بیٹا ہے اور شادی یا کسی اور وجہ سے فلاں گاو¿ں سے فلاں گاو¿ں منتقل ہوکر رہائش پذیر ہوگئے۔معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی اور جمعیة علماءصوبہ آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر جمعیة علمائ صوبہ آسام نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں دو متاثرین منورہ بیوہ ،روپ جان بیگم کی جانب سے پٹیشن داخل کیا تھا جس پر سماعت 22 نومبر کو مکمل ہو گئی تھی اور جج صاحبان نے اپنا فیصلہ سناکر متاثرین کو راحت دینے کا کام کیا ہے۔
درا صل دونوں خواتین کو جب گوہائی کورٹ سے انصاف نہیں ملا تو جمیعة علماءہند (م ) کی آسام یونٹ نے ان کی مدد کرنے کافیصلہ کیا ،مولانا بدرالدین اجمل نے کہاکہ یہ صرف ان دوخواتین کا نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کا معاملہ ہے اور پھر یہ کیس مولانا بدر الدین اجمل کی قیادت میں جمعیة علماءہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں لڑنے کا فیصلہ کیا گیا،بعد میں دوسری تنظیم بھی اس مقدمہ میں فریق بن کر سامنے آئی ۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں آسام میں گزشتہ تین سالوں سے نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) کی از سر نو تیاری کا کام جاری ہے۔این آرسی کے کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا نے 12 اکتوبر 2017 کو اپنے ایک حلف نامہ میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پنچایت سرٹیفیکٹ کے رد ہونے سے متاثر ہو نے والے 48 لاکھ لوگوں میں سے تقریبا 17 لاکھ اصلی شہری (inhabitant original ) ہیں اور باقی کی شہریت کی تحقیق و تصدیق کا کام جاری ہے۔ اس اصلی اور غیر اصلی کی تقسیم کے پیچھے کی سازش کو سمجھتے ہوئے جمعیہ علما ئ ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی اور جمعیہ علماءصوبہ آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر اس کے تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر کے اس کی وضاحت اور اس تقسیم کی بنیاد اور تعریف کرنے کی مانگ کی گئی۔ سپریم کورٹ میں آسام سرکار اور مرکزی سرکار کے وکلاءاس کی جامع تعریف کرنے اور تشفی بخش جواب دینے میں ناکام رہی۔ اس پر سماعت 30 نومبر 2017 کو مکمل ہو گئی تھی،اور آج اس پر فیصلہ آیا جس سے لاکھوں لوگوں کو غیر ملکی قرار دینے کی سازش ناکام ہو گئی۔
جمعیة علماء ہند نے ا ن مقدمات کی پیروی کر نے کے لئے سینئر وکلاءکی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی تھی جن میں سینئر ایڈووکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی، سینئرا یڈووکیٹ راجو راما چندرن،سینئر اڈووکیٹ بی ایچ مار لاپلے،سینئر اڈووکیٹ اعجاز مقبول،سینئر ایڈووکیٹ شکیل احمد، سینئر ایڈووکیٹ نذرالحق مزار بھیا،ایڈوکیٹ عبدالصبور تپادار، ایڈووکیٹ قاسم تعلق دار، ایڈووکیٹ امن ودود وغیرہ شامل تھے۔فیصلہ سنائے جاتے وقت جمعیة علماءہند آسام کے سکریٹری ڈاکٹر حافظ رفیق الاسلام اپنے وکلاءکے ساتھ سپریم کورٹ میں موجود تھے ۔