وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا!

تحریر: کرن تھاپر
اردو ترجمہ: نایاب حسن
وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے محض انتخابی جیت حاصل کرنے کے لیے ملک کے اہم اور موقر ترین افراد کی حیثیتِ عرفی کو مجروح کرنے کی نہایت اوچھی حرکت کی ہے،گجرات میں وکاس اور ترقی کے دعووں سے شروع ہونے والی انتخابی مہم پاکستان تک جاپہنچی،معروف صحافی روش کمار نے اپنے ایک مضمون میں مودی سے پوچھا ہے کہ کیاوہ گری راج سنگھ ہوگئے ہیں؟گری راج سنگھ نے ہی پہلی بار عام انتخابات کے دوران پاکستان کوگھسیٹنے کی کوشش کی تھی،اِن دنوں وہ مودی کابینہ کے وزیر بھی ہیں،کرن تھاپرملک کے چند نمایاں ترین اور سنجیدہ و معقولیت پسندصحافیوں میں سے ایک ہیں،وہ خود منی شنکرایئر کے ذریعے منعقدہ میٹنگ کا حصہ تھے،جسے مودی جی نے”خفیہ میٹنگ“قراردیاہے،سو انھوں نے اس میٹنگ کی اصلیت اور مودی کی بکواس کے اطراف و مضمرات پر بڑی دلچسپ گفتگو کی ہے جسے روزنامہ انڈین ایکسپریس نے شائع کیا ہے ۔
نوجوان قلم کار اور دارالعلوم دیوبند کے جواں سال فاضل جناب نایا ب حسن قاسمی نے کرن تھاپر کے اس مضمون کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔ان کے شکریہ کے ساتھ ملت ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں ہم یہ مضمون پیش کررہے ہیں ۔(ادارہ)

عام طورپر سیاست داںاپنی عوامی گفتگو اور تقریروں کے دوران محتاط رہتے ہیں؛کیوںکہ انھیں پتا ہوتاہے کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کونسی بات خود ان کے خلاف جاسکتی ہے،اسی وجہ سے عموماً طولانی تقریروں کی صلاحیت کے باوجود یہ لوگ زیادہ لمبی تقریر نہیں کرتے،یہ مختصر گوئی ان کی کوئی ادبی یاخطابی خوبی نہیں ہوتی،بس اسے خودحفاظتی تدبیرکہا جاسکتا ہے۔اسی وجہ سے اگر کسی نیتا کے منہ سے کوئی ناگفتنی نکل جائے، خاص طورسے ایسے نیتاکے منہ سے،جو اتفاق سے ملک کا وزیر اعظم بھی ہو،تو یہ لوگوں کے لیے چونکانے والی بات ہوتی ہے؛کیوںکہ عام سیاست دانوں کے برخلاف ایک وزیر اعظم کے بارے میں تو یہ تصور ہوتا ہے کہ وہ بہت سمجھ کر بولتا ہے ،آپ ان سے ان کے کسی بھی قول وعمل کے بارے میں دریافت کرسکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے وزیر اعظم نے اتوار کے دن ۶دسمبر کو منی شنکرایئر کے گھر ہونے والی ایک عام سی ملاقات کو مشتبہ شکل میں پیش کرتے ہوئے اس کا سرا گجرات الیکشن سے ملادیا،میں خود بھی اس میٹنگ میں مدعو تھا،تقریباً گھنٹہ بھرپاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے ساتھ تبادلہ ¿ خیال کے بعدڈنر کا نظم تھا،البتہ میں میٹنگ کے اختتام تک موجود نہیں تھا،اس میٹنگ کے دوسرے مہمانوں میں ہندوستان کے سابق ہائی کمشنر برائے پاکستان،سابق خارجہ سکریٹریزاور وزیر خارجہ،ایک سابق نائب صدر،ایک سابق فوجی سربراہ اور چند صحافی حضرات شامل تھے۔اس اجتماع کا مقصد ہندوپاک کی موجودہ صورتِ حال بطورخاص کشمیر اور دہشت گردی کے پس منظر میں دونوں ملکوں کے خاص حالات پر گفتگو کرنا تھا،قصوری ہندوپاک کے مابین مثبت تعلقات کی بحالی اور دونوں ملکوں کے مشترکہ مسائل کے حل کی کوششوںکے سلسلے میں ہمارے لیے نہایت قابلِ اعتماد انسان رہے ہیں۔ایسی صاف شفاف اور بے عیب ملاقات کو مودی نے ایک”خفیہ میٹنگ“قراردیااور اپنی طرف سے نہایت حساس اوہام و شبہات کا بھی اظہارکیا ، انھوں نے کہاکہ”پاکستانی ہائی کمشنر،سابق پاکستانی وزیر خارجہ،ہندوستان کے سابق نائب صدراور سابق وزیر اعظم نے تین گھنٹے تک منی شنکر ایئرکے گھر میں میٹنگ کی اوراسی کے اگلے دن ایئر نے مودی کو نیچ کہا،یہ ایک سیریس اور حساس معاملہ ہے،ٹھیک گجرات الیکشن کے دوران اس طرح کی خفیہ میٹنگ کا کیا مقصدتھا؟“اس کے بعد انھوں نے اس میٹنگ کو دوطرح سے گجرات الیکشن سے جوڑنے کی کوشش کی،پہلی شکل تو قطعی مضحکہ خیز تھی،جبکہ دوسری حقیقت کے اعتبار سے بالکل غلط تھی،انھوں نے دعویٰ کیاکہ”اسی میٹنگ کے بعد گجرات کے عوام،پسماندہ طبقات،غریبوں اور مودی کی تحقیر کی گئی،آپ لوگوں کونہیں لگتاکہ اس طرح کا واقعہ شک پیدا کرتا ہے؟“یہ ان کانہایت واہیات دعویٰ تھا۔دوسرا دعویٰ انھوں سانند کی انتخابی ریلی میں تقریرکرتے ہوئے کیاکہ”یہ میٹنگ پاکستان کے سابق آرمی چیف ارشد رفیق کے اس بیان کے بعد رکھی گئی کہ گجرات کا وزیر اعلیٰ احمد پٹیل کو بنایا جانا چاہیے،آخر پاکستان کاایک سینئر ریٹائرڈ فوجی افسر گجرات الیکشن پر اپنا دماغ کیوں کھپارہاہے؟“حالاں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ارشد رفیق کوئی سابق پاکستانی آرمی چیف نہیں؛بلکہ محض ایک سابق ڈی جی ہیں ،ان کاوہ ایک غلط بیان تھا اور اس کا منی شنکر ایئر کے گھر ہونے والی ملاقات سے کوئی تعلق نہیں۔
ایئر کے گھر پر ہونے والی یہ ملاقات کوئی پہلی ملاقات نہیں تھی؛بلکہ اسی طرح کی ”ڈنرپارٹی“اپریل کے مہینے میں تاج محل ہوٹل کے چیمبرمیں ہوچکی ہے،اسی طرح ۵۱۰۲ءمیں جب قصوری اپنی ایک کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں یہاں آئے ہوتھے،تووہ اپنی اہلیہ سمیت منی شنکرایئر کی بیٹی کی شادی میں بطورمہمان شریک ہوئے تھے اور وہ اس وقت کابینی وزیر تھے۔اگر مودی کو پہلے کی میٹنگوں کا علم ہے،توپھر وہ ان کے بارے میںکیا کہیں گے؟میرے خیال سے حقیقت میں مودی (جیسا کہ وہ خود جانتے ہوںگے)اسی رات ان کے سخت اتہامات کے چند گھنٹے بعد ہی پاکستانی ہائی کمشنر کے ذریعے تاج محل ہوٹل کے House of Ming restaurant میں منعقدہ عشائیہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہوںگے،جس میں انہی مہمانوں کو قصوری سے ملاقات کے لیے مدعو کیاگیا تھا،شاید اسی واقعاتی یکسانیت کی وجہ سے کرائم فکشن جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔
سچی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے الزامات و شبہات نہ صرف غلط اور فرضی؛بلکہ بیہودہ بھی ہیں،منی شنکر ایئر اور ان کے مہمانوں کی تحقیرکے چکر میں انھوں نے خود اپنی مٹی پلید کی ہے،ان کا یہ بیان نہ صرف ان کے وقار کے منافی ہے؛بلکہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہونے کی وجہ سے غیر اخلاقی بھی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے ایسا کیوں کیا؟نریندرمودی اپنے مخالفین پر الزام لگانے یا ان پر طنز کسنے کے معاملے میں بہت محتاط سمجھے جاتے ہیں،اس طرح کا بچکانہ اور بے بنیادالزام دھرناان کا طریقہ ¿ کارنہیں رہاہے،توکیاان کے اس بیان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ گجرات انتخابات کے آنے والے نتائج سے خوف زدہ ہیں اوران کے من میں بزدلانہ خیالات پیدا ہونے لگے ہیں؟کیوںکہ گجرات کے اِس الیکشن کی تشہیری مہم کے دوران انھوں نے پہلی بار اس قسم کی قنوطیت اور اندرونی بے چینی پر مبنی بیان بازی نہیں کی ہے،شروع ہی کی ایک ریلی میں انھوں نے گاندھی خاندان پر یہ الزام لگایا تھا کہ مرارجی ڈیسائی کے مشروب کے بارے میں پہلی بار گاندھی خاندان نے ہی دنیا والوں کو بتایا تھا،اس کمینٹ سے ان کے اصل مقصد کاتب چند لوگوں کوہی پتا لگ پایاتھا،مگراب ان کے اس عجیب و غریب بیان سے لاکھوں مزید افراد کوسمجھ آگیاہے کہ مودی کیا کہنا چاہ رہے ہیں،مرارجی ڈیسائی کے مشروب کے بارے میں بھی اصل سچائی یہ ہے کہ انھوں نے خود ہی مارک ٹلی(Mark Tully)کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیاتھاکہ انھوں نے اپناپیشاب پیاہے؛بلکہ اس موضوع پر انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔شکر ہے کہ (آج) شام سے گجرات میںانتخابی کمپیننگ کا سلسلہ ختم ہورہاہے،ہندوستان اپنے وزیر اعظم کے ذریعے خود اپنے ہی وقارکو مجروح کرنے کے شرمناک عمل کااس سے زیادہ مشاہدہ نہیں کرسکتا،الایہ کہ انھوں نے خود اپنی جگ ہنسائی کا تہیہ کررکھاہو۔
(اردو ترجمہ نوجوان قلم کار نایاب حسن قاسمی نے کیا ہے )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں