’’ نارتھ تھنڈر‘‘ ایک اہم پیش رفت
پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
سعودی عرب میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد موجودہ فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیزخادم الحرمین الشرفین اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے اور امت مسلمہ کو متحد کرنے کیلئے مسلسل کوشاں ہیں ،ہر ممکن وہ تمام مسلم ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور اپنے مسائل کا حل خود نکالنے کی جدوجہد کررہے ہیں ،وہ چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک پر کوئی اور مداخلت نہ کرے ،ہماری زمین پر کوئی اور حکمرانی نہ کرے ، اس سلسلے کی ایک اہم کڑی گذشتہ سال دسمبر میں 34 ممالک کی فوج پر مشتمل اسلامی فوجی اتحاد ہے جسے قائم کرکے سعودی فرماں رواں نے یہ پیغام دیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہم خود جنگ لڑیں گے ،مسلم ممالک اپنا دفاع خود کریں گے دوسروں کو یہاں دخل اندازی کرنے کا حق نہیں ہے ،اس سلسلے کی پہلی کانفرنس مارچ کے اخیر تک ہونے کی خبر ہے ۔ 34 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے بعد گذشتہ دنوں 21 مسلم ممالک کی ہونے والی مشترکہ فوجی مشقیں سب سے اہم مانی جارہی ہے ،یہ مشق سعودی عرب کے شہر حفر الباطن میں ہوئی ہے جسے نارتھ تھنڈر (شمال کی گرج) کا عنوان دیا گیا ،اسلامی ممالک کی اس مشترکہ فوجی مشقوں کو خطے کی سب سے بڑی اور اہم فوجی مشق قرار دیا جارہاہے۔ بارہ روز تک جاری رہنے والی ان فوجی مشقوں میں 21اسلامی ممالک کے 3لاکھ 50ہزار سے زائد فوجیوں نے 20ہزار ٹینکوں، 4500لڑاکا اور بمبار طیاروں، 460ہیلی کاپٹروں، طیارہ شکن نظام اور جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ حصہ لیا۔سعودی سرکاری نیوز ایجنسی( SPA)کے مطابق مندرجہ ذیل ممالک نے فوجی مشق میں شرکت کی۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، سینیگال، سوڈان، کویت، مالدیپ، مراکش، پاکستان، چاڈ، تیونس، جیبوتی، کوموروس،سلطنت عمان، قطر، ملائیشیا، مصر، موریتانیا اور ماریشس۔ اختتامی تقریب میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ،مصری صدر عبد الفتاح السیسی سوڈان کے عمر البشیر اور یمن کے عبدالہادی بھی تھے،تقریب میں تمام مہمانوں کو ایک اسٹیج پر بٹھایا گیا جہاں اپاچی ہیلی کاپٹروں نے راکٹ فائر کرتے ہوئے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ ٹینکوں نے اپنے زمینی اہداف کو نشانہ بنایا جبکہ ہیلی کاپٹروں سے رسی کی مدد سے فوجیوں کی چھاپہ مار کارروائیوں کا مظاہرہ بھی کیا گیا،سعودی عرب کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالرحمان البنیان نے اس موقع پر تبصرہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہاکہ، اس خطے میں یہ عرب اور اسلامی افواج کی اب تک کی سب سے بڑی جنگی مشقیں ہیں۔
گذشتہ پندرہ سالوں سے دہشت گردی کا مسئلہ دنیا بھر میں سرفہرست ہے اور اس کا ذمہ دار مسلم ممالک اور عالم اسلام کو ٹھہرایا جاتاہے خاص بات یہ ہے کہ اس لعنت کے شکار بھی صرف مسلم ممالک ہیں ،لاکھوں بے گناہ اس کے نام پر موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں ،ہزاروں دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ،کبھی وہ ترکی کا رخ کرتے ہیں ،کبھی یورپ کی سرحدوں کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی زندگی کی آس میں سمندر کی نذر ہوکر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ،افغانستان ،لیبیا،شام ،یمن جیسے مسلم ممالک کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان اس دہشت گردی کے نام پر مختلف انواع کی اذیتوں سے دوچار ہیں،شام اور عراق میں داعش، پاکستان اور افغانستان میں طالبان، ترکی میں کرد، یمن اور لیبیا میں القاعدہ، نائیجریا میں بوکوحرام جبکہ مصر اور مالی میں مختلف دہشت گرد تنظیمیں اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ سب اسلام کے نام پر مسلمانوں اور بے گناہوں کا خون بہارہے ہیں اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ کہ ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے پس پشت کوئی اور طاقت مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے یہ سب کروارہی ہے،ایسے میں مسلم ممالک کا فوجی اتحاد اہم مانا جارہاہے ،مشترکہ اسلامی فوج کے قیام کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے شکار ان اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا ،نیز اپنے دفاع کیلئے از خود تیار رہنا وقت کا تقاضابھی ہے ،اس باب میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک سے بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے نیٹو کی شکل میں فوجی اتحاد قائم کررکھاہے ، نیٹو انتہائی منظم اور طاقتور فوجی اتحاد ہے جس میں شامل رکن ممالک کی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے اور کسی بھی رکن ملک پر حملے کو نیٹو پر حملہ تصور کرکے اس ملک کا دفاع کیا جاتا ہے۔
دنیا میں اس وقت 57 مسلم ممالک ہیں جن کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہے ، ان ممالک کے پاس ایک کروڑ سے زائد تربیت یافتہ افواج ہے،مسلم ممالک ہر سال اپنے دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں لیکن اگر وہ مشترکہ فوج تشکیل دیں اور اپنے دفاعی بجٹ کا صرف 10 فیصد حصہ مشترکہ فوج پر خرچ کریں تو اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط فوج بن کر ابھرے گی ،نیٹو افواج سے زیاہ منظم اور طاقتور ہوگی ، یہ فوجی اسلامی جذبے سے بھی سرشار ہوگی،ایمانی طاقت اور روحانی قوت بھی ان کے دلوں میں موجزن ہوگی، وہ جدید تکنیک ،نئے نظام اور قابل ذکر مہارت سے بھی لیس ہوں گے۔
اسلامی فوجی اتحاد کے بارے میں یہ منفی تاثربھی پایا جارہاہے کہ یہ اتحاد کسی اسلامی ملک کے خلاف ہے،اس کا مقصد شام پر یلغارکرنا،ایران کو کمزور کرنا اور یمن پر مکمل کنٹرول حاصل کرناہے ،اس دعوی کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کی جارہی کہ اس اتحاد میں عراق، ایران اور شام کو شامل نہیں کیا گیاہے مگر سعودی عرب نے اس کی تردید کرتے ہوئے اپنا واضح موقف بتادیا ہے کہ یہ اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے، مشترکہ اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک بڑی آبادی رکھنے کے ساتھ ساتھ بڑی فوج بھی رکھتے ہیں جبکہ سعودی عرب نے مشترکہ فوجی اتحاد میں 10 دیگر اسلامی ممالک کی شمولیت کا بھی عندیہ دیا ہے جن میں آبادی اور فوج کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک انڈونیشیا بھی شامل ہے۔
حالیہ دنوں میں مسلم ممالک منقسم ہیں، یہ آپس میں الجھے ہوئے ہیں ،اپنے دفاع اور تحفظ کی بھیک مانگنے کیلئے امریکہ کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں ، روس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ،ناٹو افواج سے مدد مانگتے ہیں ایسے میں 34 مسلم ممالک کا مشترکہ فوجی اتحاد اہم پیش رفت ہے اور اب 21 ممالک کی فوجی مشق سے اس سلسلہ کو مزید قوت ملے گی ، مسلم دینا کو اس اتحاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے مثبت نظریہ سے دیکھنا چاہئے ، اعتراض واشکال کے بغیر اس کی حمایت کرتے ہوئے عالم اسلام کو متحد رکھنے اور اپنا دفاع از خود حل کرنے کی مکمل کوشش ہونی چاہئیے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com