جناب عالی! آپ نے دل توڑ دیا

قاسم سید

طلاق بل پر سرکار کی نیت سب کو معلوم ہے اسے ہر حال میں پاس ہونا تھا جب جنیو دھاری برہمن کی پارٹی کانگریس بھی اس کی حمایت میں کھڑی تھی مگر دو مولانا حضرات سے ملت کو ہمیشہ امیدیں رہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنے رویہ سے مایوس ہی کیا۔ ایسے وقت میں بھی ملت کے دوش بدوش نظر نہ آسکے جب گذشتہ ساڑھے تین سال میں ان کی غم گساری کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ مولانا اسرارالحق قاسمی کا یہ دوسرا ٹرم ہے افسوس کہ وہ ہر معاملہ میں اپنی پارٹی کے پابند دکھائی دئیے سوالات پوچھنے میں سب سے پیچھے نظر آئےاور جوبات انہیں پارلیمنٹ میں رکھنی چاہئے تھی اس کا تذکرہ‘مطالبہ پریس ریلیزوں اور ہفتہ واری کالم میں کرتے رہے ہیں۔ یعنی جس پلیٹ فارم پر مسائل رکھنے چاہئیں وہاں پارٹی کے ابروچشم کے پابند رہے کیا یہ مبنی برانصاف ہے۔ اگر وہ لوک سبھا میں موجود تھے تو ظاہر ہے پارٹی کی طرف سے ہری جھنڈی ملنے اور اسپیکر کو نام دینے کے بعد ہی بول سکتے تھے وہ اسدالدین اویسی کی طرح واک آئوٹ کرکے اس غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرسکتے تھے جس کے لئے مسلمانوں کواپنی تقاریر دلپذیر میں ابھار تے رہتے ہیں گرچہ باقی مسلم ممبران پارلیمنٹ نے بھی بل کو سپورٹ کیا مگر ان سے شکایت نہیں کیونکہ امید بھی نہیں تھی جبکہ دارالعلوم دیوبند کے فرزند ارجمند سے سوفیصد توقع تھی کہ اب تو خاموش لب حرکت کریں گے۔ مولاناقاسمی کی مجبوری ولاچاری سمجھی جاسکتی ہے وہ پارٹی وہپ کی زنجیرں سے بندھے ہیں یہ زنجیر ہر زنجیر سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے خواہ وہ ملی مفاد کی کیوں نہ ہو یہ جذباتی بات نہیں حقیقت ہے مگر کبھی سینے میں دھڑکنے والے دل اور وہاں موجود ضمیرسے بھی صلاح ومشورہ کر لیناچاہئے۔ انہوں نے صرف کشن گنج کے اپنے عزیز ووٹروں کا دل ہی نہیں دکھایا ان کروڑوں لوگوں کا دل توڑدیا جو ان سے محبت کرتے ہی کہ جناب کو کانگریس ملت سے زیادہ عزیز ہوگئی لگتی ہے۔
یہی سوال مولانابدرالدین اجمل سے کیاجارہا ہے کہ کیا شریعت کا تحفظ اس طرح ہوگا۔ بلند بانگ باتیں اور دعوے پارٹی تحفظات کے سامنے ہار گئے۔ ان کےسامنے تو مولانا اسرارالحق قاسمی والی مجبوری بھی نہیں وہ اپنی پارٹی کے مالک اور خود مختارہیں ان کے پائوں میں کونسی زنجیر تھی۔ وہ کیوں غائب رہے کیا طلاق بل سے زیادہ کوئی اہم چیلنج درپیش تھا۔ ان کے پاس تو تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ سے زیادہ وسائل ہیں ۔ یقینا آسام کےاین آرسی کا مسئلہ بہت سنگین ہے مگر وہ بھی ریاستی انتخابات میں خود کو کنگ میکر بناکر پیش کرنے کی حکمت عملی کانتیجہ ہے کہ بی جے پی برسراقتدار آگئی مسلم ووٹ بکھر کر رہ گیا۔ دارالعلوم کو ان پر بھی نازہے ان کا نورانی چہرہ سب کو لبھاتا ہے۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ علمائے کرام کی حمیت غیرت ایمانی اور جرأت مندی سب کے لئے مشعل راہ ہوتی تھی کیا وہ سیاسی بھول بھلیوں اور مصلحتوں کے دار پر چڑھ گئی اللہ کرے ایسا نہ ہو۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں