اسجد عقابی
تبصرہ وغیرہ کرنے کا ہنر تو ہم میں نہیں ہے، البتہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے جذبات کی عکاسی چند سطور کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، آج ہم بھی کچھ ایسا ہی محسوس کررہے ہیں، ہمیں اس بات کا مکمل احساس ہے کہ ہمارے ملکی حالات نا گفتہ بہ ہیں، لیکن اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا تعلق اس جنریشن سے ہے،جن میں بہت کچھ کرنے کا جذبہ موجزن ہے، گزشتہ پانچ سے دس سال پہلے کا جائزہ لیا جائے تو تمام مسلمانوں میں یہ بات عام تھی کہ ہمارا اپنا کوئی نیوز چینل ہونا چاہئے،ہمارا اپنا اخبار ہونا چاہئے، اردو کے اخبارات ضرور موجود تھے لیکن وہ ہماری ضرورت کی تکمیل کیلئے ناکافی تھے، عام آدمی کیلئے اپنی بات اور رائے کے اظہار کیلئے کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا، مسلم قوم اپنے خلاف ہو رہے پروپیگنڈہ کو پڑھ سکتی تھی سن سکتی تھی لیکن جواب دینے کیلئے انہیں وسائل مہیا نہیں تھے.
اللہ کا لاکھ لاکھ کرم و احسان ہے کہ اب اس نے ایسے افراد پیدا کردئیے ہیں جو اس کمی کو پُر کرتے نظر آریے ہیں.
ہماری سب سے پہلی ملاقات مولانا غفران ساجد صاحب چیف ایڈیٹر بصیرت آنلائن سے مرکز المعارف ممبئی 2014 میں ہوئی، جہاں ہمیں پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ شاید اب ہم اپنی بات بھی دوسروں تک پہونچا سکیں گے،
بعد ازاں مولانا شمس تبریز قاسمی نے ملت ٹائمز کے نام سے نیوز پورٹل قائم کیا، اسی درمیان مولانا شاہ نواز بدر نے تازہ ترین میڈیا گروپ کے نام سے ایک تحریک شروع کی ہے،ظاہر سی بات ہے کہ ابتدا میں پریشانی کا سامنا رہا ہے، پھر یہ میدان مولوی حضرات کیلئے بھی ایک نیا تجربہ تھا، عام افراد کیلئے اسے قبول کرنا مشکل تھا، کئی طرح کی پریشانیاں سامنے آتی رہی، بعض مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ کسی خبر کو شائع کرنے کی بنا پر گالیاں بھی حصہ میں آئی ہے، کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن (من جد وجد) پھل اسی کے حصہ میں آتا ہے جس میں عزم مصمم ہو، تازہ ترین میڈیا گروپ نے ترقی کرتے ہوئے اب الحمد للہ ریڈیو سروس بھی شروع کردیا ہے، جسے عام و خاص میں مقبولیت حاصل ہورہی ہے، اس جانب سے اہم پیش رفت ملت ٹائمز نے کی ہے، جس نے اپنے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے، کچھ دنوں سے ملک کے بااثر افراد کے ساتھ مستقل انٹرویو باضابطہ اب یوٹیوب پر بھی دستیاب ہونے لگے ہیں.
ملت ٹائمز کی سعی پیہم یقینا قابل ستائش ہے، لیکن میری نظر میں اب تک کی سب سے بڑی کامیابی طلاق ثلاثہ کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والی عشرت جہاں کی حقیقی تصویر کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہے، جس طرح سے ملت ٹائمز نے اس کا پردہ فاش کیا ہے اور حقیقی صورت حال کو اجاگر کیا ہے،ہمیں امید ہے آئندہ بھی ان شاء اللہ ملک و ملت کے سوداگروں کو اسی طرح عیاں کیا جائے گا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی کام مالی تعاون کے بغیر زیادہ دنوں تک جاری رہے مشکل ضرور ہے، وہ افراد جو ایسے امور انجام دے رہے ہیں ان کیلئے مالی فراہمی بہت ضروری ہے،بندہ چونکہ ابتداء سے ہی ان کے گروپ کا حصہ ہے، اس لئے اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ باضابطہ انہیں کہیں سے مالی تعاون حاصل نہیں ہے، ملت ٹائمز کے ایڈیٹر مولانا شمس تبریز کا اور کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے، ان کی ساری توجہ اسی جانب مبذول ہے، اس لئے قوم کے مخیر حضرات جنہیں ہمیشہ اس بات کا گلہ رہا ہے کہ اپنا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے، اب جب کہ ان کاموں کا بیڑا اٹھا لیا گیا ہے، اور اب تک کا نتیجہ بھی معنی خیز رہا ہے، اور دن بدن ترقی کی جانب رواں دواں ہے تو ہم سب کیلئے ضروری ہے کہ اس جانب بھی خاطر خواہ توجہ دیں.
اللہ تمام احباب کو قبولیت سے نوازے اور مزید حوصلہ عطاء فرمائے.
مراسلہ نگار دارالعلوم وقف دیوبند میں شعبہ انگریزی زبان و ادب کے استاذ ہیں۔