عشرت جہاں کا سچ ، مظلوم شوہروں کی داستان،متأثرہ خواتین کی کہانی اور بورڈ کا طرزِ عمل

خبردرخبر ۔(540)
شمس تبریز قاسمی
تین طلاق کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والی عشرت جہاں کا سچ سامنے آنے کے بعد عوام میں ایک طر ح سے بیداری آئی ہے ، ملت ٹائمز کی اس ایکسکلوزیو رپوٹ کو یوٹیوب پر لاکھوں کی تعداد میں دیکھاگیا ہے، دہلی سے شائع ہونے والے معروف اخبار روزنامہ خبریں اور ممبئی اردو نیوز نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کرکے عشرت جہاں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے ،متعدد ویب سائٹس اور یوٹیوب چینل نے بھی اس جھوٹ کو بے نقاب کرنے میں تعاون کیا ہے ،کئی ایسے یوٹیوب چینل میری نگاہوں سے گزرے ہیں جس پراس خبر کو ملت ٹائمز سے بھی زیادہ دیکھا گیا ہے ۔ ردعمل کا اظہار کرنے والوں نے کمنٹ میں تمام حقائق کو جاننے کے بعد عشرت جہاں کو جھوٹا تسلیم کرتے ہوئے بہت برا بھلا بھی لکھاہے، کچھ لوگوں نے بہت غلط زبان بھی استعمال کی ہے جسے درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے تاہم اتنا ضرور ہواہے کہ مین اسٹریم میڈیا کی دیگر غلط خبروں کو نشرکرنے کی طر ح اس معاملے میں بھی شدید تنقید ہوئی ہے اور ہونی چاہیئے ، سچ سامنے آنے کے بعد کئی انگریزی اخبار کے صحافیوں سے میں نے کہاکہ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر خبردر خبر میں عشرت جہاں ، مرتضی انصاری ،بیٹی شائستہ خاتون اور گاﺅں کے متعدد لوگوں کا انٹرویو پیش کیا گیاہے ،ملت ٹائمز کی ویب سائٹ پر بھی تفصیلی اسٹوری موجود ہے ،آپ ان سب کو سنیئے ،پڑھیئے ، عشرت جہاں اور مرتضی انصاری کا نمبر ہے اس پر بات کیجئے ،آپ ایک کارپوریٹ میڈیا ہاﺅس سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہاں جاکر بھی معاملے کی تحقیق کرسکتے ہیں ، ملت ٹائمز کے وسائل اور ذرائع محدود ہیں اس لئے بہار اور کولکاتا تک جاناہمارے مشکل ہے ، تاہم ان لوگوں نے توجہ نہیں دی یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں ایسی اسٹوری شائع کرنے نہیں دی گئی ہوگی ،اردو کے بھی بڑے اخبارات نے اس پر توجہ نہیں دی ۔

عشرت جہاں کو نہیں دی اس کے شوہر نے کوئی طلاق ،چار بچوں کوگھر پر چھوڑ کر خود ہوگئی تھی فرار :ملت ٹائمز کی تحقیقاتی رپوٹ

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا رویہ بھی اس معاملہ میں فعال نظر نہیں آیا ،بورڈ اور دیگر اداروں کے تحت اس موضوع پر ہونے والے پروگرام میں اس رپوٹ کا حوالہ ضرور دیاگیا کہ عشرت جہاں کو اس کے شوہر نے کوئی طلاق نہیں دی ہے ،افضل نام کے ایک شخص کے ساتھ اس کامعاشقہ چل رہا تھا اور جھوٹ کی بنیاد پر یہ مقدمہ لڑاگیا لیکن بورڈ نے اس معاملہ میں از خود تحقیق کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے ۔ یہ معاملہ اب تک میری سمجھ میں نہیں آسکاہے کہ عشرت جہاں نے تین طلاق کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی، اپنے شوہر مرتضی انصاری کے بارے میں یہ الزام عائد کیاتھاکہ دبئی سے فن پر اس نے تین طلاق دی ہے لیکن اس کے شوہر کو معاملہ کی تحقیق کیلئے بلایا نہیں گیا، سپریم کورٹ نے اس سے کبھی پوچھا نہیں، اس کے نام کوئی نوٹس بھی جاری نہیں کی گئی لیکن فیصلہ کردیا گیا ،میں نے عشرت جہاں کی وکیل نازیہ الہی خان سے بھی ایک انٹرویو کے دوران بار بار یہ پوچھنے کی کوشش کی مدعی علیہ سے پوچھے بغیر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیسے کردیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔میر ے علم کا مطابق مقدمہ کی پیروی کے دوران بورڈ نے بھی طلاق ثلاثہ کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والی پانچوں خواتین اور ان کے شوہر سے رابطہ نے نہیں کیا ، بورڈ  کے وکیل نے براہ راست ان کے شوہروں معلوم کرکے حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی ،ان کے شوہر وں نے طلاق دی ہے یا نہیں؟ اگر دی ہے تو کس بنیاد پر دی ہے ؟ کس طرح دی ہے ؟ یہ سب تحقیق نہیں کی گئی ۔
عشرت جہاں کی اسٹوری منظر عام پر آنے کے بعد ملک کے مختلف حصے سے میرے پاس کچھ مظلوم شوہروں کے فون آئے ہیں،اکثر کی داستان یہی ہے کہ میں بیرون ملک ملازمت کررہا تھا ،بچوں کی تعلیم وتربیت کی خاطر شہر میں ایک مکان لیکر میں نے اپنی بیوی کو وہاں رکھ دیا لیکن انجام اچھا نہیں ہوا ،میرے غائبانہ میں بیوی کے تعلقات کسی اجنبی کے ساتھ ہوگئے، میری مداخلت اور انکوائری پر بیوی نے مقامی پولس اسٹیشن میں میرے ہی خلاف تشدد کا کیس درج کردیا، گھر پر قبضہ بھی کر رکھاہے ، طلاق چاہتی ہے اور ساتھ میں ایک موٹی رقم کا مطالبہ بھی کررہی ہے ۔مدھیہ پردیش کے ایک معروف شہر سے ایک صاحب نے فون کرکے بتایاکہ میں سعودی عرب میں ملازمت کررہا تھا ،ایک لاکھ روپے سے زائد میری تنخواہ تھی ،میں نے اپنی بیوی کے ساتھ دو حج کئے ہیں، 2014 میں میری کڈنی فیل ہوگئی جس کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر بھاگی ہوئے اور طلاق لینا چاہتی ہے ، گھریلو تشدد سمیت کئی مقدمہ مجھ پر کر رکھا ہے ،اس کے والد قاضی شہر ہیں اور بیس لاکھ روپے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ میرے پاس اب ایک پھوٹی کوری بھی نہیں ہے، این جی اوز کے تعاون میں اپنا علاج کرا رہاہوں ۔(نام اور مقام صاحب معاملہ نے عوامی طور پر بتانے کی اجازت نہیں دی ہے اس لئے اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے)

پانچ سے زائد ایسی خواتین نے بھی فون کرکے اپنی المناک روداد سنائی ہے،کسی کا کہناہے کہ میرے شوہر نے بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے مجھے تین طلاق دیکر گھر سے نکال دیاہے ،کسی کا کہنا ہے شادی کے بعد سسرال میں مجھ پر زیادتی کی گئی ،جب اپنے شوہر نے میں نے یہ سارا ماجرا سنایا تو یہ کہتے ہوئے طلاق دے دیاکہ تمہیں ہمت کیسے ہوئی میری ماں کے خلاف زبان کھولنے کی ، کسی کی کہانی ہے کہ ان کے شوہر ان پر بے پناہ ظلم و زیادتی کرتے ہیں ، دوسری شادی بھی کر رکھی ہے ،ان کے حقوق سے کوئی مطلب نہیں ہے ،ان عورتوں نے یہ بھی کہاکہ جب سے طلاق کا معاملہ ملک میں موضوع بث بنا ہے، میڈیا میں مسلسل اس موضوع پر ہنگامہ شروع ہوا ہے میرے دل میں بارہا خیال آیا کہ میڈیا کا سہارا لیں ، ٹی وی چینلوں کو اپنی روداد سنائیں لیکن پھر میرے قدم یہ سوچ کر رک گئے کہ اس سے ہماری شریعت کا مذاق اڑے گا ، انصاف ملنے کے بجائے مزید بدنامی ہاتھ لگے گی، رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ، تین طلاق کی شکار بعض خواتین کو ان کے گھر والوں نے اس طر ح کا قدم اٹھانے سے روک لیا، فون پر بات کرتے ہوئے ایسی کئی خواتین کی آنکھوں سے آنسور رواں تھے اور کہہ رہی تھیں کہ مجھے کیسے انصاف ملے گا ؟، کہاں سے انصا ف ملے گا؟ ،محلہ کے امام اور مفتی کہ رہے ہیں کہ تمہاری طلاق ہوگئی ہے ،واپسی کیلئے حلالہ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے ،اس شوہر کے پاس دوبارہ جایا بھی نہیں جاسکتاہے ، دوسری شادی پر بھی اب اعتبار نہیں کہ کب دوسرا شوہر منہ اٹھائے اور طلاق ۔طلاق ۔طلاق کہکر زندگی سے نکال دے ۔ان کا سوال تھا کہ ہمیں کیوں اسلامی شریعت کے مطابق انصاف نہیں مل رہاہے؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہمارے مسائل پر کیوں توجہ نہیں ہے ؟خواتین کی زندگی برباد کرنے والے ایسے مردوں کے تئیں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کیوں اب تک کوئی علمی قدم نہیں اٹھایا ہے ؟ طلاق کے بعد کیوں سماج میں ہمیں ہیچ نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ؟۔
یہ روداد چندان خواتین کی ہے جنہوں نے ملت ٹائمز کی رپوٹ منظر عام پر آنے کے بعد براہ راست فون پر بات چیت کی دوران بتائی ہے ،انہوں نے یہ بھی گزارش کی کہ براہ کرم میرا فون ریکاڈ مت کیجئے گا ،ہمارے حوالے سے کوئی بھی خبر نشر نہیں کیجئے گا ہم صرف انصاف چاہتے ہیں، اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں۔

اس کالم سے میرا مقصد بورڈ پر کوئی تنقید نہیں بلکہ ایک سچائی کو سامنے لاناہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سڑک سے لیکر سنسد تک سرگرم ہے ،طلاق ثلاثہ بل کو موجودہ شکل میں پاس ہونے سے روکنے کیلئے بورڈ کی قیادت مسلسل حرکت میں ہے ،سوشل میڈیا ڈیسک کی بھی شروعات ہوگئی ہے ،بڑے بڑے احتجاج، مظاہرے اور جلسے کئے جارہے ہیں لیکن کیا بورڈ کی قیادت ،اراکین اور نمائندوں نے متأثرین سے ملاقات کرنے کی کوشش کی ہے ؟۔کولکاتا میں بورڈ کے کئی نمائندے رہتے ہیں ، کسی نے بھی وہاں عشرت جہاں اور مرتضی انصاری کے بھائی مصطفے انصاری سے ملاقات نہیں کی ہے ، پٹنہ میں بورڈ کے متعدد نمائندے موجود ہیں لیکن اورنگ آباد جاکر اس کوشوہر اور گاﺅں والوں سے رابطہ نہیں کیا گیا، عشرت جہاں مرتضی انصار ی کے مکان پر زبردستی قبضہ کرکے رہتی ہے ،اس کے بچے اور گاﺅں کے سبھی یکطرفہ طور پر مرتضی انصاری کو بے قصور قراردے رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں بورڈ اور دیگر اداروں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیئے۔ مظلوم شوہر وں کو پروگرام میں طلب کرکے ان کی داستان دنیا کو سنائیں، تین طلاق کی متاثرہ خواتین کیلئے بھی کوئی مثبت اور حوصلہ افزا ءا قدم اٹھائیں جس سے انہیں شریعت کے مطابق مکمل انصاف ملنے کا یقین ہو اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ پر اعتبار برقرار رہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com


ملت ٹائمز ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے، اسے مضبوط میڈیا ہاوس بنانے اور ہر طرح کے دباو سے آزاد رکھنے کیلئے مالی امداد کیجئے