فرعونی نظام کو نئے عنوان کے ساتھ عوام پر چسپاں کرنے کی کوشش

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، عبرتناک واقعات نئے انداز میں پیش آتے ہیں ، صدیوں کی داستان صدیوں بعد منظر عام پر وجود میں آتی ہے، انسانیت سسکنا شروع کردیتی ہے، غریبوں اور امیروں کے درمیان خط امیتاز قائم ہوجاتا ہے، علاقائی اور نسلی عصبیت کو وجہ فخر بنادیا جاتاہے اور تاریخ کے صفحات میں درج حقائق سے سبق لینے کے بجائے دنیائے انسانیت ایسے ظالمانہ نظام کا دوبارہ شکار ہوجاتی ہے۔
تاریخ انسانی میں فرعونی نظام سب سے بدتر، شرمناک اور انسانیت سوز کہلاتا ہے، وہ ایسا نظام تھاجس میں غریبوں کیلئے کوئی مقام نہیں تھا، حکومت اور اقتدار میں کسی کی شراکت نہیں تھی، دولت پر چند افراد کا قبضہ تھا، شرافت اور عزت پر کاپی رائٹ تھی، چند مخصوص افراد کے سوا کسی اور انسان کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ شرافت اور عزت دار کہلا سکے یا اس طرح کی کسی بھی خصوصیت سے وہ قریب ہوسکے۔ چند افراد پوری دنیائے انسانیت کو غلام بنائے ہوئے تھے ، اس دور کے انسانوں اور جانورں میں کوئی فرق نہیں تھا، اربا ب اقتدار اور عوام کے درمیان کوئی تعلق نہیں تھا ، حکمراں طبقہ کا اپنے بارے میں تصور تھاکہ دنیا کی تمام نعمتیں صرف اسی کی آسائش کیلئے ہے ، کائنات اللہ تعالی نے صر ف اسی کیلئے بنائی ہے ، آسمان سے لیکر زمین تک کی تمام چیزیں صرف انہیں کے قبضۂ قدرت میں ہے دوسری طرف اپنے ماسوا کے بارے میں ان کا نظریہ تھاکہ یہ سب ان کی غلامی اور خدمت کرنے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں، عزت اور شرافت کی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ، انہیں ان کے قریب بیٹھنے ، دولت حاصل کرنے ، کمانے اور حصول اقتدار کی کوشش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اس فرعونی نظام کا مقابلہ کیا اور بتایا کہ انسانیت ، شرافت ، دولت ، اقتدار اور حکومت کسی کی جاگیر نہیں ہے ،یہ چیزیں صرف چند انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے ، پوری انسانیت لائق احترام ہے ،تمام بنی آدم کو عزت واحترام سے جینے کا حق ہے ، حضرت موسی علیہ السلام کا یہ نظریہ فرعون کو برداشت نہیں ہوسکا، اقتدار، دولت اور عقل کو خود تک محدود رکھنے والے فرعون ، ہامان اور قارون نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو روئے زمین سے ختم کرنے منصوبہ بندی کی ، ان کے خلاف جنگ چھیڑتے ہوئے ایک عظیم فوج تیار کی اور پوری تیاری کے ساتھ حملہ کیا لیکن فرعون خود دنیا سے ختم ہوگیا ۔
ہر دور کے حکمرانوں نے فرعون کی طرح جابرانہ طرز اختیار کیا ، اقتدار تک اپنے علاوہ کسی کو بھٹکنے نہیں دیا کسی پر ذرہ برابر بھی شبہ ہوا اس کا خاتمہ کردیا، اپوزیشن اور مخالفت کو برداشت نہیں کیا ، اسلام کی آمد کے بعد اس فرعونی نظام کا وجود سرے سے ختم ہوگیا ، اسلام اور قرآن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک انسان کو دوسرے انسان پر حکومت اور اقتدار کا کوئی حق نہیں ہے ، ایک شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو اپنی غلامی پر مجبور کرسکے، دولت و اقتدار پرصرف اپنی بالادستی سمجھے ، حکمت ودانائی کو صرف خود تک محدود رکھے بلکہ انسانیت کے ناطے غریب امیر ، عربی عجمی سبھی برابر ہیں ، سبھی انسان کو حکومت کرنے ، دولت جمع کرنے ،حکمت و دانائی کی بات کرنے ، تعلیم حاصل اور انتظام و انصرام سنبھالنے کا حق حاصل ہے ۔
اسلام کے اس آفاقی نظریہ سے انسانیت کی نئی تشکیل ہوئی ، غریبوں ، کمزوروں اور سماج کے دبے کچلے طبقہ کو حوصلہ ملا، عزت ملی ، سماج میں باوقار فرد کی حیثیت سے دیکھا گیا، انسانیت کے صحیح رخ کی شناخت ہوئی ، ان کے ذہن و دماغ میں یہ بات آئی کہ یہ دنیا چند لوگوں کیلئے نہیں ہے ، مٹھی بھر لوگوں کو صرف حکومت کرنے اور دولت اکٹھا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ ہم بھی اس کے حقد ار ہیں، اقتدار ، دولت اور شرافت کسی کی خاندانی جاگیر نہیں بلکہ اپنی کوشش اور محنت کرکے خود بھی اس مقام تک پہونچ سکتے ہیں کیوں کہ اسلام میں آزادی ، مساوات ، بھائی چارگی اور انصاف کی بات کی گئی ہے اور یہی چیز یں انسانیت کی شرافت سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اسلام کے اسی بنیادی نظریہ کی بنیاد پر اسلام کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں ، مذہب اسلام کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے اور دولت و اقتدار کو خود تک محدود رکھنے والے اسلام کی تعلیمات پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ، ا ن کی خواہش ہے کہ پھر وہی صدیوں پرانا نظام لوٹ آئے جس میں حکومت اور اقتدار میں کسی کی شراکت نہ ہو، کسی میں مخالفت کرنے اور آواز بلند کرنے کی جرأت و ہمت نہ ہو۔
ہندوستان کا نظام بھی ان دنو ں ایسا ہے ، اقتدار اور حکومت کو چند افراد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، مخالفت کی آواز دبائی جارہی ہے ، اپوزیشن کو ختم کرنے کی پلاننگ ہے ، کرسی اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے کہ ان کے طریقہ کار پر کوئی سوال اٹھاسکے ، ان سے کوئی سوال کرنے کی جرأت کرسکے ان کے نظام کے خلاف آواز بلند کرسکے ، یہی صورت حال فرعون کی تھی ، آر ایس ایس کو یہ ہر گز منظور نہیں ہے کہ دلت اور آدی واسی ترقی کرسکے ،ان کے پاس علم آئے اور یہ آگے بڑھ سکیں ، آزاد ہندوستان کا ائین ایسابنا جس کی بنا پر دلتوں کو تعلیم حاصل کرنے ، آزاد فضا میں سانس لینے اور آگے بڑھنے کا موقع ملا لیکن سنگھ پریوار اور برہمن واد کو دلتوں کی ترقی یہ منظور نہیں ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ پہلے کی طرح اب بھی دلت اور آدی واسی کے لوگ ان کی غلامی کریں ، انہیں مندروں میں جانے اور پوجا کرنے کا حق حاصل نہ ہو ۔سنگھ مسلمانوں کے بھی خلاف ہے کیوں کہ مسلمانوں نے دنیا کو ذہنی غلامی سے آزادی دلائی ہے، جابرانہ نظام اور استحصال سے چھٹکارا دلایا ہے اور اسلام کی تعلیم میں یہ طاقت ہے کہ کوئی بھی سماج کسی دوسرے انسان کو غلام نہیں بناسکتا ہے اس لئے دلتوں کے ساتھ مسلمان بھی مسلسل ان کے نشانے پر ہیں بلکہ مسلمانوں کو اپنے ایجنڈے کی راہ میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ان کا احساس ہے کہ مسلمانوں کی وجہ سے دلتوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے، اسلامی نظریات کی بنیاد پر دلتوں اور آدی واسیوں کا استحصال کرنا ان کیلئے مشکل ہوگیا ہے، مسلمانوں کی وجہ سے دلتوں کے معاملے میں منواسمرتی کے مطابق وہ اپنا نظام نافذ نہیں کرپارہے ہیں۔
ملک کی دولت بھی چند ہاتھوں میں محدود ہے ، ورلڈ اکنامک فارم کے اجلاس سے قبل آکسفورڈ کے رائٹ گروپ نے اپنے ریسرچ میں یہ واضح کردیا ہے کہ ہندوستان کے 57 عرب پتی ملک کی 70 فیصد آبادی کی دولت کے مالک ہیں، 50 فیصد سے زائد انتہائی غریب ہیں اور ملک کی 58 فیصد جی ڈی پی پر صرف ایک فیصد آباد ی کا قبضہ ہے ، یہی قارونی نظام کہلاتا ہے جس میں دولت و ثروت پر صرف چند لوگوں کی اجارہ داری ہوتی ہے ۔اور ہامان کا کردار آج کی میڈیا ادا کررہی ہے جو حقائق بتانے اور عوام کو سچائی سے آگاہ کرنے کے بجائے حکومت کی تعریف کررہی ہے ، سرکاری دباﺅ یا پھر کچھ رقم کے عوض ملک کی صحیح تصویر نہ پیش کرکے موجودہ دور کے بیشتر میڈیا ہاﺅسز ارباب اقتدار کی قصیدہ خوانی کررہے ہیں، یہی فرعونی نظام کی خصوصیت کہلاتی ہے جس میں چند لوگ حکومت کے کاموں کا ڈھنڈھوڑا پیٹے ہیں ، پیسے لیکر ڈھول بجاتے ہیں ، حقائق اور سچ کے بجائے تعریف و ستائش کے پل باندھتے ہیں ۔ عوام کی آواز اور پکار سننے کے بجائے جھوٹ پر مبنی رپوٹنگ اور تجزیہ کرتے ہیں ۔ درا صل یہ سب فرعونی نظام کی خصوصیت ہے اور اسی کو آج پھر نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جو لوگ اس نظام میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان پر حملہ کیا جارہا ہے ، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور اسلام کو بدنام کرنے کی پلاننگ ہورہی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہندوستان کا حکمراں طبقہ صدیوں پرانے فرعونی نظام کو عوام پر تھوپنے کی جدوجہد کررہا ہے ، اقتدار کو غیروں کو شرکت سے محفوظ بنانے کیلئے طاقت کا بیجا استعمال کرکے مخالف آوازیں دبائی جارہی ہے ، حکومت کو لاحق تمام خطرا ت سے نمٹنے کیلئے جائز ناجائز کام کئے جارہے ہیں جس کے تئیں عوام میں بروقت بیداری ضروری ہے ، اس فرعونی طاقت کے بڑھتے قدم کو روکنا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ اس لئے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر غلامی جیسی زندگی جینے سے بچنے کیلئے عوام کو سڑکوں پر اترنا ہوگا، اربا ب اقتدار اور جابر حکمرانوں سے ٹکرانا ہوگا، فراست سے اور حکمت و دانائی سے کام لینا ہوگا ۔ ووٹ کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کرنا ہوگا ۔ آزادی ، انصاف ، مساوات اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے کی جنگ لڑنے پڑے گی ورنہ آنے والا کل بہت مشکل اور دشوار کن ہوگا ، غلامی کے دلدل سنے نکل پانا ناممکن ہوجائے گا ، بے بس اور لاچار زندگی بسر کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچے گا ۔
(کالم نگارمعروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
media.millicouncil@gmail.com