اگر ایک اور چوک ہوئی تو آنے والی نسلوں کا مستقبل مزید تاریک ہوجائے گا

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان اور مسلمان کے درمیان لزوم کا رشتہ ہے ، ملک کی تعمیر وترقی میں مسلمانوں کا کردارسب سے نمایاں ہے ،تاریخ سے مسلمانوں کی خدمات ،ان کے کمالات کبھی بھی فراموش نہیں کئے جاسکتے ہیں خواہ مسلم حکمرانوں کے دور کی بات کی جائے ،جنگ آزادی کی جدجہدکا جائزہ لیا جائے یا پھر آزادی کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومت پر نگاہ ڈالی جائے۔ ہردور میں مسلمانوں کی خدمات سبھی پر فائق نظر آتی ہے ،ملک کیلئے دی گئی مسلمانوں کی قربانیاں ہر ایک بام ودر سے عیاں ہوتی ہے اور یہ کہاجاسکتاہے کہ مسلمانوں کی خدمات ،ان کی قربانیاں ،ان کی دانشمندی اور ذہانت و فراست کا اعتراف کیئے بغیر اس ملک کا نہ تووجود سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی تاریخ مکمل ہوسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی یہ خدمات تاریخ کے صفحات میں درج ہیں اور پور ی دنیا نے تسلیم کیا ہے ،متعصب مورخین نے یہاں کی تاریخ لکھتے وقت مسلمانوں کے عظیم کارناموں کو نظر انداز کرنے کی بہت کوششیں بھی کی لیکن کوئی صورت نہیں بن سکی ۔
دوسری طرف سنگھ پریوار ہے جس کے ہاتھ میں آج زمام اقتدار ہے ،ملک کے سیاہ وسفید پر ان کا قبضہ ہے اور اپنے سوا کسی کا وجود انہیں برداشت نہیں ہے ،نہ انہیں مسلمانوں کا وجود گوارا ہے اور نہ ہی دلتوں کی آزادی انہیں بھاتی ہے ،یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان ان کی منشاء اور مرضی کے مطابق چلے ،ڈاکٹر راﺅ بھیم راﺅ امبیڈ کرکے بنائے گئے آئین کے بجائے منواسمرتی کا نظام یہاں نافذ ہو جائے ،ہندوستان کی سرزمین پر برہمنوں اور دیگر اعلی ذات کی عوام کے سوا کسی کو اقتدار کرنے ،حکومت میں حصہ داری اور لیڈرشپ کا حق نہ ہو۔ ہندوستان کو اپنی جاگیر بنانے ،اپنا نظام نافذ کرنے اور خودساختہ دستور کو لاگوکرنے کیلئے وہ کئی طرح کے ہتکھنڈے اپنارہے ہیں، حب الوطنی کی نئی تشریح ،مسلم مخالف پالیسی ،دلتوں اور دیگر قوموں سے بظاہر ہمدردی ، ہندتوا کے نام پر عوام کا جذباتی استحصال ،نفرت کی آبیاری وغیرہ اسی مہم کا حصہ ہے۔ان کے انداز سے پتہ چلتاہے کہ ہندوستان کی آزادی صرف انہیں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ،ملک کی تعمیر و ترقی میں انہیں کا کلیدی رول ہے ، سماجی ، اقتصادی اور سیاسی ترقی جو کچھ بھی ہے وہ انہیں کی جدوجہد کی وجہ سے ملی ہے ،دلتوں کو غلامی سے نجات مل جانا انہیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،ملک کی تعمیر کیلئے ہر محاذ پر انہوں نے ہی قربانیاں دی ہیں، ہندوستان کی آزادی ،تعمیر وترقی اور اس کے قد کو بڑھانے کیلئے ان کے علاوہ کسی اور نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیاہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کہ حب الوطنی کا ان کا یہاں کوئی وجود نہیں ملتاہے ، برسوں تک آر ایس ایس نے اپنے ہیڈکوارٹر پر ترنگانہیں لہرایاہے ،ملک کے دوعظیم قومی تہوار یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر خوشیوں کا ترانہ گانے سے گریز کرتے ہیں ۔یہ بھی تاریخی سچائی ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں ان کا ذرہ بھی کوئی کردار نہیں ہے ،جب مجاہدین آزادی انگریزوں کے سامنے سینہ سپر تھے ،ملک کو غلامی کے دلدل سے نجات دلانے کیلئے جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے ،انگریزوں کے ناپاک قدم کو یہاں باہر نکالنے کیلئے شب روز ایک کرکے میدان عمل میں سر گرم تھے ان دنوں سنگھ پریوار انگریزوں کے شانہ بشانہ کھڑا تھا ،آر ایس ایس ان کیلئے جاسوسی کا کام کررہی تھی ،آزادی کی مخالفت میں تحریک چلا رہی تھی ،یہ لوگ انگریزوں کے خلاف لڑنے کے بجائے ان کی غاصبانہ حکومت کو برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کررہے تھے ۔یہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کو آزادی نہ ملے ،برٹش حکومت ہی یہاں برقرار رہے ۔لیکن ان کی ناپاک کوشش کامیاب نہیں ہوئی ،ملک کو آزادی ملی ۔لیکن المیہ یہ دیکھئے کہ آزادی ملنے کے بعد بھی یہ ملک کے نہیں ہوسکے ،آزاد ی کے روح رواں مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کے وفات کی برسی مناتے ہیں، مجاہدین آزادی کی بے لوث قربانیوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا، جن لوگوں کی جدوجہد سے آج انہیں اقتدار نصیب ہواہے انہیں کو ملک بدر کرنے کی پلاننگ کررہے ہیں۔
حقائق اور تلخ سچائی کے عیاں ہونے کے باوجود آ ج آر ایس ایس کا دعوی ہے کہ اس ملک پر ان کے سوا کسی کو اقتدار کا حق نہیں ہے ،کسی اور قوم کا وجود ان کی اصل شناخت کے ساتھ گوارا نہیں ہے اور اس کیلئے وہ ہر طرح کے حربے اپنارہی ہے ،مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے ،اشتعال انگیز بیانات دیکر ،مختلف الزامات کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرکےان کی شناخت مٹانے اور انہیں خوف زدہ کررہی ہے کیوں کہ انہیں لگتاہے کہ ہمارے لئے سب سے بڑی رکاوٹ یہی مسلما ن ہیں، انہی کی وجہ سے برہمن واد کا خاتمہ ہوا تھا آج پھر اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو ہمارا منصوبہ ناکام ہوجائے گا ۔اپنے اس مشن کی تکمیل کیلئے یہ دلتوں کو بھی ہندو بنانے کی کوشش کررہے ہیں، ان پر بے انتہاء مظالم بھی ڈھارہے ہیں،گؤ تحفظ اور دیگر کئی الزامات میں مسلمانوں کے ساتھ ان کے قتل کا بھی سلسہ جاری ہے ،ووٹ کی خاطر ان کا یہ کھلا تضاد بھی قابل دید کہ ہے کہ انہیں قتل کرنے ، ظلم وستم ڈھانے کے ساتھ ایک دلت لیڈر کو صدر جمہوریہ بنایاہے ۔ دوسری طرف اسلام کے خلاف ہر روز نت نئی سازشیں کررہے ہیں ،اسلامی تعلیمات تک دلتوں اور نوجوانوں کی رسائی کو روکنا چاہتے ہیں ،ان کی یہ منصوبہ بندی ہے کہ نئی نسل اسلام کی صحیح تعلیمات نہ جان سکے ،جہاں تک ہوسکے اسلام کی غلط ترجمانی کی جائے ،اس عظیم مذہب کی غلط تشریح دنیا کے سامنے عموماً اور ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ پیش کی جائے۔ ذرہ برابر بھی کوئی بہتر خیال و گمان اسلام کے بارے میں باقی نہ رہے ،اس مشن کی تکمیل کیلئے انہوں نے ہزاروں صفحات سیاہ کئے ہیں، سینکڑوں کتابیں ،ہزاروں لٹریچر اور مضامین اسلام کی مخالفت میں لکھے ہیں، سادہ لوح عوام کے دلوں میں مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنے کیلئے لوجہاد ،گؤ تحفظ ،راشٹر واد ،ترنگا یاترا جیسی کئی مہم انہوں نے چھیڑی ہوئی ہے ان سب کا مقصد صرف ایک ہے کہ ہندوستانی عوام کے دلوں میں اسلام کے تئیں نفرت پیدا ہوجائے ۔یہ سب وہ اس لئے کررہے ہیں کہ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے جو تمام انسانوں کے یکساں حقوق کی بات کرتاہے ،مساوات ،بھائی چارگی، آزادی اور انصاف کی وکالت کرتاہے ،انسانی غلامی کی شدید مذمت کرتاہے ۔
آر ایس ایس اپنے اس منصوبہ میں کامیابی کی جانب گامزن ہے ،اچھی خاصی اسے کامیابی مل چکی ہے ، بلامبالغہ ملک کی 30 فیصد آبادی اس کے دام فریب میں آچکی ہے اور یہ مہم دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ایسے میں ملک کے علما ءودانشوران کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ،اس بارے میں گہرائی سے غور وفکر کرنا ہوگا ،اس نفرت انگیز مہم کو روکنے کیلئے کوئی لائحہ عمل اپنانا ہوگا کیوں عوام کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفر ت انگیز مہم آئندہ دنوں میں اس سے بھی خطرناک شکل اختیار کرلے گی ،ایک مسلمان کیلئے اسلامی تشخص کا برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا ،ہم سے ہماری ثقافت چھین لے جائے گی اور پھر منواسمرتی کے نفاذ میں کوئی تاخیر نہیں لگے گی ۔اس لئے اس وقت کی سب سے اہم ضرورت تحفظ آئین کی فکر اور اسلام کے خلاف بڑھتی ہوئی نفر انگیز مہم کوروکناہے ۔
اس کیلئے ہمار ے پاس کئی راستے ہیں، ہم ہند دھرم کے چاروں بڑے شنکر آچاریہ سے ملاقات کرکے انہیں اسلام کے بارے میں بتائیں ،مسلمانوں کے خلاف جاری جارحانہ اقدام کے مضمرات سے انہیں آگا ہ کریں ،ہندوستان میں مسلم دور حکومت کی صحیح تاریخ انہیں بتلائیں ۔دلتوں ،آدی واسیوں اور چھوٹی ذات کے ہندو رہنماﺅں سے ملکر ان تک اسلام کی صحیح تعلیمات پہونچائیں، دیگر مذاہب کے رہنماﺅں سے بھی ہم مذاکرات کریں، بین المذاہب ڈائیلاگ پر توجہ دیں ،سیکولر اورعام لوگوں تک اسلام کی سچی اور حقیقی تصویر پیش کریں ۔ جو لوگ اسلام کے بارے میں غلط سمجھتے ہیں، مسلمانوں کو دہشت گرد اور آتنک واد سمجھتے ہیں ان سے بھی ملاقات کرکے اپنی بات ان تک پہونچائیں ۔
حالات بتارہے ہیں کہ ہر آنے والا دن خطرناک ثابت ہورہا ہے ،مسائل بڑھتے جارہے ہیں،مختلف بہانوں سے مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے ،اسلام کے خلاف نفرت انگیز مہم بھی بڑھتی جارہی ہے ،امن وآشتی کی تعلیم پر مشتمل قرآن کریم اور احادیث رسول کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کیا جارہاہے ،ہندوستان سمیت دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کی غلط تصویر پیش کی جارہی ہے ، تاریخ میں ردوبدل سے کام لیا جارہاہے اور ان سب کے پیچھے یہی ایجنڈہ ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا کی عوام اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن ہوجائے اور پھر آسانی کے ساتھ آئین تبدیل کرنے کا موقع مل جائے اس لئے بلا تاخیر مسلم اسکالرس ،علماءاور دانشوران کو اس پہلو پر غور کرنا ہوگا ،اس سلسلے میں قدم اٹھانا پڑے گا یہ کوئی ضروری نہیں ہے کو جو تجویز ہم نے یہاں پیش کی ہے اسی کو اپنایا جائے لیکن اسے ہم ضروری سمجھتے کہ اس بارے میں ہم سب اب ضرور غور فکر کرلیں کیوں کہ آر ایس ایس کی پالیسی سمجھنے میں علماء و دانشوران سے چوک ہوچکی ہے ،اسی کا نتیجہ ہے آج پارلیمنٹ سے شریعت مخالف قانون پاس کئے جارہے ہیں ، اسلام کے نظام حیات کو دقیانوسی قرار دیکر ایک خود ساختہ نظام ہم پر تھوپا جارہاہے ،ہماری عظیم تہذیب و ثقافت کی جگہ کسی اور کے کلچر کو اپنانے پر مجبور کیا جارہاہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ادارے خواہ مساجد ہوں ،مدارس ہوں ،ملی تنظیمیں ہوں یا کچھ اور ان سب کو ختم کرنے کیلئے مختلف طرح کے ہتکھنڈے اپنائے جارہے ہیں، یہ بحث بھی کی جارہی ہے کہ یہ سب ادارے تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں، مسلمانوں کے آپسی اختلافات کو بھی بڑھاوا دیا جارہا ہے، گھر سے لیکر باہر تک مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے ایسے ماحول میں ہم نے کوئی حکمت عملی کی راہ نہیں اپنائی۔ اگر ایک اور چوک ہم سے ہوگئی تو پھر آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان کا مستقبل مزید تاریک ہوگا اور ہندوستان کی تصویر مکمل طور پر بدل جائے گی ۔
(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )
media.millicouncil@gmail.com