وزیر اعظم نریندر مودی کا دورۂ فلسطین

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
نریندر مودی ان وزراء اعظم کی فہرست میں شامل ہورہے ہیں جنہیں برسوں تک یاد رکھا جاسکتا ہے، یاد رکھے جانے کی وجہ کبھی خوبیاں ہوتی ہیں تو کبھی خامیوں، ناکامیوں اور دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی بہت سے لیڈروں کو تاریخ کے اوراق میں نمایاں جگہ مل جاتی ہے ، مودی جی کا نام کس فہرست میں شامل ہوگا اس کا فیصلہ کسی ایماندار مؤرخ پر آپ چھوڑ دیجئے !لیکن یہ بات ہر کوئی مؤرخ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ انہوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد کئی ایسے کام کئے ہیں جو ان سے قبل کسی اور وزیر اعظم نے نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ بیشتر کاموں کیلئے انہیں اولیت کا کریڈٹ ملے گا ، یہ کہا جائے گا کہ سب سے پہلے یہ کارنامہ انجام دینے والے وزیر اعظم نرنیدر مودی ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کے ان منفرد اور یکتائے زمانہ کارناموں کی فہرست میں اسرائیل اور فلسطین کا دورہ بھی شامل ہے ۔ یہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اسرائیل کا بھی دورہ کیا ہے اور فلسطین کی بھی انہوں نے باضابطہ زیارت کی ہے ۔ اسی خصوصیت کے وجہ سے مودی اسرائیل کے نزدیک بھی بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں اور فلسطین بھی ہندوستان کا مشکور و ممنون ہے۔
تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ یہ مودی کی خارجہ پالیسی کی ایک بہترین مثال ہے ، بی جے پی حکومت میں اسرائیل سے ہندوستان کے تعلقات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ، کئی طرح کی قربتیں پیدا ہوئی ہیں ۔ این ڈی اے کی سرکار بننے کے بعد پہلی مرتبہ ہندوستان کے صدر نے اسرائیل کا دورہ کیا ،اس کے بعد جولائی 2017 میں خود نریندر مودی نے وہاں کا سفر کیا ، رواں سال کے پہلے مہینہ میں انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامین نتین یاہو کا ہندوستان کی سرزمین پر پرتپاک استقبال کیا۔ چھ روزہ دورہ میں شاندار ضیافت کی اوراب 10 فروری 2018 کو انہوں نے فلسطین کا بھی علاحدہ سفر کرلیا ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کی زبانیں بند ہوگئی جو مودی پر اسرائیل سے بڑھتے تعلقات اور فلسطین کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کررہے تھے ۔ اس سے قبل یہ پالیسی تھی کہ جب بھی کسی ہندوستانی لیڈر کا اسرائیل دورہ ہوتا تھا تو وہ فلسطین بھی جاتے تھے یا فلسطین کا دورہ ہوتا تھا تو اسرائیل بھی جاتے تھے، لیکن پی ایم مودی نے ایک نئی پالیسی اپناتے ہوئے دونوں ریاستوں کا علاحدہ دورہ کیا ہے ۔ اس پالیسی سے واضح طو پر یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ ہندوستان نے فلسطین اور اسرائیل کو دو علاحدہ علاحدہ ریاست حتمی طور پر تسلیم کرلیا ہے ۔بظاہریہ تأثر دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کے تعلقات دونوں سے یکساں ہے ،کسی ایک کی طرف کوئی جھکاﺅ نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان ۔اسرائیل کے درمیان تعلقات بہت گہرے ہوچکے ہیں، بی جے پی لیڈروں کے مطابق دونوں ملکوں میں فطری رشتے پائے جاتے ہیں جبکہ فلسطین اور اسرائیل تعلقات دنیا کی نظر میں سیکولر اور جانبدار بنے رہنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے ۔ سعودی عرب، پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اب تک اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہیں کیا ہے اور اسے ایک غاصب ریاست کی حیثیت سے جانا جاتا ہے دوسری طرف چند ایسے بھی ممالک ہیں جنہوں نے فلسطین کا وجود اب تک تسلیم نہیں کیا ہے ۔ پی ایم مودی نے اپنے اس سفر کو مکمل طور پر فلسطین کیلئے ہی خاص رکھا اور راستے کے انتخاب میں بھی اسرائیل کا کہیں نام و نشان نہیں آنے دیا۔ تل ابیب کے بجائے اردون کے راستے بذریعہ کار سو کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ان کا قافلہ رام اللہ پہونچا ۔
مودی کے فلسطین دورہ کے تناظر میں اولیت کا مسئلہ بھی زیر بحث ہے ۔ ایا واقعی بطور ہندوستانی وزیر اعظم فلسطین کا دورہ کرنے والے مودی سب سے پہلے شخص ہیں یا کسی اور نے بھی کیا ہے ، سچائی یہی ہے کہ فلسطین کو ریاست کا درجہ ملنے کے بعد وہاں کا سفر سب سے پہلے نریندر مودی نے ہی کیا ہے۔ ہندوستان کے اولین وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لال نہرو نے بھی 1960 میں فلسطینی خطہ غزہ کا دورہ کیا تھا لیکن اسے دورۂ فلسطین نہیں قرار دیا گیا ہے کیوں کہ جن دنوں انہوں نے فلسطین کا درہ کیا تھا اس وقت وہ خطہ مصر کے زیر انتظام تھا ۔ مصر اور اردن سے علاحدہ ہونے کے بعد 15 نومبر 1988 میں فلسطین کو مستقل ریاست کا درجہ ملا ہے اور یہی تاریخ یوم آزادی قرار دی گئی ہے ۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک اسٹوری کے مطابق جواہر لعل نہرو، لندن میں دولت مشترکہ کے وزارئے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے بعد غزہ میں اسرائیل اور مصر کے درمیاں جنگ بندی سرحد پر تعینات اقوام متحدہ کی ہنگامی فوج میں شامل ہندوستانی فوجیوں سے ملنے غزہ گئے تھے، فوجیوں سے ملنے کے بعد نہرو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ طیارہ میں بیروت کیلئے روانہ ہوئے، جیسے ہی نہرو کے طیارہ نے اڑان بھری، اسرائیل کے دو جٹ طیاروں نے اس کا تعاقب کرکے زبردستی اسرائیل میں اتارنے کی کوشش کی لیکن اقوام متحدہ کے طیارے کے ہوا باز نے بڑی مہارت سے یہ کوشش ناکام بنادی اور بحفاظت نہرو کو بیروت پہنچا دیا۔ اس وقت تو نہرو نے کچھ نہیں کہا لیکن دہلی واپسی پر انہوں نے لوک سبھا میں اس واقعہ کا انکشاف کیا اور اسرائیل کی اس کارراوئی کو بلا اشتعال اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ اس واقعہ کو اٹھاون سال گذر چکے ہیں، اسرائیل نے ابھی تک اس واقعہ پر ہندوستان سے معذرت نہیں کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہند ۔ اسرائیل تعلقات میں بڑھتی قربت کا سلسلہ جاری ہے ۔
آئیے ایک نظر ہندوستان اور فلسطین کے سفارتی تعلقات پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ 1948میں فلسطین میں قیام اسرائیل کے منحوس اقدام کے بعد امریکہ اور اور اس کے فوری بعد سابق سوویت یونین نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا ،1950 میںہندوستان نے بھی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولا کا حل پیش کیا تھا ۔ اس وقت کے پہلے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے ہندوستان کی طرف سے تسلیم کیے جانے کے ایک روز قبل کہاکہ ہندوستان سفارتی دباؤ کے نتیجے میں اسرائیل کو تسلیم کررہا ہے‘۔1951میںملک کے پہلے وزیر اعظیم پنڈٹ جواہر لال نہرو نے سرائیل میں اپنا قونصل خانہ قائم کر کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی شروعات کردی۔ اور پھر 1992میں اسرائیل کے شاطر صدر آنجہانی شمعون پیریز اپنی چکنی چپڑی سفارت کاری سے ہندوستان کو مزید قریب کرلیا اور یوں ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات کرنے کا اعلان کیا۔
مودی کا حالیہ مشرق وسطی دورہ دیگر بیرونی اسفار کے مقابلے میں تاریخی قرار دیا جائے گا اور یاد رکھا جائے گا کیوں کہ 9 تا 12 فروری 2018 کے حالیہ مشرق وسطی کے سفر میں انہوں نے ہندوستان کے ہندو اور مسلمان دونوں کو خوش کرنے والا کام کیا ہے ۔ اختلافات کے باوجود مودی کا فلسطین جانا ایک بہتر قدم ہے اور جذباتی بنیاد پر مسلمانوں کے ایسے اقدامات سے سکون ملتاہے دوسری جانب ابوظہبی میں مندر کی بنیاد ڈال کر پی ایم مودی نے ہندﺅوں میں بھی اپنی مقبولیت بڑھالی ہے اور جذباتی طور پر انہیں خوشی ملی ہے۔ خلیجی ممالک میں یہ تیسری مندر ہو گی اس سے قبل دبئی اور عمان میں بھی مندر کی تعمیر ہوچکی ہے تاہم ابوظہبی میں تعمیر ہونے والی مندر دونوں سے مختلف ہے ،اس کا نقشہ دہلی کے اکشر دھام مندر کی طرح ہے ،ایک شاہرا پر اسے بنایا جارہا ہے جبکہ دیگر دو ملکوں میں بنی مندر گھر نماہے ،زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں علم بھی نہیں ہے ۔
وزیر اعظم کے فلسطین دورہ پر ہندوستان کی ملی قیادت بھی خاموش ہے ،جب پی ایم مودی نے اسرائیل کا دورہ کیاتھا تو یکطرفہ مخالفت کی گئی تھی لیکن اب جب انہوں نے فلسطین کا دورہ کیاہے ،چھ امور پر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ عمل میں آیا ہے ، آئی آئی ٹی کے شعبہ میں ہندوستان نے خصوصی تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تو ملی قیادت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا ہے ۔
stqasmi@gmail.com