ملی کونسل کی سلور جبلی ۔ شہر میسور سے ایک اور نئی تاریخ رقم کرنے کا عزم

خبر در خبر (548)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان کے موجودہ حالات انتہائی بد ترہیں، ہم اپنی آنکھوں سے سنگین صورت حال کا مشاہدہ کررہے ہیں، خوف ، ڈر اور نفسیاتی دباﺅہم پر بنایا جاچکا ہے ، ہم سے ہماری شناخت چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ، اقتصادی سطح پر ہم کمزور کئے جارہے ہیں، تعلیمی میدان میں ہمیں پیچھے چھوڑنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ، سر عام ہمارا قتل ہورہا ہے ۔ لیکن یہ صورت حال صرف آج کی نہیں بلکہ آزدی کے بعد سے ہی مسلمانانِ ہند ایسے حالات کا سامنا کررہے ہیں اور جرأت و ہمت کے ساتھ اس کا مقابلہ بھی کررہے ہیں، ایسے ہی سنگین حالات 1990 کے دہائی میں تھے جب پورے ہندوستان کے مسلمان شدید بے چینی ، پریشانی اور اضطراب کی کیفیت محسوس کررہے تھے ۔ خوف اور دہشت کا عالم تھا ۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے اور قوم کو نفسیاتی دباﺅ سے آزاد کرانے کیلئے مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے اتحاد ملت کا نعرہ بلند کیا ، تمام مسالک و مکاتب کے علماء کو ایک اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اور ممبئی کی سرزمین پر مئی 1992 میں ایک اتحاد ملت کانفرنس طلب کی گئی جس میں تقریباً 200 سے زائد مختلف مسالک و مکاتب کے علماء نے شرکت کی ، مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی وقیع اور حالات و مشاہدات پر مشتمل خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ اس اتحاد ملت کانفرنس کے مشن کو برقرار رکھنے اور اس ایجنڈا کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اسی اجلاس میں ملی کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی گئی اور ہندوستان کے معروف رہنما قاضی مجاہد الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اس کے کنوینر بنائے گئے ۔ چند ماہ بعد نومبر 1992 میں ملی کونسل کو عملی جامہ پہنانے اور باضابطہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ ہندوستان کے تاریخی شہر ، شیر میسور ٹیپو سلطان کے دیار میں اس وقت کی جید شخصیات ، اکابرین اور ملی کونسل سے وابستہ حضرات جمع ہوئیں ،28 .29 نومبر 1992 کو اجلاس عام کا انعقاد کیا گیا اور یوں آل انڈیا ملی کونسل کے باضابطہ قیام کا اعلان ہوا ۔
آل انڈیا ملی کونسل نے اپنے قیام کے بعد ملک کی تصویر بدلنے کی کوشش کی ، ہر ضلع اور گاﺅں تک پہونچ کر مسلمانوں کے مسائل سلجھانے کا کام کیا ، قاضی القضاة مولانا مجاہد الاسلام کی قیادت میں ملی کونسل کا دائرہ مسلسل بڑھتا رہا اور چند ہی سال میں پورے ملک میں ملی کونسل کی جدوجہد کا چرچا ہونے لگا ، صوبائی اور ضلع سطح پر ملی کونسل کی یونٹ کی تشکیل عمل میں آئی، زمینی سطح پر کام کیا گیا اور یوں جمعیۃ علماء ہند کے بعد یہ دوسری تنظیم بن گئی جس کی نمائندگی ہر صوبہ، ضلع اور شہروں پر مشمل ہے ۔ ملی کونسل کا خاص امتیاز ہے کہ اس میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء، دانشوران ، اسکالرس اور دیگر شعبہائے حیات کی نمانئدگی ہے ۔
آل انڈیا ملی کونسل کے اغراض و مقاصد اور تاریخی کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سرفہرست ہے ۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر مسلمانوں میں اجتماعیت اور اتحاد پیدا کرنا اور اس بات کی کوشش کرنا کہ مسلمان بحیثیت خیر امت اس ملک کی ذمہ داریاں پوری کرسکیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے مناسب تدابیر اختیار کرنا ۔مسلمانوں کے دینی و مذہبی تشخص نیز تہذیبی و ثقافتی شناخت کے تحفظ کیلئے کوشش کرنا اور اس سلسلے میں ان مقاصد کیلئے کی جانے والی کوششوں میں خواہ وہ کسی جہت سے ہورہی ہوں ربط و توافق پیدا کرنا اور ان سے تعاون کرنا ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی فسطائیت ، فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے رجحانات کے مقابلے کیلئے رائے عامہ بیدار کرنا، ہندوستان کی تمام مذہبی اکائیوں اور فرقوں کے درمیان خیر سگالی اور برادرانہ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنا، ان کے اندر باہمی اعتماد کی فضاء بحال کرنا اور ہندوستان کے تمام شہریوں بالخصوص اقلیتوں اور مظلوم طبقات کی جان و مال ، عزت و آبرو اور تہذیب و تمدن کے تحفظ کی کوشش کرنا ۔ مسلمانوں میں حوصلہ اور خود اعتماد ی کو بحال کرنا اور ان میں اس احساس کو ابھارنا کہ وہ اس ملک میں دوسرے درجہ کے شہری نہیں ہیں بلکہ دستوری طور پر اقتدار میں برابر کے شریک ہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی او رایک ایسے نظام کو قائم کرنے میں جو سماجی انصاف کا ضامن ہو، انہیں اپنا قرار واقعی رول ادا کرنا ہے ۔ مسلمانوں کی تعمیر و ترقی تعلیمی ، معاشی و معاشرتی فلاح وبہبود کیلئے منصوبہ بندی ، دینی تعلیم کیلئے مکاتب و مدارس ، عصری تعلیم کیلئے اسکول و کالج ، پروفیشنل تعلیم کیلئے ادارے ، طبی مراکز ، دوا خانوں نیز صنعت و حرفت ، دستکاری و تجارت کے شعبوں میں ایسے اداروں کے قیام کی کوشش کرنا جن کے ذریعہ مسلمانوں کو ان میدان میں آگے بڑھنے کا موقع ملے اور وہ اپنی محنت کا پورا صلہ پائیں ۔ ان مقاصد کیلئے قائم تنظیموں اور جاری کوششوں کے درمیان ربط و ہم آہنگی پیدا کرنا اور ان کو تقویت پہونچانا ۔ مسلمانوں میں اجتماعی و سیاسی شعور بیدار کرنا اور حالات کی پیچیدگی اور نشیب و فراز سے انہیں باخبر رکھنا اور مناسب رہنمائی فراہم کرنا ۔
ملت اسلامیہ میں مقامی سطح سے ملکی سطح تک فعال قیادت کو پروان چڑھانا تاکہ ہر سطح پر ان مقاصد کی تکمیل میں مدد مل سکے ۔
2018 میں آل انڈیا ملی کونسل کے قیام کو 25 ہو پورے ہوگئے ہیں ، اس مدت میں ملی کونسل نے ملک و ملت کی تعمیر میں کئی اہم کارنامے انجا دیئے ہیں، کئی مرتبہ اپنی اجتماعی کوششوں سے حکومت کو ان کا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے ، مختلف کنونشن کا انعقاد، احتجاج و مظاہرہ ، ارباب اقتدار سے ملاقات اور ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے ملک کے مسلمانوں میں حوصلہ پیدا کرنے اور بیداری لانے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے ۔ملی کونسل نے 2014 کے بعد ملک کے بگڑتے حالات کے تناظر میں دستور بچاﺅ دیش بناﺅ کا نعرہ لگایا جس کے تحت مختلف علاقوں میں تقریب کا انعقاد ہوا ، جولائی 2017 میں ایک تاریخی کنونشن دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی جس کی شہرت پورے ملک تک پہونچی اور ہر سیکولر شہری نے اس نعرہ سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی تحریر و تقریر کا اسے حصہ بنایا ۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ملی کونسل کے 19 ویں اجلاس عام کے موقع پر بھی اسی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ چار روزہ جشن سمیں کے موقع پر مختلف اجلاسوں کے ساتھ 25 فروری کی شام میں دستور بچاﺅ ۔ دیش بناﺅ کے موضوع پر ایک اجلاس عام کا انعقاد ہوگا ۔
ملک کی تعمیر اور مسلمانوں کی تصویر بدلنے میں ملی کونسل نے نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے ، ملک گیر سطح پر سیاسی اور ملی مسائل کو اٹھانے والی یہ واحد ایسی تنظیم ہے جس میں سبھی مکاتب فکر کے علماء، دانشوران اور دیگر شعبہاء حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی نمائندگی حاصل ہے ۔ آل انڈیا ملی کونسل کی اس عظیم کامیابی اور جدوجہد کا سہرا ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم ملی رہنما قاضی مجاہد الاسلام کو جاتا ہے جنہوں نے درجنوں تاریخ ساز کارنامہ انجام دینے کے ساتھ ملی کونسل کے ذریعہ اتحاد ملت کے مشن کو کامیاب بنانے میں کلیدی رول ادا کیا ۔ ان کے وفات کے بعد معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد منظور عالم اس کارواں کو بحسن و خوبی آگے بڑھارہے ہیں ۔ معروف عالم دین مولانا عبد اللہ مغیثی بطور صدر آل انڈیا ملی کونسل اس مہم میں برابر کے شریک ہیں ۔ اس کے علاوہ مولانا محمد رابع حسنی ندوی، مولان خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا عبد الوہاب خلجی، جسٹس ایم اے احمدی ، جناب رحیم انصاری ، کمال فاروقی۔ پروفیسر عبد المتین ۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی۔ ڈاکٹر محمد اصغر چوبلے ۔ جناب عبد الرشید انجینئر۔ مولانا کاکا سعید عمری ۔ ایس ایم عبد الرحیم چننی۔ ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی۔ ایڈوکیٹ عبد القیوم اختر ۔ مولانا یاسین علمی عثمانی ۔ اقبال محی الدین شیخ ۔ مفتی ثناء الہدی قاسمی ۔ مولانا اسرارالحق قاسمی سمیت درجنوں اہم شخصیات ملی کونسل کے مختلف عہدوں پر فائز ہیں اور اس کاز کو آگے بڑھانے میں ان کا تعاون شامل ہے ۔
آل انڈیا ملی کونسل کے 25 سال مکمل ہونے پر ایک مرتبہ پھر اسی شہر میسور میں ملت کونسل سے وابستہ تمام افراد چار روزہ جشن سمیں (سلورجبلی) منارہے ہیں جہاں اس کی داغ بیل ڈالی گئی تھی ۔ ہر نازک موڑ پر ملت کا حوصلہ بڑھانے والے یہ قائدین تاریخی شہر میں ایک اور نئی تاریخ رقم کررہے ہیں، اپنے عزائم اور ولولے سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ٹیپوسلطان کا خون ان کی رگوں میں آج بھی دور رہا ہے، آئین ہند اور دستور کی روشنی میں مخالف طاقتوں سے ہر محاذ پر وہ جنگ لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، مشکل ترین حالات کے باوجود ان کی ہمت پست نہیں ہوئی ہے ۔ جنوبی ہند کے اس علاقے میں جمع ہوکر قائدین ملت بلند عزائم سے سرشار ہوکر پورے ہندوستان کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ماضی میں انگریزوں کا راستہ ٹیپو سلطان نے روکا تھا آج بھی فرقہ پرستوں کے بڑھتے قدم کو روکنے کیلئے میسور کی سر زمین پر ایک لائحہ عمل تیا رکیا جارہا ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )