معروف دانشور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیرمین ای ۔ابوبکر سے ملت ٹائمز کی خاص بات چیت

پاپولر فرنٹ آف انڈیا ہندوستان کی منظم تنظیموں میں سر فہرست ہے ،ملک وملت کے تمام شعبہائے حیات کیلئے مختلف شاخ کے ذریعہ یہ تنظیم کام کرتی ہے ،دس سال کے عرصہ میںپی ایف آئی جنوبی ہند سے نکل کر ہندوستان کے تمام علاقے میں پہونچ چکی ہے اور پورے ملک میں کام کررہی ہے ،کہاجاتاہے کہ مسلمانوں کو طاقتور بنانے اور ان کے درمیان حوصلہ پیداکرنے کیلئے یہ تنظیم آر ایس ایس کے طرز پر کام کررہی ہے ۔ یہ سچائی ہے کہ مسلم نوجوانوں کی اس کے تئیں دلچسپی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اس کی مختلف شاخوں سے جڑرہے ہیں ۔ پی ایف آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت فرقہ پرست طاقتوں کو برداشت نہیں ہے ،گذشتہ ماہ اس پر پابندی عائد کرنے کی خبر زیر بحث تھی لیکن پی ایف آئی کی بروقت مضبوط قانونی کاروائی کے سبب ایسا نہیں ہوسکا ،تاہم جھار کھنڈ میں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے ،اس تنظیم پر دہشت گردانہ واقعات کو انجام دینے کا بھی الزام ہے۔قدیم مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی پی ایف آئی کو کوئی حمایت نہیں مل رہی ہے۔
پاپو لر فرنٹ آف انڈیا کے چیرمین جناب ای ابوبکر ایک معروف رہنما مانے جاتے ہیں،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ،آل انڈیا ملی کونسل سمیت کئی اہم تنظیموں کی مجلس عاملہ کے آپ کے رکن بھی ہیں ۔میسور میں ملی کونسل کی سلور جبلی تقاریب کے موقع پر ان سے پی ایف آئف کے مشن ،کام کے طریقہ کار، دہشت گردی کے لگے الزامات ،ملک کے موجودہ ماحول اور کرناٹک انتخابات میں ایس ڈی پی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے خاص بات چیت کی ہے ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے ۔ مکمل انٹر ویو ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر نشر کردیاگیا ہے ،خاص اقتباسات یہاں بھی قارئین کی نذر کئے جارہے ہیں ۔آپ اپنا تبصرہ ملت ٹائمز کی سائٹ پر ضرور لکھیں نیز کسی اہم ملی اور سماجی شخصیت کے بارے میں آپ کو لگتا ہے کہ ملٹ ٹائمز کو ان کا انٹر ویو لینا چاہیئے تو براہ کرم ان کے نام نشاندہی کریں(ادارہ)

سوال:
پاپولرفرنٹ آف آنڈیا کیا ہے ،کب اس کا قیام عمل میں آیا اور یہ تنظیم کیا کام کررہی ہے ،آپ کا ایجنڈا کیا ہے ؟
آج سے پچیس سال قبل کیرالامیں ایک این جی اوقائم کی گئی تھی جس کا نام تھا نیشنل ڈیولپمینٹ فرنٹ ،بعد میں کرناٹک اور تمل ناڈو کی دوریاستی تنظیموں کاانضمام کرکے 2006 میں پاپولرفرنٹ آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی ۔2017 میں بنگلور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اس کے قیام کا اعلان کیا گیا ۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قیام کا اصل مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو طاقتور بنانااور بیدار کرناہے ، ہم ہمیشہ ہندوستان کی حکومت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا،ہمارے حقوق نہیں دیئے گئے پی ایف آئی نے اس سے ہٹ کر یہ سوچنے کی جہت میں کام کیا کہ ہم نے خود اپنے لئے کیا کام کیاہے ،ہماری ذمہ داری کیا ہے اور مسلمانوں کیلئے ہمیں کیا کرناچاہیئے یہی سوچ کر پی ایف آئی کا قیام عمل میں آیا۔ہم نے اس ضمن میں بھی سوچنے کی کوشش کی کہ ہندوستا ن کا اصل دشمن کون ہے۔فاشزم ہندوستان کا بہت بڑا دشمن ہے اور یہ آر ایس ایس ہندتوا فاشزم ہے اس لئے ہم نے ان کے خلاف بیداری مہم چلائی۔ صاف لفظوں میں کہاکہ اس ڈیموکریسی سے فاشزم آجائے گا اور پورے ہندوستان کو تباہ وبرباد کردے گا ،جب ہم نے یہ بات کہی تھی کہ لوگوں نے یقین نہیں کیا لیکن آج آگیاہے اور اسی کے خلاف ہم بیداری مہم چلارہے ہیں ۔
سوال:
پہلے سے ہندوستان میں بہت ساری تنظیم موجود ہے جو مسلمانوں کے درمیان سیاسی ،سماجی ،اقتصادی او رتعلیمی محاذ پر کام کررہی ہے،ایسے میں ایک علاحدہ تنظیم قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
جواب:
ہندوستان میں بہت ساری تنظیم ضررو ہے لیکن ایسی ایک بھی تنظیم نہیں تھی جو پورے ہندوستان کیلئے کام کرتی ہے ،جس کا ایجنڈا تمام شعبہائے حیات پر مشتمل ہو،جس میں تمام مسلمانوں کے معاملات پر فوکس کیا جاتاہے ۔اس لئے پی ایف آئی کا وجود عمل میں آیا جو پورے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے کام کرتی ہے اس کے علاوہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی بھی آواز بلندکی جاتی ہے ۔کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو صرف شرعی مسائل کیلئے آواز اٹھاتی ہیں ، تحفظ شریعت ،قومی یکجہتی وغیر ہ کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہے ،کچھ وہ ہیں جو صرف سیاسی امور کی بات کرتی ہے ان حالات میں ایک ایسی تنظیم کی ضرورت تھی جو تعلیمی ،سیاسی ،اقتصادی ،معاشی ،زرعی اور تمام محاذ پر مسلمانوں کیلئے کام کرے ۔نیز پہلے سے جو تنظیم ہے وہ خاندانی ،وہاں جمہوریت نہیں ہے

پاپو لر فرنٹ آف انڈیا کے ممبران اپنے یونیفارم میں فلیگ مارچ کرتے ہوئے

،جو ایک مرتبہ بن گیا وہی ہمیشہ عہدہ پر فائز رہا ۔
سوال :
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا بنیادی ڈھانچہ اور نظام کیا ہے ،اس کے بانی کون ہیں؟
جواب:
یہ کوئی بنائی ہوئی تنظیم نہیں ہے بلکہ آئی ہوئی ہے جیسے اللہ تعالی نے کسی چیز کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو فرماتے ہیں ”کن “۔’ہوجا‘ ۔پی ایف آئی فرقہ وارانہ فسادات اور ہندتوا کے بڑھتے خطرات کے تناظر میں خود بخود منظر عام پر آگئی ،کیرالاکے ماحول بہت زیادہ فرقہ وارانہ ہوچکے تھے ،ایک مسجد کے امام کو ماردیاگیاتھا اور کئی طرح کا حادثہ پیش آیاتھااس حوالے سے یہ تنظیم وجود میں آئی ،کوئی ایک آدمی اس کا بانی نہیں ہے شروع میں ہم 17 لوگ تھے اور پہلی میٹنگ میں 60 لوگوں نے بیعت کی یہ کہتے ہوئے ہم اسلام اور مسلمانوں کیلئے کام کریں گے ،ہماری جان ومال اس پر قربان ہوگی ۔یہاں ہر دوسال پر انتخاب ہوتاہے شروع میں مجھے اس کا چیرمین بنایاگیا ،دومرتبہ مجھے نہیں بنایاگیا ،اب ایک مرتبہ پھر مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ہم لوگ محبت کے ساتھ اور مل کر کام کرتے ہیں ،یہ نہیں ہے کہ ہم پہلے چیرمین ہیں ،یا اتنے دنوں تک چیرمین رہے ہیں،ایک جذبہ ،شوق اور محبت کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں ۔
سوال:
پی آئی ایف کی بہت ساری ونگ ہے ،آپ ہمیں بتائیں کہ ان شاخوں کے ساتھ آپ کس طرح مل کر کام کرتے ہیں ،کس طرح اس کے معاملات طے کرتے ہیں اور آپ کی سیاسی ونگ ایس ڈی پی آئی بہت زیادہ مشہور ہے ،ہمارے ناظرین کو اس حوالے آپ بتائیں :
جواب:
ہماری کوئی ونگ نہیں ہے البتہ مختلف شعبہائے حیات میں جو تنظیمیں کام کرتی ہیں ہم اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ایس ڈی پی آئی ہماری ونگ نہیں ہے لیکن ہم اس کی حمایت کرتے ہیں ،ہمارے ممبران اس سے جڑے ہوئے ہیں،اسی طرح آئمہ اور علماءکی ایک ونگ ہے جسے ہم سپورٹ کرتے ہیں ۔ بڑے بڑے علماءاس سے جڑے ہوئے ہیں ۔اس طرح خواتین کی ایک ونگ ہے نیشنل وویمن فرنٹ جسے ہماری حمایت حاصل ہے ،اسی طرح کسان ،یوتھ ،اسٹوڈینٹس اور دیگر تنظیمیں ہیں جس کی پی ایف آئی حمایت کرتی ہے ۔
سوال:
آپ کی تنظیم پر دہشت گردانہ واقعات کو انجام دینے کا الزام ہے ،بم بلاسٹ اور اس طرح واقعات کیلئے آپ کی تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایاگیا ہے آپ کیا کہیںگے اس کے بارے میں؟۔
یہ تمام الزامات سفید جھوٹ ہیں،ہم نے کہیں بھی کوئی بم بلاسٹ نہیں کیاہے اور نہ کریں گے لیکن آپ ہمیں مارنے آئیں گے تو ہم دفاع کریں گے اور اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہر ممکن اپنی حفاظت کریں گے اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کریں گے ۔ہم مسلمانوں کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں اور اس کیلئے ہم کام کریں گے ،اس میں ہمارے ملک کی بھی ترقی ہے ،صرف مسلمان طاقتور نہیں ہوں گے بلکہ ملک بھی طاقتور ہوگا ۔ایک کمیونٹی اگر پسماندہ رہے گی تو ملک ترقی نہیں کرے گا ۔گاڑی کے ایک ٹائر میں اگر ہوا نہیں ہے تو گاڑی کیسے چلے گی ،ہم ٹائر میں ہوا بھر نے کا کام کررہے ہیں۔
سوال :
ٹائمز آف انڈیا نے یہ خبر لگائی تھی کہ وزرات داخلہ میں پی ایف آئی پر پابندی لگانے کیلئے ڈرافت تیا ر ہے ،ٹائمس ناﺅ نے بھی خبر چلائی تھی ،پورا معاملہ کیاہے ؟۔
یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے ،یہ اخبار کی اپنی رپوٹ تھی ،پابندی لگانے کیلئے ایک ذمہ دار حکومت ہونی چاہیئے ،تمام باشندوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہیئے ،ہر شہر ی کو اس کا حق دینا چاہیے ۔بی جے پی ،آر ایس ایس ،کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس سبھی کی حکومتوں سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ انصاف پسندی سے کام لے گی ۔اگر پی ایف آئی پر پابندی لگتی ہے تو انصاف کی خلاف وزری ہوگی ۔ہم پر جو الزامات لگارہے ہیںان پر خود اس طرح کے ان گنت الزامات ہیں اور وہ صرف الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔کیرالامیں ہم پر چار کیسز ہیں جبکہ بی جے پی نے بے شمار لوگوں کو قتل کیا ہے ،سی پی ایم نے بھی کیرالامیں بہت سارے لوگوں کو مارا ہے ، ایک آدمی کا ہاتھ کاٹنے کا ہم پر الزام ہے جو ایک لوکل ایشو ہے لیکن اسے انٹر نیشل ایشو بناکر پیش کیا جارہاہے ۔آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ گذشتہ ہفتہ آر ایس ایس نے ایک سی پی ایم لیڈر کا ہاتھ اور پاﺅں کاٹ دیا ہے لیکن اس کا کوئی چرچا نہیں ہے ۔
سوال :
حکومت اور آر ایس ایس آپ کے خلاف کیوں ہے ؟کیوں آپ پر پابندی لگانی کی بات کی جاتی ہے۔
جواب:
دراصل ہندتوافاششزم کے ہم خلاف ہیں ہندو ازم کے خلاف نہیں ہیں اس لئے وہ ہماری مخالفت کرتے ہیں،مسلمانوں کے درمیان ایک امید پیداکرنے،سیاسی اور سماجی شعور بیداکرنے میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے، جو انہیں برداشت نہیں ہے ۔جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے جو واقعات پیش آئے ہیں اس کا ہم کورٹ میں مقدمہ لڑرہے ہیں اس لئے ہم پر پابندی لگائی گئی ہے ۔
سوال :
جھارکھنڈ میں آپ پر پابندی لگانے کی خبر آپ کو کیسے ملی ،اطلاع دی گئی یا کوئی اشتہار جاری ہوا :
جواب:
حکومت کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں ملی ہے ،البتہ وزیر اعلی کی سرکاری ویب سائٹ پر یہ خبر تھی کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر جھارکھنڈ میں پابندی لگادی گئی ہے ،ہماری آفس پر بھی چھاپہ ماراگیا جہاں انہیں آدھار کارڈ اور پوسٹر کے علاوہ کچھ اور نہیں ملا ۔
سوال :
پی ایف آئی پر ایک صوبہ میں پابندی لگنا بہت بڑی بات ہے ،کیااس معاملے میں کسی مسلم لیڈر نے آپ سے اظہار یکجہتی کیاہے ،کسی مسلم تنظیم نے پریس ریلیز جاری کرکے یا میڈیا کا سہارالیکر اس واقعہ کی مذمت کی ہے ؟۔
جواب :
ایسا اب تک نہیں ہواہے ،کسی بھی مسلم تنظیم یا ملی قائد نے اس کی مذمت نہیں کی ہے اور نہ ہی ہم سے رابطہ کیاہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی نوٹس نہیں آئی ہے اس لئے وہ لوگ کچھ نہیں بول رہے ہیں ۔
سوال :
ایسا لگتاہے کہ ہندوستان کی پرانی تنظیموں اور پی ایف آئی کے درمیان کوئی خاص تال میل نہیں ہے ، ستمبر 2017میں آپ نے دہلی کے شاستر ی پارک میں ایک بہت بڑی کانفرنس کی تھی ،عوام کی بہت بڑی بھیڑ بھی جمع ہوگئی تھی لیکن وہاں کسی قدیم مسلم تنظیم کے نمائندہ نظر نہیں آئے ،آپ کے اشتہار میں بھی ان کا نام بھی نہیں تھا ایسا کیوں ؟کیا آپ نے انہیں مدعو نہیں کیاتھا یا انہوں نے آنے سے انکار کردیا تھا؟۔
ہم انہیں دعوت دیتے ہیں جو آتے ہیں،وہ عموما ہمارے پروگرا مس میں نہیں آتے ہیں، اس لئے حالیہ پروگرام میں ہم نے انہیں دعوت نہیں دی ۔ہم ماضی میں بار ہا تمام تنظیموں کو بلانے کی کوشش کرچکے ہیں ۔البتہ اس پروگرام میں بھی مشاورت کے سابق صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان آئے تھے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جہاں کپڑے کی بہت ساری دکان ہوتی ہے وہاں اگر کوئی نیا بچہ آکر دوکان لگاتا ہے تو کسی کو اس کا وجود گوار انہیں ہوتاہے وہی حال یہاں ہے ،قدیم تنظیموں کو پی ایف آئی کا وجود برداشت نہیں ہے کہ ہمارے رہتے ہوئے یہ لوگ کریں ۔
سوال:
پی ایف آئی بہت کم وقت میں ہندوستان بھر میں پھیل گئی ہے ،نوجوان بڑی تعداد میں جڑرہے ہیں، آپ کا اپنا یونیفارم بھی ہے، تو ایسی کیا کشش ہے اس تنظیم میں اور کیوں لوگ بڑی تعدادمیں جڑرہے ہیں اور جولوگ جڑنا چاہتے ہیں انہیں کیا کرناپڑے گا ۔
جواب :
آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا ایک مقصداور خواب ہے ،اسی کے تحت ہم کام کررہے ہیں،اس کیلئے ہم جان کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں،اس خواب کی تکمیل کیلئے ہم ہر وقت سوچتے ہیں۔ یہ رات کا نہیں بلکہ دن کا خواب ہے اور اسی کیلئے کوشش کررہے ہیں۔یہاں کوئی ایک آدمی نہیں ہے ،چیرمین کا مطلب نہیں ہے کہ و ہ بہت بڑا آدمی ہے ،ہم سب ملک کرکام کرتے ہیں،ہمار امانناہے سید القوم خادمہم ۔
سوال :
ملک کے حالات بہت خراب ہیں،خوف اورڈر کا ماحول ہے ایسے میں ملک کے نوجوانوںاور مسلمانوں کے نام آپ کا پیغام کیاہوگا ؟۔
جواب:ڈرو مت ۔ظلم کے ساتھ فاششزم کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہے ،ہٹلر کامیاب نہیںہوسکاتھا،ہماری حکومت ہٹلر کے نقش قدم پر گامزن ہے دوسری بات یہ کہ ہمیںکسی خوف اور ڈر کے بغیر ہمت و حوصلہ سے کام کرنا چاہیئے ۔یہ لنچنگ اور ہجومی تشدد کوئی بڑی چیز نہیں ہے ، ہمیں ہمیشہ شیہد ہونے کیلئے تیار رہنا چاہیئے ،ہماری نیت صحیح ہونی چاہیئے ۔
سوال :اس وقت ہم کرناٹک میں موجود ہیں ،یہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور ایس ڈی پی آئی بھی الیکشن لڑے گی ۔تو کیا آپ تنہا لڑیں گے ،یاکانگریس سے اتحاد کریں گے۔ایم آئی ایم بھی الیکشن لڑنے کی تیاری کررہی ہے ۔
جواب:
ایس ڈی پی آئی کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے تاہم ایس ڈی پی آئی یہاں الیکشن لڑے گی۔ ساتھ ہم بی جے پی کو ہرانے کی بھی ہر ممکن کوشش کریں گے ،یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ سیکولر طاقتوں کو فتح سے ہم کنار کرانا صرف ہم مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے ،موجودہ مرکزی حکومت جمہوریت او رسیکولرزم کو ختم کرناچاہتی ہے جس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑے گا ۔
سوال :
آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی مجلس عاملہ کے آپ رکن ہیں ،بابری مسجد کا مسئلہ عدلیہ سے باہر حل کرنے کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ،حیدر آباد کے اجلاس میں ایک سینئرنے رکن الگ موقف پیش کیا ہے۔ اس پورے قضیے میں پی ایف آئی کا موقف کیا ہے ۔
جواب :
آل انڈیامسلم پرسنل لاءبورڈ کا فیصلہ اصل ہے ،عدلیہ کے باہر کوئی حل نہیں نکل سکتاہے ، عدلیہ میں ملکیت کا معاملہ زیر سماعت ہے دوسری بات یہ کہ اصل مسئلہ بابری مسجدکا نہیں ہے، اس کے پیچھے ایک بہت بڑی سیاسی سازش ہے ،ہم نے اس آدمی کو بھی کہاکہ اس کے پیچھے بڑی پلاننگ ہے ،یہ فقہی مسئلہ بھی نہیں ہے اور نہ اس طرح کہکر غلط فہمی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن ہم اس سازش کو پہچان نہیں پارہے ہیںتو انہوں نے مجھے کہاکہ تم سیاسی میدان میں کام کرتے ہوتمہیں شریعت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں میں شریعت کا جانکار ہوں ،میں نے کہا”آپ دونوں میدان میں نہیں ہیں“