تاریخی غلطی سدھار نے کا موقع

قاسم سید
اس بات کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ ہم اکثریتی جمہوریت والے ملک میں رہتے ہیں جس کو سیکولرازم کے میک اپ میں چھپاکر رکھا گیا۔ یہ غلط فہمی بھی دور کرلینی چاہئے کہ اگر ملک میں جمہوریت باقی ہے اور اس کی سیکولر روح زخموں سے چور ہونے کے باجود زندہ ہے تو اس کی وجہ سیکولر پارٹیاں نہیں بلکہ آئین ہے۔ ایسا مضبو ط آئین جو ہر مظلوم محروم شخص کی ناقابلِ تسخیر پناہ گاہ ہے، اگرچہ اس پر شب خون مارنے کی کوششیں ہمیشہ جاری رہیں کیونکہ حکمراں طبقہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ اس کے طرزِ عمل پر انگلیاں اٹھائی جائیں۔ اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے اور اس کا احتساب کیاجائے، لیکن ہمارے آئین نے تمام آئینی اداروں کو اس طرح ایک دوسرے کے تئیں جوابدہ بنایا ہے کہ وہ دانت باہر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اندر کردئیے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو آئین کا نگراں بنادیا ہے کہ جو بھی اپنی حدوں سے تجاوز کرے اس کے نکیل ڈال دی جائے، یہی وجہ ہے کہ حکمراں طبقہ اور سپریم کورٹ کے درمیان کشیدگی بھرے تعلقات رہے ہیں۔ اس نے جمہوریت کی صحت کو برقرار رکھا ہے۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، وہ منہ مارنے سے باز نہیں آتی۔ پارلیمنٹ سب سے بالاتر ادارہ ہے لیکن سپریم کورٹ کو یہ فرض سونپا گیا ہے کہ وہ ہر اس ایکٹ اور قانون سازی کا جائزہ لیتا رہے جو مقننہ بنائے، اسے آئین کی کسوٹی پر پرکھے۔ صف کے آخری شخص کی اکلوتی اور آخری امید عدلیہ سے ہی وابستہ ہوتی ہے چنانچہ اب یہ بھی زد پر ہے۔
اکثریتی جمہوریت کا دوسرا مطلب جمہوری فاشزم یا جمہوری فسطائیت ہے اور ہر سیاسی پارٹی اس کی ترجمان ہے چونکہ ہندوستان کےخمیر میں خاندانی موروثیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، اس لئے سیاسی و مذہبی محاذ پر موجود مٹھوں کی سربراہی خاندانی نظام کی بنیاد پر قائم ہے۔ ہر قومی و علاقائی پارٹی خاندانی جمہوری بادشاہوں کے مفادات کی محافظ ہے۔ یہاں نام بتانےکی اور تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ذات پات کا نظام ہزاروں سال پرانا ہے اسے مذہبی چاشنی میں ڈبوکر سماج کے کمزور و مظلوم طبقات کے پیروں میں غلامی کی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں، انہوں نے اس کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول بھی کرلیا لیکن سماجی مصلح اس نظام کے خلاف بغاوت بلند کرتے رہے ۔ پیر یار سے امبیڈکر اور کانشی رام تک طویل فہرست ہے، انہوں نے سماجی حقوق دلانے کے لئے بیش قیمت قربانیاں دیں جس کے برگ و بار اب سامنے آرہے ہیں۔ 2 اپریل کو دلتوں کا بھارت بند اس کی طاقتور ترین علامت تھا۔ اس نے صرف برہمنی نظام کو ہی خوف زدہ نہیں کیا ہے بلکہ سیاسی پارٹیوں کے چہرے پر بھی خوف پڑھا جاسکتا ہے۔ اس بند کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر چلی مہم جس میں نوجوان دلت کارکنوں‘ دانشوروں اور نئی نسل کے ابھرتے خاموش لیڈروں کا اہم رول تھا۔ سڑکوں پر انسانی سروں کی فصل اگل دی گرچہ اس کو تشدد زدہ کرکے بند کا چہرہ مسخ کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن لوگ ہریانہ میں جاٹوں کی انارکی کو نہیں بھولے جہاں 36ہزار کروڑ کا نقصان ہوا تھا۔ وہ رام رحیم کی بغاوت کو فراموش نہیں کرپائے ہیں جس کی گرفتاری کے خلاف ہریانہ کو جلاکر رکھ دیا تھا۔ 30بیش قیمت جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ دلتوں کے یہ تیور ہزاروں سال کی دبی دہکتی ہوئی آگ میں تپ کر کندن ہوئے ہیں، جب وہ دیکھتے ہیں کہ گھوڑی پر چڑھنے کے جرم میں دلت نوجوان کا اعلی ذات والے قتل کردیتے ہیں، ان کی بہو بیٹیوں کو جب چاہتے ہیں گھر سے ‘کھیتوں سے اٹھاکر لے جاتے ہیں اور دل بھر جانے کے بعد پھینک دیتے ہیں۔ چار پائی پر بیٹھنے‘ ان کی گلی سے گزرنے اور جوتے و قمیص پہن کر ان کے محلوں سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے کنویں سے پانی نہیں بھرسکتے، ہوٹل میں چائے کے برتن الگ اور ان کو دھوکر رکھنا پڑتا ہے۔ مذہبی طور پر وہ شودر اور اچھوت ہیں جن کی جان، مال عزت و آبرو سب کچھ برہمن و اعلی ذاتوں کے لئے حلال ہے۔ اس نسلی نظام کے خلاف مزاحمت کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ دلت اپنی شناخت سے زیادہ سماجی عزت کے لئے لڑ رہا ہے کیونکہ وہ اتنے مظالم سہنے کے بعد بھی ہندو دھرم کے دائرے سے باہر نکل پانے میں ناکام ہے۔ بودھ دھرم وہ وقار اور مقام عطا نہیں کرتا جو سماجی وقار کو یقینی بنائے۔ کانشی رام کی قیادت میں دلتوں کی ترجیح اقتدار میں حصہ داری تھی مگر اب اس کا نظریہ بدل رہا ہے۔ ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ دلتوں میں شعوری سطح پر کتنا زبردست انقلاب آیا ہے، انہوں نے بھرپور تیاری کی ہے ان کے پاس ہر بات کا جواب ہے۔ رضا کاروں کی فوج ہے جو سنگھ کی طرح دن رات بغیر تنخواہ کے کام کر رہی ہے۔ سیاسی پارٹیاں دلتوں اور مسلمانوں کو چارے کے طور پر استعمال کرتی آئی ہیں۔ کوشش کی گئی کہ ان کی اپنی قیادت پیدا نہ ہو اگر ہو بھی گئی تو اسے خرید لیا، اپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ پارٹی میں کوئی عہدہ دے دیا مگر اختیارات نہیں دیئے پھر بھی کسی کی رگیں زیادہ تنی ہوئی نظر آئیں تو اس کی کردار کشی کرکے بے آبرو کر ڈالا۔ مسلم تنظیمیں ان کے لئے ٹول کا کام کرتی رہیں یا پھر ٹھیکیداری ۔ انہیں سرکار بننے پر اعلی عہدیداروں سے ملاقات کا موقع، کسی پروجیکٹ کی منظوری یا کسی قانون ساز ادارے میں نمائندگی دے کر پوری قوم کو خاموش رکھنے کا ٹینڈر طے کرلیا۔ یہ تماشہ دیکھتے دیکھتے دہائیاں گذر گئیں۔ سیاست کے انداز بدل گئے مگر ان کے طور طریقے نہیں بدلے۔
اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ شناخت اور حقوق کی بازیابی پر اصرار ہے۔ حکمراں طبقہ ملک کی آبادی میں معمولی فیصد رکھنے کے باوجود اقتدار کے دو تہائی اداروں پر قابض ہے۔ جب بھی دلت نے مزاحمت کی اس کے لیڈر خریدے گئے، پاسوان اور اٹھاؤلے تو حال کی مثال ہی ہیں۔ امبیڈکر کے پوتے سڑکوں پر دھکے کھانے پر مجبور ہیں اور نقلی گاندھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ سماج کے محروم طبقات دلت‘ آدیباسی اور اقلیتیں آخر جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد میں کیوں ہیں۔ ان کی نمائندگی قانون ساز اداروں میں لگاتار گھٹتی کیوں جارہی ہے، اس لئے کہ سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ووٹ بے اثر کردیا اور دلتوں کو گیند کی طرح ادھر سے ادھر اچھالتے رہے۔ ملک کی 20 فیصد آبای کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ چھچھوندر ہونے کے باوجود وہ چونکہ ہندو ہیں اس لئے ان کے نخرے قابل برداشت ہیں مگر مسلمان کسی قیمت پر اپنی شناخت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اس لئے وہ دہشت گرد ‘ دیش دروہی‘ پاکستانی‘ آئی ایس آئی کے ایجنٹ اور پاکستانی دلال کہے جاتے ہیں۔ یہ الزامات نئے نہیں صرف شکلیں بدل گئی ہیں۔ پوٹو‘ پوٹا‘ ٹاڈا اور یو اے پی اے’ غداروں‘ کو سبق سکھانے کے لئے ہی بنائے گئے یعنی اس ملک میں محب وطن صرف برسراقتدار طبقہ ہے جو اسٹیٹ کی پاور سے ساز باز کرکے مظلوم و کمزور طبقات کا جینا حرام کئے ہوئے ہے۔ جیسے جیسے ان طبقات کا الائنس بڑھے گا نفرت و جنون کی آگ بھڑکتی جائے گی کیونکہ یہ طبقہ اقتدار میں ٹکڑے پھینکنے کو تیار ہے، برابر کی حصہ داری دینے کے لئے نہیں۔ اس کے سوا سب لوگ مشتبہ اور اسٹیٹ کے غدار ہیں۔ 90 کے بعد ملک کے مزاج میں بڑی تبدیلی آئی ہے، جارحیت کی تیزابیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس آگ میں میڈیا نے گھی ڈالا ہے۔ پہلے یہ کمیونٹی سنجیدہ اور دانشوری کے لئے معروف تھی، اب لپمٹ بازار میں بدل گئی ۔ہر کیمرا پکڑنے والا جرنلسٹ اور اینکر پروچن وادی ہوگیا ہے۔ راشٹر واد نے اسٹیٹ اسپانسر ڈکلنگ کا جواز فراہم کردیا۔ ہندوتو آئیڈیا لوجی میں وکاس کہیں گم ہوگیا۔ کھلنائک کو نائیک بنانا فیشن ‘چور‘ اچکوں‘ لفنگوں کو مذہبی و سیاسی لبادہ پہن کر محترم و مقدس بنایا جارہا ہے۔ باباؤں کو وزیر مملکت کا درجہ دینا اس کا ایک حصہ ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا سیکشن فرقہ وارانہ نسلی منافرت کی مارکیٹنگ کرکے اپنا بینک بیلنس بڑھا رہا ہے۔ تلوار اور بھگوا رنگ کے ساتھ ہندوتو کا نیا اوتار ارجت چوبے اور شمبھولال بن گئے ہیں۔ یہ وہ ہندوتو ہے جو مسلم دشمن‘ عورت دشمن اور دلت دشمن ہے۔ ششی تھرور نے کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ ہندو اسپیس کیوں چھوڑا جائے، چنانچہ کانگریس بی جے پی کی یہ زمین چھیننےکے لئے جینو دھاری ہندو بن گئی ہے۔ یہ لڑائی کہاں جاکر ختم ہوگی فی الحال کہنا مشکل ہے۔ مظلوم طبقات کے درمیان مفاہمت موجودہ حالات میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی سب سے بہترین حکمت عملی ہے۔ ہم مظلوم بن کر کب تک دوسروں کے رحم و کرم کی بھیک پر گذارا کریں گے۔ دوسرے مظلوم کے ساتھ کھڑے نظرآنا وقت کا تقاضہ ہے ، ہمارے بزرگوں نے اس محاذ کو خالی چھوڑ دیا۔ اس کا کفارہ ادا کرنے کا وقت ہے۔ اگر ہم نے اس کو محسوس نہیں کیا تو حقوق کی جنگ میں تنہا نظر آئیں گے۔ ایک دلت لیڈر نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی تب کسی کا ساتھ ملے گا۔ دلتوں کی سماجی حقوق اور ہماری مذہبی شناخت کے تحفظ کی لڑائی مل کر لڑی جانی چاہئے۔ تاریخی غلطی سدھارنے کا اس سے بہتر وقت نہیں ہے ۔۔۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں