مسلم خواتین کا ملک گیر احتجاج !

یہ سب جانتے ہوئے بھی حکومت اگر بل واپس نہیں لیتی ہے اور راجیہ سبھا سے پاس کراتی ہے ،پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرتی ہے یا پھر آرڈینینس لاکر قانونی شکل دینے کی کوشش کرتی ہے تو اسے ظالمانہ قانون اور غیر جمہوری اقدام کہاجائے گا کیوں کہ ایک جمہوری ملک میں جمہوری انداز سے اپنا حق حاصل کرنے کیلئے جوکوششیں کی جاسکتی تھیں بورڈ نے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔

خبر درخبر۔(556)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں مسلم خواتین کا احتجاج کرنا ۔برقع پوش عورتوں کاسڑکوں پر نکلنا ۔مظاہر ہ کرنا ۔نعرہ لگانا اور حکومت وقت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے لیکن 2018 کو اس حوالے سے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا کہ جس معاشرہ میں خواتین گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی ہیں،سڑکوں پر نکلنامعیوب سمجھاجاتاہے ۔جنہیں گھر میں ہمہ وقت رہنے میںہی سکون محسوس ہوتاہے انہوں نے اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکل کرمظاہر ہ کیا ۔شریعت میں مداخلت کے خلاف متحدہوکر آواز بلند کی ۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے روکنے والوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بے دریغ قربانیاں دیں اور اپنے قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حوا کی بیٹیاں ارباب اقتدار تک یہ آواز پہونچانے میں پیش پیش رہیں کہ ہم اپنی شریعت میں کسی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتے ہیں ۔اسلامی نظام کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہمارے لئے آئیڈیل نہیں بن سکتاہے ۔کسی اور کی ہم پیروی نہیں کرسکتے ہیں ۔اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں اس کی کہیںاور نظیر نہیں مل سکتی ہے ۔ خواتین سے ہمدردی کے نام پر جو مسلم وویمن میرج پروٹیکشن بل 2017 جولو ک سبھا سے پاس کیا گیاہے وہ بنیادی حقوق،مساوات اور انصاف کے خلاف ہے ۔
مسلم خواتین نے اسی جذبہ ،شوق اورلگن کے ساتھ کشمیر سے لیکر کنیاکماری اور آسام سے لیکر گجرات تک سڑکوں پر نکل احتجاج کیا ۔جنوری سے 4اپریل2018 کے درمیان دو سو سے زائد خواتین کے مظاہرے ہوئے ہیں۔دہلی ۔ممبئی ۔لکھنو ۔کولکاتا۔چننئی ۔جے پور ۔پٹنہ۔پونے ۔اورنگ آباد جیسے بڑے بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے شہروں میں منظم طریقہ سے احتجاج کیا گیاہے ۔ ڈی ایم اور گورنر کو صدر جمہوریہ کے نام میمورنڈم دیاگیا ۔ان میں کئی مظاہرے ایسے تھے جس میں ایک لاکھ سے زائد خواتین شریک تھیں ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے مطابق تمام مظاہروں میں دوکروڑ سے زائد خواتین نے شرکت کی ہے ۔سب سے اخیر میں دہلی کی سرزمین پر ہونے والااحتجاج بھی انتہائی تاریخی اور کامیاب رہاجس میں تقریبا پچاس ہزار خواتین نے شرکت کی اور قومی راجدھانی میں اب تک کا یہ سب سے بڑا خواتین کا احتجاج ثابت ہوا ۔خواتین کے احتجاج کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ کہیں سے بھی کسی طرح کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ۔
خواتین کے احتجاج کا یہ سلسلہ اب بورڈ کی طرف سے ہدایت جاری کرکے بند کردیاگیاہے ۔4 اپریل کو دہلی میں ہونے والااحتجاج آخری تھا لیکن اس پر اعتراضات بھی خوب کئے گئے ۔کئی ایسے لوگ بھی اس کے خلاف تھے جوبورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن ہیں ۔خواتین کے پردہ اور برقع کا حوالہ دیکر دسیوں مضامین بھی لکھے گئے ۔سوشل میڈیا پر بھی اس کی تنقید کی گئی ۔پارک ۔ریسٹورینٹ اور دیگر عوامی مقامات پر اپنی بیگم اور بیٹیوں کے ساتھ گھومنے والے بھی خواتین کی بے حرمتی اور پردہ کا حوالہ دیکر اس کی مخالفت کرتے نظر آئے لیکن معزز خواتین نے عزم وہمت اور صبروحوصلہ سے کام لیتے ہوئے اس مشن کو جاری رکھا ۔ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی اور دوسو سے زائد مقامات پر خواتین نے احتجاج کرکے نام نہاد میڈیا ۔دانشوران ۔لبرل سوچ کے حامل افراد او رحکومت کے سامنے یہ ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کرلی کہ ہندوستان کی مسلم خواتین طلاق بل کے شدید خلاف ہے ۔مودی سرکار کے اقدام سے ذرہ برابر بھی انہیں اتفاق نہیں ہے ۔اس بل میں صرف ان دس خواتین کی رضامند ی شامل ہے جن میں سے بعض نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاتھا اور بعض سرکاری مشنری کاحصہ ہیں۔
جہاں تک اعتراض خواتین کے احتجاج کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے پر ہے تو یہ بیجا ہے ۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہر دور میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ سماجی اور ملی کارنامہ انجام دیا ہے ۔دورنبوت میں ایسی دسیوں مثالیں ملتی ہے جہاں خواتین نے جنگوں میں اپنی شجاعت وبہادری کا ثبوت پیش کیاہے ۔بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت ام عمارہ مشک میں پانی بھر کرغزوہ احد میںمجاہدین کو پلا رہی تھیںلیکن جب مسلمانوں کے پاو¿ں اکھڑ گئے تووہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں۔حضرت ام عمار احد کے بعد بیعت رضوان،خیبر اور فتح مکہ میں بھی شریک ہوئیں۔حضرت ابو بکر کے دور میں جو جنگ یمامہ جھوٹ مدعیان نبوت مسلمہ کذاب سے ہوئی اس میں اپنے بیٹے کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئیں اور اس پا مردی سے مقابلہ کیا کہ بارہ زخم آئے اور ایک ہاتھ کٹ گیا۔ غزوہ احد میں ام المو¿منین حضرت عائشہ اپنے ہاتھ سے مشک بھر بھر کر زخمی سپاہیوں کو پانی پلاتی تھیں انکے ساتھ ام سلیم،ام سلیط دو اور صحابیہ بھی اس خدمت میں شامل تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ نے غزوہ خندق میں نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک یہودی کی گردن اتاردی کیوں کہ وہ مستورات کے قلعے میں داخل ہوگیاتھا،یہ دیکھ کر کسی اور کو اس قلعے کی طرف آنے کی جرات نہیں ہوئی۔جنگ یرموک میںجب مسلمانوں کی چالیس ہزار افواج کا سامنا رومیوں کے دولاکھ کے لشکر سے ہواتو عیساﺅں کے زور دار حملوں سے خوف زدہ ہوکرلخم و جذام کے قبیلے بھاگنے لگے اور رومی تعاقب کرتے ہوئے مسلم عورتوں تک پہنچ گئے ۔جس سے عورتوں کے غصے کی انتہا نہ رہی،وہ فورا خیموں سے باہر آئیں اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کا سیلاب رک گیا۔حضرت معاویہ کی ماں مردوں کو مخاطب کر کے کہتی تھیں۔یا معشر العرب عضروالغلفان بسیوفکم“عربو!عربو نا مرد بن جاو¿ نا مرد”۔ضرار بن ازور کی بہن خولہ یہ شعر پڑھ کر مسلمانوں کو غیرت دلا رہی تھیں”اے پاک دامن عورتوں کو چ کرو۔ ڈرکر بھاگنے والو تم موت اور تیر کے نشانہ نہ بنو۔

یہ دور نبوت اور خلافت راشدہ کے چند واقعات ہیں ۔اس کے علاوہ ادوار میں بھی ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جہاں خواتین نے ضرورت پڑنے پر تلوار اٹھایا ہے ۔ صنف نازک کے نام پر چھپنے کے بجائے دشمنوں کا کھل کر مقابلہ کیا ہے ۔ طلاق بل کے خلاف احتجاج کیلئے خواتین کاسڑکوں پر آنا بھی ایک ضرورت تھی اور مصلحت تھی۔حکومت اور میڈیا کے ذریعہ مردوں کے احتجاج کو یہ کہکر مسترد کردیاگیاتھاکہ مسلما ن مردو عورتوں پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کیلئے طلاق بل کی مخالفت کررہے ہیں اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے خواتین کو سڑکوں پر اتار نے کا فیصلہ کیا۔بورڈ کی یہ مہم اپنے مقصد میں کامیاب رہی ۔ خواتین نے باپردہ اور برقع پوش ہوکر خاموش احتجاج درج کرایا ۔شوق ،جذبہ اورجنون ملک کے بڑشے شہروں کے ساتھ قصبہ اور دیہات میں بھی دیکھنے کو ملا ۔مین اسٹریم میڈیا نے ہر ممکن نظر انداز کرنے کی کوشش لیکن اس کے باوجود انہیں اسے اپنے یہاں کچھ جگہ دینی پڑی ۔
خواتین کی اس کامیاب مہم کا سہر ا آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی قیادت ،اس کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی ۔ خواتین ونگ کی سربراہ ڈاکٹر اسماءزہر ااور ان کی پوری ٹیم کو براہ راست جاتاہے جن سب کی وجہ سے ہندوستان میں ایک نئے احتجاج کی بنیاد پڑی ہے۔دسیوں خواتین کی صلاحیت نکھر کر سامنے آئی ہے اوراب ضرورت پڑنے پر اصلاح معاشرہ اور دیگر شعبوں میں ان سے کام لیاجاسکتاہے بلکہ بہتر ہوگا کہ اپنے علاقہ اور سوسائٹی میں خواتین کے درمیان اصلاح معاشرہ ،تعلیمی بیداری اور اس طر ح کی دیگر مہم جاری رہنی چاہیئے ۔
جہاںتک ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کیا کہ حکومت اب طلاق بل واپس لے لیگی ؟تو ایک الگ مسئلہ ہے ۔مسلم خواتین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے یہ ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ تمام مسلمان مردوخواتین اس بل کے خلاف ہیں ۔یہ سب جانتے ہوئے بھی حکومت اگر بل واپس نہیں لیتی ہے اور راجیہ سبھا سے پاس کراتی ہے ،پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرتی ہے یا پھر آرڈینینس لاکر قانونی شکل دینے کی کوشش کرتی ہے تو اس ظالمانہ قانون اور غیر جمہوری اقدام کہاجائے گا کیوں کہ ایک جمہوری ملک میں جمہوری انداز سے اپنا حق حاصل کرنے کیلئے جوکوششیں کی جاسکتی تھیں بورڈ نے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔
stqasmi@gmail.com