مودی سرکار کی خواتین سے ہمدردی: حقیقت یا فریب؟

سر دیوار : نزہت جہاں
ہندوستان آبادی کے اعتبار دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے ۔مسائل ، غربت ، بے روزگار ی اور بدترین نظام کے حوالے سے بھی یہ سر فہرست ہے۔ آزادی کے ستر سالوں میں حکمرانوں نے بنیادی مسائل پر توجہ دینے اور عوام کو خوشحال بنانے کے بجائے ہمیشہ اقتدار میں بنے رہنے اور اسے بر قرار رکھنے کی ممکنہ صورتوں پر توجہ دی ہے۔ آج ہمارا یہ ملک سماجی ، تعلیمی، اقتصادی ،معاشرتی اور دیگر تمام محاذ پر پسماندگی کا شکار ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ بعض معاملوں میں نیپال ،بنگلہ دیش اور پاکستان کی صورت حال ہم سے بہتر ہے ۔ملک کی خستہ حالی ،عوام کی پریشانی اور بڑھتے مسائل کیلئے وہ پارٹیاں براہ راست ذمہ دار ہیں جنہوں نے یہاں حکومت کی ہے اور جذباتی بنیادوں پر جنتا کا استحصال کیاہے ۔کانگریس ۔ بی جے پی دونوں کی شبیہ اس معاملے میں یکساں ہے ۔کانگریس نے بھی اقتدار برقرار رکھنے کیلئے مذہب کی بنیاد پر سیاست کی ،ہندﺅوں کا خوف ڈلاکر مسلمانوں کا ووٹ لیا بدلے میں انہیں کچھ نہیں دیا ۔بی جے پی نے اس کے برعکس راہ اختیار کرکے ہندﺅوں کو مسلمانوں سے ڈرانے کی سیاست شروع کی ۔اسلامی شریعت میں مداخلت کا راستہ اختیار کیا ۔رام مندر کی تعمیر کا خواب دکھلایا، مسلمانوں سے سوتیلا رویہ اپنانے کا وعدہ کیا اور اس طرح ہندﺅوں کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔
مرکز میں بی جے پی حکومت کو چار مکمل ہورہے ہیں،2014 میں وزیر اعظم نرنیدر مودی نے عوام کو بڑے بڑے خوا ب دکھلائے تھے ،ہندوستان کو پیرس بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن چار سال بعد تجزیہ نگار صاف لفظوں میں یہ لکھ رہے ہیں کہ ان کے تمام وعدے جملے ثابت ہوئے ہیں ،اس پوری مدت میں انہوں نے دو کام کیاہے اور دونوںمیں خواتین سے ہمدردی کا مبینہ دعوی کیاگیا ہے۔ ایک کام انہوں نے ٹوائلٹ بنانے کا کیا ہے جس کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ کہ بیت الخلاء کی تعمیر سے خواتین کی عصمت محفوظ ہوئی ہے جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے۔ انہیں کی پارٹی کے ایم ایل اے یوپی میں ایک معصوم لڑکی عصمت تار تار کرکے اس کے باپ کو بھی مروا چکے ہیں، شدید دباﺅ اور میڈیا کے ہنگامہ کے بعد گذشتہ شب گرفتاری کی خبر سامنے آئی ہے۔ کشمیر کے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ دلوں کو جھنجھوڑ دینے والا واقعہ پیش آیاہے جس کی مثال شاید کبھی نہ ملے ۔ایک بچی کا اغوا کرکے ہفتہ بھر ریپ کیا گیا ،مندر میں اجتماعی عصمت دری کی گئی اور پھر قتل کرکے پھینک دیاگیا اور اب جب رپوٹ نے مجرموں کو بے نقاب کردیا ہے تو بی جے پی حکومت ان کی حمایت کررہی ہے ،زانیوں اور قاتلوں کی دفاع میں نکالی جارہی ریلیوں میں بی جے پی کے وزراء شرکت کررہے ہیں ۔آخر یہ کون سی ہمدردی ہے خواتین کے ساتھ ۔اس سے قبل انہیں کی پارٹی کے ایک لیڈر کے بیٹے نے ایک آئی اے ایس افسر کی بیٹی کے ساتھ چھیڑ خوانی کی تھی لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی ،اس طرح کے دسیوں واقعات ہیں ۔مودی صاحب دعوی کررہے ہیں کہ ہماری حکوت میں خواتین کی عصمت محفوظ ہوئی جبکہ زمینی سچائی یہ ہے کہ انہیں کے لیڈران خواتین کی عصمت تار تار کرنے میں لگے ہیں ۔
دوسرا کام مسلم وویمن میرج پروٹیکشن بل 2017 ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی لیڈران کا دعوی ہے کہ یہ بل مسلم خواتین سے ہمدردی کے پیش نظر لایا گیاہے ۔مسلم مردوں کی اجارہ ختم ہوجائے گی ،مسلم عورتیں بااختیار بن جائیں گی ۔انہیں کسی طرح کے تشدد اور مسائل کا سامنانہیں کرنا پڑے گا ۔ جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے یہ بل مسلم خواتین کے خلاف ایک سازش ہے ۔ان کی زندگی تباہ و برباد کرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔اس بل کے نفاذ کے بعد ایک مسلم عورت کی زندگی مطلقہ خاتون سے زیادہ بدتر ہوگی ۔اس کے پاس زندگی سے مایوس ہوکر خودکشی کرنے کے علاوہ کوئی چار نہیں ہوگا کیوں کہ اس بل میں ایک طرف طلاق کو واقع قرار نہ دیکر عورت کی دوسری شادی کا راستہ روک دیاگیا ہے ۔دوسری جانب شوہر جیل میں ہے ،واپسی کے بعد رشتے کے بہتر ہونے کی امید نہیں ہے ،سسرال والوں اور رشتہ داروں کی اذیت ،طعنے برداشت کرنا مستقل ایک مسئلہ ہوگا ۔ان سب باتوں کی ساتھ متعدد طرح کی خامیاں ہیں ،تفصیلات دنیا کے سامنے آچکی ہے ۔اس میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ بل شریعت کے خلاف ہے ۔اسلامی نظام چھین کر ایک کفریہ نظام پر عمل کرنے کیلئے مجبور کرنا ہے جو مسلمان مرد و خواتین کو کبھی بھی منظور نہیں ہوسکتاہے ۔
حکومت اپنے دعوی کے مطابق یہ بل مسلم خواتین سے ہمدردی کی بنیاد پر لائی ہے ،28دسمبر 2017 میں لوک سبھا سے پاس بھی ہوچکاہے ،راجیہ سبھا میں زیر التوا ہے لیکن مسلم عوام نے اسے یکطرفہ طور پر مسترد کردیا ہے ۔یہ بل انہیں کسی بھی حال میں منظور نہیں ہے۔ برقع پوش خواتین نے سڑکوں پر نکل کر اس کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے ۔ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے جب ملک کے دوسو چھوٹے بڑے شہروں میں مذہبی اور برقع پوش خواتین نے سڑکوں پر نکل کر حکومت سے یہ بل واپس لینے کی اپیل کی ہے ،شریعت کے مطابق زنذگی گزارنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔مودی سرکار جسے ہمدردی بتارہی ہے اسے انہوں نے اپنے خلاف سازش بتاتے ہوئے مستر د کردیا ہے ۔تیز دھوپ اور سڑکوں پر نکل ہماری بہنوں نے واضح انداز میں کہاہے کہ ہم اپنی شریعت سے خوش ہیں ،اسلامی نظام کے علاوہ کوئی اور سسٹم ہمیں عزت اور مکمل حق نہیں دے سکتاہے اور نہ کسی سماج میں اسلام جتنا عورتوں کو حق دیا گیا ہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہدایت پر ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ ملک کی خواتین بیدار ہیں، انہیں حالات کی نزاکت کا مکمل احساس ہے ،شریعت میں مداخلت یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتی ہیں اور نہ ہی اپنے حقوق کی جنگ لڑنے اور تحفظ شریعت کی خاطر میدان میں آنے سے مردوں کے مقابلے میں یہ کبھی پیچھے رہی ہیں، دور نبوت اور صحابہ کرام کے زمانے میں بھی خواتین اسلام نے نمایاں کارنامے انجا م دیئے ہیں، جنگوں میں حصہ لیکر دشمنوں کے ڈانٹ کھٹے کئے ہیں۔ شمس الدین التمش نے اپنا جانشیں کسی بیٹا کے بجائے بیٹی رضیہ سلطان کو ہی بنایا تھا جس کا شمار ہندوستان کے کامیاب ترین حکمرانوں میں ہوتاہے ۔آج بھی ہندوستان میں جب ضرورت پڑی ہے تو مسلم خواتین بے جھجھک ریلیوں میں حصہ لیکر اپنی غیرت ،دینی حمیت اور بیداری کا ثبوت پیش کیا ہے ۔شروع کے دنوں میں جب میں نے حیدر آباد اور دہلی میں کچھ مسلم خواتین کے احتجاج کی خبریں پڑھی تھیں تو یہ اندازہ نہیں ہوسکاتھا کہ یہ تحریک اتنی کامیاب ہوپائے گی اور لاکھوں عورتیں نکل جائیں گی لیکن گذشتہ دوماہ کے دوران میرا ندازہ غلط ثابت ہوا اور لاکھوں خواتین نے ملک کے دوسو شہروں میں احتجاج کرکے حکومت کو یہ بتادیاہے کہ ہم شریعت کے ساتھ ہیں ۔طلاق بل ہمارے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں ۔
بورڈ کی قیادت کا یہ اقدام قابل ستاش ہے ،بھلے ہی خواتین کے احتجاج کا یہ سلسلہ 4اپریل کے بعد بند کردیا گیا ہے لیکن اس کے اثرات دورس ثابت ہوں گے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضرروی ہے کہ مردوں میں اصلاح معاشرہ کی تحریک چلائی جائے ،انہیں بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کا پابند بنایاجائے اور یہ بتایاجائے کہ اسلام کا مزاج کیا ہے ۔اسلام کے مطابق ازدواجی زندگی کتنی خوبصورت گزرتی ہیں۔ احتجاج میں شریک خواتین کو اپنے اوپر بھی توجہ دینی ہوگی ،مسلم فیملی کو سب سے زیادہ پریشانیاں اپنوں سے جھیلنی پڑتی ہے۔ بہو پر ساس کا عتاب ناقابل برداشت ہوتاہے جسے پر ہمارے معاشرے کی خواتین کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
گفتگو مودی سرکارسے شروع ہوئی تھی اور بات طلاق پر پہونچ گئی۔ سچائی بھی یہی ہے کہ اس حکومت کے چارسالوں میں طلاق کا لفظ ہی سب سے زیادہ موضوع بحث رہاہے ،مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردی بی جے پی سرکار ایشورہی ہے۔ میڈیا نے بھی سچ دکھانے کے بجائے ہمیشہ ان چند خواتین کو دکھلایا جو حکومت کی مشنری کا حصہ بن کرکام کرتی ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلم خواتین پر بے انتہا ظلم ہوتاہے ۔شریعت اور اسلام میں مداخلت کی بات کی گئی ۔بنیادی ایشوز پر توجہ دینے اور ترقیاتی ایجنڈہ کو نافذ کرنے کے بجائے مسلمان او ر شریعت کی بات کی گئی ۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کا احساس یہ ہوچکاہے کہ مودی سرکار میں اسلام خطرے میں ہے ،شریعت پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے ،دین بچاﺅ دیش بچاوکی تحریک بھی شروع ہوگئی ہے ، خدا نہ کرے ہندوستان میں ایسے حالات کبھی آئے لیکن بیدار اور چوکنا رہنا ضروری ہے اور جو مستقل کے خطرات کو بھانپتے ہوئے اگر ہمارے ملک میں کوئی مہم چل رہی ہے تو ہمیں اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیئے ۔
(نگار بہار تعلیمی مرکز پٹنہ کی نائب صدر ہیں)
nuzhatjahanm@gmail.com