داعش کے بعد عراق میں پارلیمانی انتخاب 

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی

عراق کبھی دنیا کا خوشحال ،ترقی یافتہ،آزاد ، خود مختار اور طاقتور ملک تھالیکن آج وہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکاہے ،ہرطرف تباہی بربادی کی تصویر عیاں ہے ۔1980کی دہائی میں ایران ۔عراق طویل جنگ میں دس لاکھ عوام کی جان گئی ،دولت کا بے تحاشا ضیاع ہوا ۔90 کی دہائی میں عراق کی کویت کے خلاف جنگ 

میں لاکھوں کا اثاثہ بردباد ہوا ۔2003 میں امریکہ نے براہ راست عراق پر قبضہ کرکے اسے تباہی کے آخری دہانے پر پہونچادیا ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے یہ کہکر اعتماد میں لینے کی کوشش کی کہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں لیکن سلامتی کونسل نے حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد امریکہ نے اپنی مرضی سے عراق پر خوفناک بمباری شروع کردی ۔کئی ہفتوں کی شدید تباہی کی بعد امریکہ اور برطانیہ کی زمینی افواج عراق میں داخل ہوگئیں ۔عوام کا قتل عام شروع ہوگیا ۔سنی مسلمانوں کو یکطرفہ نشانہ بنایاگیا ۔صدر صدام حسین کو امریکی کی ماتحتی میں قائم ایک عدالت کے ذریعہ پھانسی کی سزا تجویز کرکے 2006 میں عین عید الاضحی کے دن تختہ دار پر لٹکا دیاگیا ۔سینکڑوں مکانات تباہ و برباد کردیئے گئے ۔15 لاکھ سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی رپوٹ کے مطابق 2003 سے 2011 کے درمیان امریکی جنگ میں 3 ملین مسلمان اپنا گھر بارے چھوڑ کر بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔خوشحال ملک کو تباہ وبرباد کردینے کے بعد امریکہ نے خودی ہی اعتراف بھی کرلیاکہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیارنہیں تھے ۔

امریکی حملوں میں عراق کی تباہی کے فورا بعد 2013 میں عسکریت پسند گروپ داعش کا ظہور ہوا جس کا پورا نام دولتہ الاسلام فی العراق والشام ہے ۔اس عسکری گروپ کے نام پر عراق اور شام کی نئی بربادی کا آغاز ہوا ۔داعش کے حملہ میں موصل ،الرقہ جیسے کئی تاریخی شہر ملبے میں تبدیل ہوگئے ۔12 لاکھ سے زائد سنی مسلمان بے گھر ہوہوئے ۔لاکھوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔25 لاکھ سے زائد ہجرت کرکے دیار غیر میں پناہ لینے پر مجبور ہیں ۔داعش کو ختم کرنے کیلئے 60 ملکوں کا فوجی اتحاد تشکیل دیاگیا جس میں چالیس ممالک کی افواج براہ راست شریک تھی ۔لیکن داعش کی طاقت کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی ۔امریکہ ،برطانیہ اور فرانس جیسے کئی ممالک کے مشترکہ فوجی آپریشن کے باوجود داعش کی ترقی ہوتی رہی ۔اس کے خلاف جنگ لڑنے والے ممالک پر ہی روس نے اس کی پشت پناہی کا الزام بھی لگایا ۔داعشی دہشت گردوں کے پاس سے متعدد مرتبہ ایسے ہتھیار بر آمد ہوئے جس پر اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی کا لیبل چسپا ں تھا،داعش کے بارے میں دنیا بھر کے ریسرچ اسکالرس ، محقیقن ،سیاست دانوں اور صحافیوں نے تحقیق کی ،ہزاروں طرح کی باتیں کی لیکن کسی نے اس جانب رہنمائی نہیں کی داعش کو ہتھیارکو ن فراہم کررہاہے ۔کہاں یہ دہشت گروپ جدید ترین اسلحہ حاصل کررہاہے ۔عراق افوج سے زیادہ اہم ہتھیار اسے کون دے رہاہے ۔

2017 میں اچانک یہ اعلان ہواکہ داعش کا وجود ختم ہوچکاہے ۔ابوبکر بغدادی اور کئی اہم دہشت گردمارے جاچکے ہیں ۔موصل ،الرقہ سمیت تمام شہر اس کے قبضہ سے آزاد کرالئے گئے ہیں ۔حالاں کہ داعش کے سربراہ ابو بکر البغداد ی کی موت کے بارے میں اب تک متضاد خبریں آرہی ہیں ۔ کبھی بغداد ی کے زندہ ہونے کی تو کبھی ہلاک کئے جانے کی ۔ممکن ہے سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی طرح ٹرمپ یا کوئی اور صدر ابو بکر البغداد ی کی بھی موت پر سیاست کرے۔کچھ سالوں بعد ایک اور آپریشن کے ذریعہ اس کی موت کا اعلان کرے جیساکہ2011 میں اسامہ بن لادن کے معاملے میں کیاگیا۔

 صدام حسین کی شہادت کے بعد پہلی مرتبہ 2005 میں عراق میں پارلیمانی انتخاباب کا انعقاد عمل میںآیاتھا۔ اسلامک دعوی پارٹی کی اس انتخاب میں حکومت بنی ۔ ابراہیم الجعفری وزیر اعظم بنائے گے ۔امریکہ کی نگرانی میں عراق کا نیاد ستور مرتب کیاگیا ۔ آج عراق میں وہی آئین نافذ ہے ۔داعش کے خاتمہ کے بعد عراق میں پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد گزشتہ 12 مئی کو عمل میں آیاہے ۔اس انتخابات پرمغربی میڈیا کی خصوصی نظر تھی حالاں کہ پاکستان اور ہندوستان کی میڈیا نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔ اردو اخبارات میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں تھا ،مغرب میں اس انتخاب کو اس وجہ سے اہمیت کی نظر سے دیکھاگیاکہ داعش کے خاتمہ کے بعد یہ وہاں کا پہلا انتخاب تھا ۔بعض حلقوں سے یہ بھی کہاگیا کہ یہ انتخاب امریکی تسلط سے آزاد تھا، ایران کی مداخلت زیادہ تھی ۔15 مئی کو آنے والے نتیجہ سے بھی یہی ثابت ہورہاہے کہ حالیہ انتخاب میں امریکی مداخلت سے زیادہ ایرانی مداخلت کار فرما رہی ہے ۔جیتنے والے لیڈر مقتدا الصدر اور ان کی پارٹی سیرون اتحاد کا ایران سے گہراتعلق ہے ممکن ہے امریکہ سے بھی ان کے گہرے تعلقات ہوں ۔ ایران ۔امریکہ دوستی ایسے بھی دنیا کی نظر میں ایک معمہ ہے۔یہ دونوں ملکوں ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں لیکن دونوں کے مفاد ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ ہادی علی کی فتح پارٹی دوسرے نمبر پر ہے جبکہ موجودہ وزیر عظم حیدر العبادی تیسرے نمبر پر آگئے ہیں ۔انتخابی مہم کے دوران کہاجارہاتھاکہ 2006 سے 2014 تک وزیر اعظم رہنے والے نو ر المالکی کی دوبارہ واپسی ہوسکتی ہے لیکن نتیجہ آنے کے بعد یہ قیاس غلط ثابت ہواہے ۔ووٹ کی شرح نے بھی واضح کردیا ہے کہ اس انتخاب میں عوام نے زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی ۔عراق الیکشن کمیشن کے مطابق صرف 32 فیصد ووٹ ڈالے گئے جو انتہائی کم ہیں ۔ 

الجزیرہ کی رپوٹ کے مطابق عراق میں کل 39 ملین کی آبادی ہے۔18صوبوں پر مشتمل عراق میں329 پارلیمانی سیٹ ہے جس میں 25 فیصد یعنی 83 سیٹیں خواتین کیلئے ریضر ب ہیں۔9 سیٹں اقلیتوں کیلئے مختص ہیںجن میں پانچ عیسائیوں کیلئے ایک یزیدی کیلئے ،ایک شبک کیلئے اور ایک فیلی کردوں کیلئے۔بقیہ 237 سیٹں جنرل ہیں۔ان تمام سیٹوں کیلئے 87 سے پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے 6990 امیدوار قسمت آزمائی کررہے تھے ۔ایک ویب سائٹ کی رپوٹ کے مطابق یہاں 65 فیصد شیعہ مسلمان جبکہ 35 فیصد سنی مسلمان ہیں۔ صدام حسین کی شہادت کے بعدعراق میں شیعہ ۔سنی اختلاف بہت زیادہ بڑھ گیاہے ۔سیاسی سطح پر سنیوں کا گراف ڈاﺅن ہوچکاہے ۔معاشی تنگی ،رشوت ،بے روزگاری عراق کے بنیاد ی مسائل میں شامل ہیں ۔سب سے بڑا مسئلہ ان لاکھوں عراقیوں کی گھر واپسی ہے جو دیار غیر میں بھٹک رہے ہیں ۔موصل ،الرقہ اور متعدد شہروں کی تعمیر نو ہے جوان دنوں کھنڈرت میں تبدیل ہے ۔

stqasmi@gmail.com