ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی

انڈونیشیا ایشاء کے جنوب مشرق کا ایک اہم ترین ملک ہے ۔ دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت یہاں قائم ہے ،اسی ملک میں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں ۔87 فیصد مسلم آبادی کے علاوہ 9 فیصد عیسائی ،دو فیصد ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔ جزیرہ انڈمان اور نکوبار کے توسط سے اس ملک کی بحری سرحدیں ہندوستان سے ملتی ہیں ۔ایشاء کے جنوب مشرق کا ایک اور اہم ترین ملک ملیشیا ہے جس کی سرحدیں انڈونیشیا اور سنگاپور سے متصل ہیں ۔یہ بھی مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں 61 فیصد مسلمانوں ،19 فیصد بڈھسٹوں ،9فیصد عیسائیوں اور 6 فیصد ہندﺅوں کی آبادی ہے ۔ان دونوں کے درمیان میں ایک خوبصورت ترین ملک سنگاپور واقع ہے جس کی سرحدیں شمال میں انڈونیشیا اور جنوب میں ملیشیا سے ملتی ہیں ،یہاں کی 33 فیصد آبادی بدھ مذہب کے ماننے والوں کی ہے جبکہ 18 فیصد عیسائی اور 15 فیصد مسلمان اس ملک کی آباد ی کا حصہ ہیں ۔یہاں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کا کسی بھی مذہب پر یقین نہیں ہے ۔یہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے ،حالیہ دنوں میں یہاں کی صدر ایک باحجاب مسلم خاتون حلیمہ یعقوب ہیں جو اصل میں ہند نژاد ہیں اور ان کے والداپنے زمانے میں واچ مین کی نوکری کرتے تھے ۔
ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کے تحت وزیر اعظم نریندر مودی حال ہی میں تینوں ممالک کا دوہ کرکے وطن واپس آئے ہیں۔ پڑوسی ملکوں سے بڑھتے تعلقات کے پیش نظر 1992 میں سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہاراﺅ نے لوک ایکٹ پالیسی بنائی تھی جس کا مقصد آسیان اور جنوب مشرق کی ریاستوں سے ہندوستان کے تجارتی اور فوجی رشتوں کو بہتر بنانا تھا۔ بعد کی واجپئی اور منموہن سرکار نے اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کی ۔مودی سرکار نے اس پالیسی کا نام تبدیل کرکے ایکٹ ایسٹ پالیسی رکھ دیا ہے ۔جنوب مشرق کی ریاستوں سے ہندوستان اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ایسے وقت میں کررہا ہے جب امریکہ کے سفارتی رشتے کمزور پڑتے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف چین سے ان کے روابط مضبوط ہوچکے ہیں جو ہندوستان کیلئے قابل تشویش ہے، لوک ایسٹ پالیسی کا اصل مقصد ہی چین کے مقابلے میں ان ممالک کے ساتھ ہندوستان کے رشتوں کو مضبوط بناناہے۔
اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وزیر اعظم مودی نے گزشتہ دنوں تین ملکوں کا پانچ روزہ دورہ کیا ہے۔ سب سے پہلے ان کا قافلہ 29 مئی کو انڈونیشیا پہونچا جہاں انہوں نے انڈونیشا کے صدر جوکو ویڈو سے ملاقات ، دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی امور ،سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت 15 معاہدوں پر دستخط عمل میں آیا، ہندوستان نے ایک جزیرہ میں میں سرمایہ کاری کرنے کا بھی وعدہ کیاہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ دورہ ایک مسجد میں جانے کی وجہ سے مسلسل سرخیوں رہا ، انہوں نے ایشاء کے جنوب مشرق میں واقع ملک کی سب سے بڑی مسجد استقلال کی زیارت کی ۔انڈونیشا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وزیر اعظم ملیشیا تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ملیشیا کے نومنتخب وزیر اعظم اور دنیا کے معمر ترین ملکی سربراہ مآثر محمد کو مبارکباد پیش کی ،اس کے علاوہ نائب وزیر اعظم وان عزیزہ وان اسماعیل اور ان کے شوہر انور ابراہیم سے بھی ملاقات کی ، نومبر 2015 میں بھی مودی نے یہاں کا دورہ کیا تھا ۔انڈونیشا اور ملیشا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وزیر اعظم کا قافلہ سنگاپور میں لنگر انداز ہوا جہاں انہوں نے تجارتی امور پر ایک میٹنگ میں شرکت کی، سنگاپور کی صدر حلیمہ یعقوب اور وزیر اعظم لیزی ان لوگ کے ساتھ ملاقات کی ۔ننینگ ٹیکنالوجی یونیورسیٹی میں طلبہ سے خطاب کیا اور تین مذاہب کی عباد ت گاہوں کی زیارت بھی کی ۔ سنگاپور شہر کی قدیم ترین چولیا مسجد کا انہوں نے دورہ کیا ۔سری منی مان مندر میں جا کر پوجا کی ۔بڈھسٹوں کی بدھا روٹھ ریلیک مندر کا معائنہ کیا ۔
انڈونیشا اور ہندوستان کی تہذیب و ثفاقت میں کچھ چیزیں ایک دوسرے ملتی ہیں، دونوں ملکوں کے تجارتی اور سفارتی تعلقات کافی گہرے اور پرانے ہیں، 1950 میں ہندوستان کے یوم جمہوریہ کی تقریب کے سب سے پہلے مہمان خصوصی انڈونیشیا کے صدر سکرانو تھے ۔2011 میں دوبارہ یہاں کے سوشیلو بمبانگ یوم جمہوریہ تقریب کے مہمان خصوصی رہ چکے ہیں ۔ 1940 کے ایام میں جب انڈونیشا کی عوام ڈچ سلطنت کے خلاف بر سرپیکار تھی اس وقت بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی انڈونیشا کی مدد کی اور مسلم لیگ کے قائد ہونے کی حیثیت سے مسلم فوجیوں سے انڈونیشا جاکر ڈچ سلطنت کے خلاف لڑنے کی اپیل کی تھی ۔1945 میں جب انڈونیشیا نے بیرونی تسلط سے آزاد ہونے میں کامیابی حاصل کرلی تو اس وقت ہندوستان اور مصر نے اسے سب سے پہلے جمہوری ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا ۔انڈونیشا ہندوستان کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے ،2011 میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھی وہاں کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان سے قربت زیادہ ہے ۔1967 کی ہندوپاک جنگ میں بھی انڈونیشا نے پاکستان کا ساتھ دیاتھا۔جنوری 2018 میں انڈونیشا کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، وہاں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہاہے وہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ہندوستان انڈونیشا سے اب تک بہتر رشتے بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے اور نہ ہی وزیر اعظم مودی کے دورے کا کچھ اثر پڑا ہے ۔ روہنگیا بحران پر بھی انڈونیشا کا موقف ہندوستان سے مختلف ہے ۔ حالاں کہ دونوں ملک جی ۔20سمیت کئی عالمی و علاقائی تنظیموں کے ممبر بھی ہیں ۔
ملیشا اور ہندوستان کے درمیان بھی کئی سطح پر تہذیبی یکسانیت پائی جاتی ہے ،ہندﺅوں کا دعوی ہے کہ کبھی پورا ملیشاء ہندﺅوں کا ملک تھا جس پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیاہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گہرے اور وسیع ہیں ۔نجیب رزاق کی حکومت میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ بھی ہوا ہے ،2017 میں سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کے دورہ کو بہت اہمیت دی گئی تھی لیکن ملیشا میں حکومت بدل گئی ہے ، موجود ہ وزیر اعظم مآثر محمد پاکستان کے پرزور حامی ہیں ایسے میں ہندوستان کو انہیں اپنے اعتماد میں لینا اور پاکستان پر ہندوستان کو ترجیح دینے کی پالیسی پر عمل پیرا کرانا بہت مشکل ہوگا ۔ ملیشا حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو بھی پنا ہ دے رکھی ہے جس کا مسئلہ وہاں کی نئی حکومت میں کچھ مشکل پیدا کرسکتا ہے ۔ بعض ذرائع سے ملی معلومات کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دورے کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائک ہندوستان کے سپرد کرنے پر بھی بات چیت ہوئی ۔مودی کی واپسی کے پانچ دنوں بعد ملیشیا کے وزیر داخلہ ٹن سری محی الدین کا یہ بیان سامنے آیاہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کو ملیشیا کی گذشتہ حکومت کی طرف سے دی گئی رہائش کی اجازت کی ازسر نو تحقیق ہوگی ۔ملک کی گذشتہ ”بارسن قومی حکومت“ کی طرف سے حاصل شدہ رہائش کو مسترد کرکے انہیں پکٹان ہڑاپن حکومت کی انتظامیہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور ملیشائی قانون کا پابند ہونا پڑے گا ۔ ملیشیا حکومت کے اس بیان کے بعد ہندوستان کے بعض میڈیا ہاﺅسز کا دعوی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کا یہ اثر ہے اور انہیں کی وجہ سے ملیشا نے ڈاکٹر ذاکر نائک کے بار ے میں یہ قدم اٹھایا ہے ۔اگر ملیشیا حکومت ڈاکٹر ذاکر نائک کی رہائش اور شہریت کے بارے میں کوئی قدم اٹھاتی ہے اور وہ اسے حکومت ہند کو سونپتی ہے تو بی جے پی 2019 کے عام انتخابات میں اس نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی لیکن اس کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں ۔ملیشا حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو تحفظ دے رکھاہے اور تجزیہ نگاروں کا یہی مانناہے کہ نئی حکومت بھی انہیں تحفظ فراہم کرے گی ، وزیر داخلہ کے جس بیان کو لیکر بی جے پی اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے وہ دراصل انتہائی مبہم ، غیر واضح اور سفارتی پالیسی پر مبنی ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے تین ملکوں کے سفر کے دوران دو مسجد کی بھی زیارت کی ہے، اس سے قبل وہ ابوظہبی کی مسجد شیخ زائد النہیا کی زیارت کرچکے ہیں۔ پی ایم مودی کا یہ عمل عالمی سطح پر اپنی شبیہ بہتر بنانے اور اقلیت مخالف الزامات کو دور کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے لیکن جب تک وہ عملی سطح پر اقلیتوں کو مطمئن نہیں کریں گے ۔مسجدوں میں جانے کے بجائے ہندوستان کی مسجدوں اور مسلمان کا تحفظ یقینی نہیں بنائیں گے ، مسلمانوں کے حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے عالمی سطح پر ان کی شبیہ بہتر ہونی ناممکن ہے ۔ مرکز میں بی جے پی کی چار سالہ حکومت پر بین الاقوامی میڈیا اور سروے ایجنسیوں کی رپوٹ یہی بتاتی ہے کہ مودی حکومت میں اقلیتیں خوف زدہ اور غیر محفوظ ہیں ،مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے میں حکومت کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔یہ بات واضح ہے کہ مسجد کی زیارت وزیر اعظم مودی کی سفارتی پالیسی کا حصہ ہے، اپنے اس عمل کے ذریعہ وہ مسلم ملکوں سے بہتر تعلقات بنانے کے خواہاں ہیں ۔ ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کو کامیاب بنانے کی جدوجہد ہے ۔ہندوستانی مسلمانوں کی بھلائی ،ان سے ہمدردی ،خیر خواہی اور امن و سلامتی کی بحالی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ہندوستانی مسلمانوں کا تحفظ ،امن وسلامتی کی بحالی ،آئین پر عمل کی آزادی اور شریعت میں مداخلت سے گریز مودی سرکار کی اولین ذمہ داری ہے اور یہی ہندوستانی مسلمانوں کا حکومت ہند سے مطالبہ ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں