24 جون کو ترک ووٹرز ایک نئے صدر اور نئی پارلیمان کا انتخاب کریں گے۔ ترکی اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ قوم کو طے یہ کرنا ہے کہ اسے ایک ایسا صدر منتخب کرنا ہے، جس کے پاس بے انتہا طاقت ہو یا ملک کو ایک مرتبہ پھر پارلیمانی جمہوریت کی جانب لوٹانے کا راستہ کھولنا ہے۔
گیریچی ریسرچ انسٹیوٹ کے حالیہ عوامی جائزوں سے ظاہر ہے کہ صدر رجب طیب اردگان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی پارلیمانی اکثریت سے محروم ہو سکتی ہے اور صدر کا انتخاب ممکنہ طور پر دوسرے مرحلے کی جانب بڑھ جائے۔ عوامی جائزوں کے مطابق صدر اردگان کو 48 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے اور ان کے سخت ناقد اور سوشل ڈیموکریٹ رہنما محرم انچی اردگان کے لیے ایک بڑا چیلینج ثابت ہو سکتے ہیں۔
سوال لیکن یہ ہے کہ عوامی جائزے کس حد تک قابل اعتبار ہیں؟ ظاہر ہے ان پر مکمل طور پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں ایسے ووٹرز بھی موجود ہیں، جنہوں نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا اور ایسے ووٹروں کی تعداد اس بار بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب اردگان کی جانب سے ملک میں پیدا کردہ خوف کا ماحول بہت سے ووٹروں کو اپنی اصل خواہش یا فیصلے کا اظہار کرنے کی راہ بھی روکے ہوئے ہے۔ اس لیے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عوامی جائزے کیا کہہ رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ ترکی ایک نئے آغاز کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اپوزیشن نے ایک بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے اور نہایت مضبوط امیدواروں کو سامنے لائے ہیں۔
(بشکریہ قومی آواز)





