یوپی مدرسہ بورڈ امتحان: ایک جائزہ

احتشام الحق آفاقی
ہرطرف چہ مگوئیاں تھی ،کس بات کی اس بات کی ، کہ اب مدرسہ کا امتحان نقل سے پاک و صاف ہوگا ، آخر مدرسہ بورڈ پاک و صاف امتحان کرانا کیوں چاہتا ہے ، بغل میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب بولے مدرسہ بورڈ اپنے دامن پر لگے داغ کو زائل کرنا چاہتا ہے ، دوسرے صاحب بولے ارے نہیں نہیں ! مدرسہ بورڈ کو اب یہ فکر لاحق ہوگیا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ ہوں اور وہ اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر امتحانات پاس کریں ، اب اس کے لئے دیکھیئے یوپی مدرسہ بورڈ کے امتحان کو مدرسہ سے منتقل کرکے اب اسکول اور کالجوں میں کروائیں گے، تاکہ وہاں کسی قسم کا کوئی نقل نہ ہونے پائیں ، تیسری طرف سے یہ آواز آئی ارے بھائی یہ سب بیکار کا تبصرہ ہے ، ان باتوں میں کچھ نہیں رکھا ، ذرا سنیئے کیا امتحان کو منتقل کردینے سے وہ نقل سے پاک و صاف ہوجاتا ہے ، ذرا آپ مجھے بتائیے اس سال کا یوپی انٹر و ہائی اسکول کے امتحان کا کیا حال رہا ، کیا اس میں منا بھائیوں کا دبدبہ نہیں رہا ، یہ بس کہنے کی بات ہے نقل سے چھٹکارا پانے کیلئے مدرسہ بورڈ نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ بہر حال آج امتحان کا پہلا دن تھا بچے آپس میں ڈرے سہمے ہوئے تھے اب کیا ہوگا ، جونہی بچے اپنے اپنے سنٹروں پر پہنچے اور وہاں اپنی جگہ کو تلاش کرنے لگے بے ترتیب لسٹ میں انھوں نے اپنی آنکھوں اور انگلیوں کا بھر پور استعمال کیا تب جاکر وہ کسی طرح اپنے امتحان ہال پہنچ سکے، وہاں کا منظر کچھ ایسا تھا ، جن بچوں کا نام اس ہال میں تھا ، ان میں سے کسی کا بھی ایڈمٹ کارڈ اس کے ٹیبل پر لگا ہوا نہیں تھا ، بچے شور شرابہ میں مشغول تھے کہ نگراں حضرات تشریف لےآئے ، بچوں نے جب شکایت کی توان کو جواب بہت تسلی بخش ملا ” آپ کہیں بھی بیٹھ کر کاپی لکھ دیں اس کا رزلٹ آجائے گا؛ اس کے لئے آپ بے فکر رہیں ، پھرمیں دوسرے ہال کی طرف بڑھا ، وہاں دو تین ملازم ایک بند کمرہ کو صاف کر رہے تھے اور اس کے باہر لکھا ہوا تھا روم نمبر 10 عالم عربی ،امتحان شروع ہونے کا وقت ہو چکا تھا بچے کمرہ صاف ہونے کا انتظار کر رہے تھے ، میں اورآگے بڑھا ایک کمرہ میں جھانک کر دیکھا تووہاں چند بوری اور دری بچھا ہوا تھا ، میں نے جب معلوم کیا یہ بھی امتحان ہال ہے ، جواب ملا جی ہاں ، اس میں کامل سال اول والے بچے بیٹھیں گے، میں اور آگے چلا کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو وہاں امتحان شروع ہو چکا تھا ، بچے لکھ رہے تھے اور کچھ بچے خاموشی کے ساتھ بیٹھیہوئے تھے، پھر میں ادھر ادھر گھومتا رہا اورمجھے اس وقت کا انتظار تھا کہ امتحان نقل سے کتنا پاک ہوتا ہے ، 3:30 کے بعد بچے ایک دوسرے کے کاپی میں جھانک رہے تھے اور نگراں صاحبان خاموش بیٹھے ہوئے تھے ، میرا دل تو بس یہی کہ رہا تھااس قوم کے مستقبل پر بس اللہ ہی رحم کرے ، امتحان ختم ہونے کے بعد میں نے جب کچھ ساتھیوں سے معلوم کیا کہ بھائی امتحان کیسا رہا ، جواب ملا بھیا ہم تو پڑھے لکھے ہیں ، جو بغیر پڑھے ہوئے امتحان دینے آیا ہیان سے معلوم کرو تو زیادہ بہتر ہے ، میں نے کہا وللہ ایسا بھی ہے ، ایک بھائی نے کہا بھائی امتحان کا پہلا دن کو دیکھ کرمجھے تو نہیں لگتا ہے کہ، یہ امتحان نقل سے پاک وصاف ہوگا ، ہر دن میں یہی انتظار کرنے لگے خدارا اگر ایک بھی دن امتحان بغیر نقل کیانجام تک پہنچتاتو مدرسہ بورڈ اپنے مقصد میں کامیاب تھے ، لیکن ایسا ہوا نہیں ، لیکن ہم اپنے تعلق سے اتنا کیوں سنجیدہ رہتے ہیں؟ مجھے پتا نہیں ، اب تو رزلٹ کا انتظار ہے ممتحین حضرات کیا کرتے ہیں قوم کے مستقبل کے لئے ۔(ملت ٹائمز)