مجھے ایک مسلم خاتون ہونے پر فخر ہے

سردیوار :نزہت جہاں
ان دنوں ہندوستان ،پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی باتیں کی جارہی ہیں ،مسلمان خواتین کے تعلق سے سب سے زیادہ بحث ومباحثہ کئے جارہے ہیں ،ہر کوئی یہ کہ رہاہے اسلام نے عورتوں کے ساتھ زیادتی کی ہے ،خواتین کے حقوق سلب کئے ہیں ،انہیں معاشرہ اور سماج میں کوئی عزت وقعت نہیں دی ہے ،انہیں باندی کی حیثیت سے رکھا جاتاہے ،مختلف پابندیوں کا مکلف بنایاجاتاہے ،ان کے گھر سے باہر نکلنے پر واہ ویلامچایاجاتاہے ،انہیں صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاتاہے جب ضرورت پوری ہوجاتی ہے توانہیں طلاق دیکر گھر سے باہر نکال دیا جاتاہے ،کپڑے پہننے پر پابندی عائد کی جاتی ہے ،اپنی مرضی اور آزادی کی زندگی نہیں گزارنے دی جاتی ہے ،تسلیمہ نسرین کی ہمنوا خواتین کے حقوق کی باتیں کرتے ہوئے یہاں تک کہ جاتی ہیں کہ مردوں کی طرح عورتوں کو ستر مردوں سے اختلاط کا حق ملنا چاہئے ، مجھے یاد آرہاہے کیرالہ کے ایک جج نے بھی کچھ دنوں قبل اس طرح کی باتیں کہی تھی کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی چار مردوں سے شادی کا حق ملنا چاہئے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق کا اختیار مردوں کے بجائے عورتوں کو ملنا چاہئے ،کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ طلاق کا نظام ہی ختم کردینا چاہئے ،نکاح کے بعد میاں بیودی کے درمیان جدائیگی کے تمام راستوں پر پابندی عائد کردینی چاہئے ،ان سب کی آڑ میں اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایاجاتاہے اور دانشور کہلانے والاطبقہ خواتین کے حقوق کی ترجمانی کرنے کے بہانے اسلام کے خلاف دل کھول کرزہر افشانی کرنا شروع کردیتاہے ، اسلام میں تبدیلی کا مطالبہ کرتاہے ،مسلمانوں کو یورپ اور امریکی کلچر اپنانے کی تاکید کرتاہے ۔
مسلمانوں میں سے بھی کچھ لوگ بارہا اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ،ٹی وی چینلوں کے ڈیبیٹ میں ،اپنی تحریر میں اور سوشل میڈیا کے توسط اسلام کو دقیانوس اور قدیم مذہب گردانتے ہیں ،مغربی طرزرہائش اختیار کرنے والی مسلم خواتین طلاق کو عورتوں کی توہین بتاتی ہیں کچھ تین طلاق کو ایک طلاق کے درجہ میں رکھنے کا مطالبہ کرتی ہیں ، تو کچھ اس خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ یورپ کی طرح اسلام میں بھی بغیر نکاح کے مردو وزن کے اختلاط کا جواز ملنا چاہئے ،المیہ یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والی یہ خواتین مسلمان ہونے کے باجود قرآنی احکامات کو ماننے کے بجائے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاکر یہ کہتی ہیں کہ اسلام میں ہمارے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے ،ہمیں آزادی نہیں دی گئی ہے ؛لیکن وہ خواتین کبھی یہ نہیں سوچتی ہے کہ سماج و معاشرہ میں ہماری اپنی ذمہ داریاں کیا ہے ،ہمارے شوہر کو طلاق دینے کی ضرورت کیوں پڑی ،شوہر نے ناراضگی کا اظہار کیوں کیا ، ہماری کن خامیوں اور کوتاہیوں کی بناپر رفیق سفر کو یہ قدم اٹھاناپڑا،ہم نے اپنے شوہر کو اس کی محبت کا کیا صلہ دیا ،مردو وعورت معاشرہ کے دوپہیے ہیں ،گھر وں کو بنانے اور سنوارنے کی دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے ،اور اگر کبھی کچھ نااتفاقی ہوجاتی ہے تو اسے اسلام کے دائرے میں حل کرنے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا اور اسلام پر تنقید کرنا ہماری کو تاہ فہمی او ر مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے ۔لگے ہاتھوں خواتین پر ہونے والے ظلم وتشدد کو بیان کرنے اور ان کے حقوق کی ترجمانی کرنے والی ماڈرن خواتین سے میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اپنے گھر میں کام کرنے والی میڈ کا کتنااحترام کرتی ہیں ،ان سے کیسے باتیں کرتی ہیں اور انہیں کیا عزت دیتی ہیں آخر وہ بھی تو ایک خاتون ہے !
سچائی یہ ہے کہ خواتین کو جو حقوق اسلام نے دئیے ہیں دنیا کے کسی اور مذہب میں اس کے ایک فیصد کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتاہے ،جوعزت ،جووقار اور جو احترام اسلام نے دیا ہے وہ خواتین کے عین فطرت تقاضے کے مطابق ہے اور اسی کو اپنانے میں خواتین کا مقام ومرتبہ ملحوظ رہتاہے ۔اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔ مگر عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں ، اقوام و ملل نے عورت کے لئے صدہا قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی۔
عورتوں کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے امریکہ میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی ہے جبکہ آج سے تقریبا ایک ہزارسال قبل شمس الدین التمش نے اپنی صاحبزادی رضیہ سلطان کو حکمراں بنادیاتھا اور صرف ایشاء بلکہ پوری دنیا میں رضیہ سلطان کو اولین خاتون حکمراں ہونے کا شرف حاصل ہے ،آر ایس ایس سب سے مضبوط اور طاقتور تنظیم ہے ،حالیہ دنوں میں ہندوستان پر اسی پارٹی کی حکومت ہے لیکن عورتوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے ،تنظیم کے اصول میں لکھاہواہے کہ اس کی ممبرشپ صرف مردوں کو دی جائے گی جبکہ اسلام میں ہرجگہ خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے اور جہاں جانے سے خواتین کو روکا گیا ہے تو وہ ان کے اعزازاور احترام میں ہے ،حقوق کی پاسبانی کیلئے پابندی رکھی گئی ہے۔
اسلام نے صرف فکری اور نظری اعتبار سے ہی عورت کا مقام و مرتبہ بلند نہیں کیا بلکہ قانون کے ذریعے سے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی ہے اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا موثر انتظام کر دیاہے۔جہاں شرع نے مرد کو ناگزیر حالت کی بناء پر طلاق دینے کا اختیار سونپ رکھا ہے۔ وہاں عورتوں کو بھی کسی معقول وجہ کے باعث مرد سے طلاق لینے کا اختیار دلایا ہے جسے خلع کہاجاتاہے اور اس طرح فریقین کو ایک مکمل مساوات پر لاکھڑا کیاہے۔ اسلام نے عورت کو تحصیل علم میں مرد کے برابر اجازت دی ہے۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دار بنایا ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کی گواہی کبھی بھی معتبرنہیں تھی۔ اسلام نے اس کی گواہی کو معتبر کیا اور عورت کی عصمت کو حدود اللہ میں شمار کیا ہے اس کے خلاف جرم کو معاشرے کے خلاف سمجھا گیاہے۔ محض انفرادی مجرم نہیں بنایا گیا اس اعتبار سے آج تک دنیا کی کوئی ترقی یافتہ قوم اسلام کی گرد بھی نہ پا سکی۔ اسلام نے عورت کو اظہار خیال کی آزادی دی ہے ۔
خواتین کی اہمیت کے پیش نظر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں ، وہ اچھی طرح ان کی پرورش کرلے تو یہی لڑکیاں اس کے لئے دوزخ میں آڑ بن جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لئے مردوں کو بار بار تاکید فرمائی ، کہ وہ عورتوں سے بہتر سلوک کریں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بہترین مسلمان، بہترین صاحب اخلاق اور اپنی بیویوں کے بہترین خاوند ہوتے ہیں تم میں سے بہتر وہ ہے ، جو اپنی بیویوں سے بہترین سلوک روا رکھے اور تم میں سے میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عورتوں سے بہترین سلوک روا رکھتا ہوں۔ دنیا کی بہترین نعمتوں میں سے بہترین نعمت نیک بیوی ہے ۔عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قابل احترام تھی اس معاشرے میں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کر دیتے تھے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جینے کا حق دیا۔ عورتوں کا تحفظ، جس طرح کیا، اس کی مثال دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام میں عورت کو وہ درجہ دیا جو آج کے جدید مغربی معاشرے میں بھی اسے حاصل نہیں۔فرمان نبوی ہے کہ اگر ایک عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، تو اللہ تعالی اس عورت کوحکم دے گا کہ جنت میں داخل ہو جا، جس دروازے سے بھی چاہو۔ مجھے ایک مسلمان خاتون ہونے پر فخر ہے ۔ اچھی طرح احساس ہے کہ اسلام نے ہمیں تمام حقوق دیئے ہیں کہیں پر بھی ہماری سے کوئی زیادتی نہیں کی ہے ،ہم پر ہماری صلاحیت کے مطابق ذمہ داریاں عائد کی ہے ، ہماری خوشحال زندگی کا دارومدار اسلامی تعلمیات پر عمل کرنے میں ہے اور اسی میں دنیا وآخرات کی کامیابی مل سکتی ہے ۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار بہار اسکول میں ٹیچر اورفری لانسر جرنلسٹ ہیں )
nuzhatjahanmt@gmail.com