مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر سیمینار :مشاہدات وتاثرات

محی الدین غازی
صبح سویرے ہم دہلی سے دیوبند سیمینار میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے، عزیزی ابوالاعلی سید، اور محترم مولانا رفیق قاسمی صاحبان کو جلد ہی گہری نیند آگئی، اور مجھے محترم امیرجماعت کے ساتھ تخلیہ کی صورت حاصل ہوگئی۔ پھر یہ ہوا کہ مولانا محترم دل کی باتیں پوری بے تکلفی کے ساتھ بیان کرتے رہے اور میں سنتا رہا، جہاں ایک موضوع مکمل ہوتا میں دوسرا موضوع چھیڑ دیتا۔ ایک زمانے کے بعد اتنی دیر تک طالب علمانہ کیفیت سے گزرنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ ہم دیوبند پہونچ گئے۔ دار العلوم وقف دیوبند میں مقالہ نگار کی حیثیت سے میری حاضری میرے لئے بالکل انوکھا تجربہ تھا۔
قارئین جانتے ہیں کہ اس سیمینار کو لے کر چند روز پہلے سے فضا میں شدید قسم کا تکدر تھا، لیکن اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ سیمینار شروع ہوتے ہی کدورت کی جگہ پاکیزگی اور طہارت نے لے لی۔ اور دل کی کشادگی ہی ہر شخص کی اولین پسند قرار پائی۔ میں نے کسی بھی شخصیت پر ہونے والے سیمینار میں کشادہ ظرفی کی ایسی حکمرانی اور وسعت قلبی کی اتنی عزت افزائی نہیں دیکھی۔ نہ ہی کسی علمی سیمینار میں دل کے احوال پر اتنی زیادہ توجہ پائی۔
دار العلوم (وقف) کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب نے پتھر کے جواب میں پھول پیش کرکے ساری دنیا کا دل جیت لیا تھا۔ اور ان کے نہایت حکیمانہ ردعمل کے نتیجے میں سیمینار کامیابی کی اعلی منزلوں کو چھو رہا تھا۔ ہر زبان سے پھول جھڑ رہے تھے، اور ہر تقریر محبت سے بھرپور تھی۔ ادارہ کا جن سے کبھی شدید ترین اختلاف تھا، وہ بھی موجود تھے اور الفت ومحبت کے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے تھے۔ اور خطبہ استقبالیہ میں مہتمم محترم نے جب یہ شعر پڑھا تو سب کیف میں ڈوب گئے:
چمن میں اختلاف رنگ وبو سے بات بنتی ہے
ہمی ہم ہیں تو کیا ہم ہیں۔ تمہی تم ہو تو کیا تم ہو
افتتاحی اجلاس میں مولانا محمود مدنی کا یہ بیان تحسین کی سماعت سے سنا گیا کہ ماضی کی ناگواریوں کو تازہ کرنے سے تو خرابی ہی بڑھے گی، تاہم ان ناگواریوں کے درمیان سے ہی نمودار ہونے والے اس روشن نمونے میں نئی نسل کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، انہوں نے برملا اظہار کیا کہ مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے یک طرفہ تمام مقدمات واپس لے کر اور اپنی طرف سے تمام مطالبات ختم کر کے فتنے کی بھڑکتی آگ کو بجھادیا تھا، اور اختلافات کو وراثت میں منتقل ہونے سے روک دیا تھا۔
اس موقعہ سے سیکھنے کو یہ بھی ملا کہ جب کسی طرف سے ہونے والی شدید زیادتی کی وجہ سے سخت غصہ آجانے کا موقعہ ہو تو غصہ سے مغلوب ہوجانا ہی ایک تنہا راستہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ اسی وقت غصہ کو شکست دے کر عظیم فتح بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس سیمینار کو تاریخی واقعہ بنانے کے ہیچھے یہی عظیم قوت کارفرما تھی۔ اگر اسے وہ چیلنج درپیش نہ ہوتا جو درپیش ہوا اور جس کا مقابلہ بے نظیر حلم اور بے مثال حکمت سے کیا گیا، تو شاید اس کا رنگ اس قدر پرکشش اور شان دار نہیں ہوپاتا۔
اس موقع پر محترم امیر جماعت نے مولانا مرحوم کی شخصیت کے حوالے سے اپنی خوب صورت گفتگو کے درمیان موقع نکال کر جماعت اسلامی کا موقف بھی واضح کردیا کہ دین وملت کو درپیش کسی بھی بحران میں جماعت اسلامی علماء امت کا ساتھ دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہے گی۔ مولانا نے مزید کہا: جن مسائل پر علماء کرام کا مولانا مودودی سے اختلاف رہا ہے، ان پر بھی گفتگو کے لئے ہم تیار ہیں، بہت سے ایسے اختلافی مسائل میں وہ جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ پائیں گے۔
پروفیسر محمد اعظم قاسمی حکیم الامت قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اور خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی ہیں، وہ اس مجلس کی بزرگ ترین شخصیت تھے، ان کی گفتگو شروع ہوئی تو سب ہمہ تن گوش ہوگئے، وہ کہنے لگے: اس وقت وحدت والفت کا جو منظر سامنے آیا ہے وہ بے انتہا خوش کن ہے۔ دور دور رہنے والی شخصیات ایک جگہ جمع ہیں۔ اور سب سے زیادہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر بھی اس محفل میں شریک ہوئے ہیں۔ میرے لئے یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ وہ کبھی دارالعلوم آئیں گے یا بلائے جائیں گے۔ اس کے بعد محترم بزرگ نے ایک زبردست بات کہی، یہاں یاد رہے کہ اس وقت محترم امیر جماعت اسٹیج پر موجود نہیں تھے اور اظہار خیال کرکے جاچکے تھے، یہ بھی ذہن میں رہے کہ دارالعلوم کے وسیع ہال میں بھرا ہوا مجمع جماعت اسلامی کا نہیں تھا، خالص علماء اور طلبہ کا تھا۔ انہوں نے کہا: “مولانا جلال الدین انصر عمری ان لوگوں میں سے ہیں، جنہیں دیکھ کر خدا یاد آتا ہے، میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسے چند لوگ ہی دیکھے ہیں”۔
ملک کے اکابر علماء کے درمیان جب کہ سب کی توجہ اور مدح سرائی کا مرکز خود سیمینار سے متعلق شخصیت تھی، ایک بزرگ شخصیت کی جانب سے امیر جماعت اسلامی کا اتنا شان دار تعارف راقم کے لئے نہایت مسرت انگیز تھا۔ امیر محترم کی بہت سی رایوں، بعض رویوں اور کچھ فیصلوں کے بارے میں مجھے تحفظ رہا ہے، مگر یہ جملہ سن کر ناقابل بیان خوشی کا احساس ہوا۔
امیر جماعت کے بارے میں یہ تعارف اسلامی تحریک کے کارکنان کی ذمہ داری بہت بڑھادیتا ہے۔ یہ تعارف تحریک اسلامی کے افراد کو ایک روشن راستہ دکھاتا ہے، بلاشبہ اللہ کے دین کی خدمت کا راستہ بندوں کے درمیان سے گزرتا ہے، اور اس پر وہی چلنے کا اہل ہوتا ہے جو صالحیت اور للہیت کے رنگ میں اپنی شخصیت کو رنگ لیتا ہے۔ اس رنگ کے پختہ ہوجانے کے بعد مخالفتوں کے بادل چھٹنے لگتے ہیں، اور دلوں میں جگہ بننے لگتی ہے۔ نظریاتی کشمکش کتنی ہی شدید ہو، روحانی کشش اپنی راہ بنا ہی لیتی ہے۔
سیمینار کا موضوع سابق مہتمم دار العلوم دیوبند وقف مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات اور افکار کا جائزہ تھا، سیمینار میں کم وقت کے اندر بہت زیادہ مقالے پیش کئے گئے، شخصیت کے حوالے سے متعدد اعلی اخلاقی قدروں پر روشنی پڑتی رہی، اعتدال، کشادہ دلی، اتحاد کے لئے کوششیں اور ان کوششوں کی خاطر ذاتی مفاد کی قربانی جیسے موضوعات سب سے نمایاں نظر آئے۔ کسی شخصیت کے حوالے سے اعتدال واتحاد پر اتنی مثبت اور اس قدر اچھی گفتگو شاید ہی کسی سیمینار میں کی گئی ہو۔
روایتی علماء کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کارناموں سے زیادہ کرامتیں بیان کرتے ہیں، اور خوبیوں سے زیادہ برکتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن اس سیمینار میں شخصیت اپنے کارناموں سے آراستہ اور خوبیوں سے مالا مال نظر آتی رہی۔
یہ جاننے کے لئے کہ مولانا مرحوم سے بے پناہ محبت وعقیدت رکھنے والے اور ان کی کشادہ ظرفی کے گن گانے والے خود سیمینار کی کشادگی کو کتنا قابل قدر سمجھتے ہیں، راقم نے اپنا مقالہ شروع کرنے سے پہلے کہا: جب یہ سیمینار ہے تو اس میں شخصیت پر تنقید بھی ہوسکتی ہے، سو تنقید سننے کے لئے تیار رہیں۔ سامعین کی پیشانی پر ذرا بھی بل نہیں آیا، راقم کو اطمینان ہوا اور اس نے مولانا پر تنقید کرنے کے بجائے مولانا کی وہ تنقیدیں کھول کر بیان کردیں جو مولانا زندگی بھر غیر معتدل علماء کے غیر صحتمند رویوں پر کرتے رہے۔ خوشی ہوئی کہ سامعین نے ان تنقیدوں کو بھی شوق سے سن لیا۔
اس محبت آمیز سیمینار میں شریک ہونے والے اس بات پر متفق تھے کہ اختلافات ہونے میں حرج نہیں ہے، لیکن اختلافات حق کی مخالفت اور آپسی بغض وعداوت کی شکل اختیار نہ کرلیں اسے یقینی بنانا ضروری ہے۔
SHARE