کیرالہ میں شدید تباہی اور مرکزی حکومت کا سوتیلا سلوک

نقطہ نظر : ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان کی خوبصورت ترین اور قدرتی حسن کی شاہکار ریاست کیرالہ ان دنوں تباہی وبربادی کی منہ بولتی تصویر بن چکی ہے ،مسلسل ہونے والی بارش اور سیلاب سے قیامت برپاہے ،تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس سے پوری ریاست متاثر ہے ۔آہ وبکاہ اور چیخ وپکار کا عالم ہے ۔4 اگست سے جو بارش شروع ہوئی وہ تقریبا 20 دنوں تک مسلسل جاری رہی جس سے پوری ریاست میں سیلاب آگیاہے ،مکانات پانی میں ڈو ب چکے ہیں،سڑکیں غرقاب ہیں، دفاتر ،اسکول ،تعلیمی ادرے دکانیں سبھی کے اوپر سے بانی بہ رہے ہیں ۔ریاست کے 14 اضلاع اس سیلاب کی زد میں ہیں ۔بارہ لاکھ سے زائد عوام بے گھر ہوکر خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔اب تک 575 لوگوں کی مو ت ہوچکی ہے جبکہ 14 سے زائد غائب ہیں ۔ دولاکھ مکانات مہندم ہوچکے ہیں ۔ کوچی ایئر پورٹ بھی سیلاب کی زد میں آنے کی وجہ سے شدید متاثرہے ۔ 15 سے 29 اگست تک تمام پروازیں معطل ہوچکی ہیں ۔تری ونت پورم ریلوے اسٹیشن سے متعدد مقامات کی خدمات بند ہیں ،80 فیصد علاقے بجلی سے مکمل طور پر محروم ہیں ۔یہ اعداد وشمار سرکاری ایجنسیوں کے ہیں ۔ دیگر ذرائع کی بات کی جائے تو اموات اور نقصانات کی تعداد کئی گنازیادہ ہوجائے گی ۔ کیرالہ میں 42 خوبصورت ڈیم ہیں جس میں سے 35 کو کھو ل دیاگیاہے ۔وہاں کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔اس سے قبل 1924 میں بھی وہاں اس طرح کے کچھ حالات پیدا ہوئے تھے لیکن اتنا خوفناک منظر نہیں تھااور نہ ہی اتنی بڑی تعداد میں جان ومال کا نقصان ہوا ۔
کیرالہ کی اس ہولناک تباہی سے پورا ملک صدمے میں ہے ،انڈین آرمی ،این ڈی آر ایف اور دیگر ٹیمیں راحت رسانی کے کام میں مصروف ہیں ،60 ہزار لوگوں کو اب تک بچایاجاچکاہے ۔122 ہیلی کاپٹر ،200 ہاﺅس بوٹ ،100 موٹر بوٹ ،120 اسپیڈ بوٹ ،41 جھنکار اور متعدد کشتیوں کا استعمال کیا جارہاہے ۔متعدد رفاہی ،سماجی اور ملی تنظیمیں امداد پہونچارہی ہیں ۔کیرالہ کے وزیر اعلی فنڈ میں عوام کی جانب سے اب تک 670 کروڑ روپے کا چندہ جمع ہوچکاہے ۔دنیا کے متعدد ممالک نے بھی کیرالہ کی عوام سے اظہار یکجہتی کی ہے ،مختلف ذرائع سے مدد کی کوشش کی جارہی ہے ، کئی ممالک نے مدد کی پیشکش کی ہے لیکن ہندوستان کی بی جے پی حکومت کا رویہ اس حوالے سے انتہائی شرمناک اور باعث افسوس ہے ۔قدرتی آفت کے شکار کیرالہ کی عوام کے ساتھ مودی سرکار نے جو کچھ کیاہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کے اندر مروت نہیں ہے ۔پارٹی ،حکومت ،اقتدار اور اپنے نظریہ سے بڑھ کر ان کے یہاں انسانیت کا تصور ناپید ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے کیرالہ سیلاب متاثرین کیلئے صرف 500 کروڑ روپے کا اعلان کیاہے ۔بعد میں وزیر داخلہ نے مزید سو کروڑ کا اعلان کیا ۔جبکہ حکومت کے فنڈ سے صرف 80 کروڑ کی مدد اب تک پہونچ سکی ہے ۔حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی میں کیرالہ میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 10000 کروڑسے زیادہ کا ہے ۔اس کی تکمیل کیلئے مودی سرکار نے صرف 500 کروڑ روپیہ دیاہے اور وہ بھی پوری رقم فوری امداد نہیں ہے ۔دوسری طرف یہی حکومت تشہیر پر 4 ہزار کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے ۔سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی موت پر سوگ منانے کیلئے 5 ہزار کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیاگیاہے ۔ حکومت کا سوتیلا پن یہاں پر ختم نہیں ہوتاہے بلکہ دنیاان کے ممالک کو بھی مدد کرنے سے روک دیاگیاہے جو مصیبت کی اس گھڑی میں کیرالہ کی عوام کا ساتھ دینا چاہتے ہیں ۔ا ن کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھارہے ہیں ۔کیرالہ کی عوام خلیجی ممالک میں بڑی تعداد میں رہتی ہے جہاں کی حکومتوں نے مدد کی پیشکش کررکھی ہے لیکن حکومت لینے سے انکار کررہی ہے ۔متحدہ عرب امارات نے ایک ہفتہ قبل 700 کروڑ رورپے کی مدد کا اعلان کیا ۔کیرالہ کے وزیر اعلی نے متحدہ عرب امارات کا شکریہ اداکرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا لیکن مودی حکومت نے اس آفر کو قبول کرنے کے بجائے ٹھکرادیا ۔وزرات خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے کہ متحدہ عرب امارات کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ ”ہم اپنے معاملات خود حل کرلیں گے ،ہندوستانی آئین میں غیر ملکی امداد قبول کرنے کی اجازت نہیں ہے “کیرالہ کے چیف منسٹر ،متعدد ایم پی اور سماجی وملی لیڈران نے متعدد مرتبہ وزیر اعظم سے اس بات کی اپیل کی کہ کوئی گنجائش نکال کر غیر ملکی امداد قبول کرلی جائے ،ان ممالک سے ہمارے گہرے رابطے ہیں لیکن حکومت اپنے موقف پر اٹل رہی ۔سچائی یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کی امداد مودی حکومت سے زیادہ تھی ۔اس امداد کے بعد حکومت کی رسوائی ہونے لگی تھی ،اپوزیشن پارٹیوں نے بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیاتھا جس سے بچنے کیلئے یہ راگ الاپا گیا کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ قطر نے سب سے پہلے 500 ملین امریکی ڈالر کی امداد کا اعلان کیاتھا ۔مالدیپ نے بھی 35 لاکھ روپے کی پیشکش کی تھی ان دونوں امداد کو حکومت نے مستر د نہیں کیاتھا لیکن جب متحدہ عرب امارات کے اعلان کے بعد رسوائی ہونے لگی تو سرے سے یہ کہ دیاگیاکہ آئین میں غیر ملکی امداد قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔حالاں کہ ایسا نہیں ہے ۔ماضی میں غیر ملکی امداد قبول کرنے کی مثالیں موجودہیں ۔2001 میں جب گجرات میں خوفناک زلزلہ آیاتھا تو اس وقت غیر ملکی امداد پاکستان سے آئی تھی جسے ہندوستان نے قبول کیا ۔ان دنوں مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی اور آنجہانی اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے ۔پاکستان سے تین ٹرانسپورٹ طیارہ آیاتھا جس میں کمپل ،ٹینٹ سمیت کئی طرح کی اشیاءتھیں۔ اس کے علاوہ روپیہ کی شکل میں بھی ہندوستان نے پاکستان کی امداد قبول کیاتھا۔
ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ کیرالہ کی اس قدرتی آفت کو بھی آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہندومسلم اور مذہب میں تقسیم کردیاہے ۔سوشل میڈیا پر آر ایس ایس کے لوگ بڑی تعداد میں یہ مسیج وائرل کررہے ہیں کہ کیرالہ سیلاب میں معمولی نقصان ہوا ہے صرف بجلی سے متعلق اشیاءکی امداد کی ضرورت ہے ،اس کے علاوہ کیرالہ کی عوام خود اپنے مسائل حل کرلے گی ،یہاں کے لوگ مالدار او ر صاحب ثروت ہیں ۔پانی کے کم ہوتے ہی حالات معمول پر آجائیں گے ۔بی جے پی سے وابستہ ایک شخص نے آفت زدہ خواتین کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ جملہ لکھنے میں شرم محسوس نہیں کیا کہ ”کیرالہ کی عورتوں کو کنڈوم بھی بھیجا جائے “۔کرناٹک کے ایک بی جے پی ایم ایل اے کا کہناہے کہ یہاں کے لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں اس لئے ایسا ہواہے ۔کچھ شدت پسند ہند و عناصر کا کہنا ہے کہ خواتین سبریمالا مندر میں جاتی ہیں اس لئے بھگوان کا یہ قہر ہے ۔اس طرح کی سوچ رکھنے والوں سے یہ سوال بنتاہے کہ چند سال قبل اتر اکھنڈ میں بھگوان کی کس نافرمانی کا قہر نازل ہواتھا جہاں 5ہزار عوام ہلاک ہوگئی تھی ،وہاں کی تباہی اس سے بھی زیادہ شدید تھی حالاں کہ وہاں آج بھی بھگوان کی پوجاکی جاتی ہے ۔اشنان کرکے پاک ہونے کیلئے بھی لوگ وہیں جاتے ہیں ۔
ہندوستان کی متعدد ریاستوں نے بھی کیرلہ سیلاب متاثرین کی مدد کی ہے ۔یورپین یونین نے ایک کروڑ روپیہ کی رقم انڈین کروس سوسائٹی کو سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے دیاہے ،خلیجی ممالک اور اسرائیل کی کئی ایک این جی او یہاں راحت بچاﺅ کے کام میں مصروف ہے ۔
کیرالہ کا یہ سیلاب ایک آفت اور قدرتی تباہی ہے ۔اس سے لاکھوں عوام متاثر ہے ۔ مکانات تباہ وبرباد ہوگئے ہیں ۔گھر کی ضروریات کے تمام سامان ضائع ہوگئے ہیں ،بدن پر پہنے ہوئے کپڑے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں بچاہے ،جن کا گھر محفوظ رہ گیاہے وہ بھی کیچڑ میں اس طرح ڈوباہواہے کہ اسے صاف کرنے میں ہفتوں لگے گا ،اچھی بات یہ ہے کہ اب بارش رک گئی ہے ،سیلاب کا پانی کم ہورہاہے ،دھیرے دھیرے لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنر ل سکریٹری ہیں)