ہندوتنظیموں کے اجتماع سے اجودھیا کے مسلمانوں میں دہشت کا ماحول ،حکومت سے اقبال انصاری نے سیکوریٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا

24 و 25 نومبر کو ایودھیا میں ہندووں کا جو اجتماع ہونا ہے، اس کو لے کر علاقے کا ماحول کشیدہ نظر آ رہا ہے۔ خصوصاً مسلم طبقہ میں ایک خوف کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے
اجودھیا (ایم این این )
رام مندر تعمیر کے لیے ہندوتوا تنظیمیں اپنا پورا زور صرف کر رہی ہیں اور 24 و 25 نومبر کو ایودھیا میں ہندووں کا جو اجتماع ہونا ہے، اس کو لے کر علاقے کا ماحول کشیدہ نظر آ رہا ہے۔ خصوصاً مسلم طبقہ میں ایک خوف کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بابری مسجد معاملہ کے اہم پیروکار اقبال انصاری نے اس تعلق سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شیو سینا اور وی ایچ پی 24 و 25 نومبر کو جو تقریب منعقد کرنے والے ہیں، اس نے مسلمانوں کے اندر ڈر کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”شہر کے مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایودھیا میں سیکورٹی کو بڑھائے۔“ اقبال انصاری نے بی جے پی حکومت پر ناانصافی کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے اور کہا کہ اگر ایودھیا میں سیکورٹی کے انتظامات سخت نہیں ہوئے تو 25 نومبر سے پہلے وہ ایودھیا سے کسی دوسری جگہ ہجرت کر جائیں گے۔
اقبال انصاری نے شیو سینا اور وی ایچ پی کے ذریعہ ’آشیرواد‘ اور ’دھرم سبھا‘ کے نام سے تقریب کے انعقاد کو ماحول بگاڑنے والا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی بھی انہونی واقعہ ہو سکتا ہے اور حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ انھوں نے ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ تقاریب کے انعقاد کو ہندو-مسلم اتحاد کو کمزور کرنے والا قدم بھی قرار دیا اور کہا کہ جس طرح کی فضا بنائی جا رہی ہے، اس سے مسلم طبقہ دہشت میں ہے۔ اگر جلد سیکورٹی کا پختہ انتظام نہیں ہوا تو مسلمانوں کی بڑی تعداد ایودھیا سے ہجرت کر سکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایودھیا معاملہ سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے اور آئندہ سماعت جنوری میں ہونا طے پائی ہے، لیکن سَنت طبقہ اور کچھ ہندو تنظیمیں عدالت کے فیصلہ کا انتظار نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے مرکز کی مودی حکومت اور ریاست کی یوگی حکومت پر مندر تعمیر کا کام دسمبر میں شروع کرنے کا دباو بنا رکھا ہے۔ ساتھ ہی کئی تنظیمیں ایک بار پھر اس مسئلہ پر عدالت سے باہر سمجھوتہ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ 12 نومبر کو بابری مسجد کے دو عرضی گذاروں حاجی محبوب اور محمد عمر نے بھی عدالت سے باہر سمجھوتہ کی حمایت کی تھی اور انھوں نے شری شری روی شنکر سے ہاتھ ملا لیا۔ اس معاملے میں اقبال انصاری کا کہنا ہے کہ سمجھوتہ کا اب کوئی مطلب نہیں ہے اور حاجی محبوب و محمد عمر کے معاملے سے بھی ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔اقبال انصاری عدالت سے باہر سمجھوتہ کرائے جانے کی کوششوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”نہ تو ہمارے پاس کوئی صلح سمجھوتے کے لیے آیا ہے اور نہ ہی کوئی بات ہوئی ہے۔ ہاں، یہ سننے میں ضرور آیا ہے کہ روی شنکر کے سفیر آئے تھے اور حاجی محبوب کے یہاں گئے تھے۔“ انھوں نے مزید کہا کہ ”ہمارا ان دونوں کی ملاقات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ نہ تو وہ فریق ہیں، نہ ہی ہماری ان سے کوئی بات ہوئی ہے۔ ایودھیا معاملہ میں سمجھوتہ کا بھی کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔“ اقبال انصاری نے شری شری روی شنکر کے ذریعہ صلح کی کوششوں کو بیکار قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ”روی شنکر کے گروپ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور ان لوگوں کے بات کرنے سے نہ تو مسئلہ کا کوئی حل نکلا ہے، نہ ہی آگے نکلے گا۔“

SHARE