وہ رہنمائے ملت ہی جو نہ رہے

مکرمی !
آج جب کہ مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، اور امت مسلمہ طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے، ایسے وقت میں کسی عظیم قائد کا اس دنیا سے رحلت کرنا ملک وملت کے لئے ایک عظیم خسارہ کا باعث ہو سکتا ہے، خاص طور ایک ایسے رہنما جو کہ ہمہ جہت گیر ہوں، تو یہ ایک بڑی بات ہے، 7 دسمبر کی صبح جب میں نے اپنی فیس بک ID کھولی تو، ایک اندوہ ناک خبر نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیا، کہ ایک معروف عالم دین، قومی و ملی رہنما، مشہور کالم نگار، ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی اس دنیا میں نہ رہے، اولاً تو اس بات کا یقین ہی نہیں ہوا، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت تھی جسے ماننا ہی تھا، اور دل کہہ رہا تھا، آخر یہ کون سی مصیبت آن پڑی ہے، جب کہ کل ملک و ملت یوم سیاہ کی 26ویں برسی منا رہے تھے، یقیناً مولانا کی موت سے ایک ایسا َخلا پیدا ہوگیا جسے پورا کرنا ناممکن تو نہیں، مشکل ضرور ہے۔
  مولانا نے ایک ایسے علاقے میں آنکھیں کھولیں جس کا شمار ملک کے پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں علم و دانش کی روشنی آزادی کے بعد بھی نہیں پہونچ سکی تھی، ابتدائی تعلیم مقامی مدارس میں حاصل کرنے کے بعد 1964 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی، اور اپنی زندگی قوم وملت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی، خاص طور سے اپنے آبائی وطن  اور سیمانچل کے علاقے کو اپنا میدان عمل بنایا، جہاں کے لوگ تعلیمی، سماجی، معاشی، اور سیاسی مسائل سے دوچار تھے،  اور ان کی ترقی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا، اور اس میدان میں سر گرم عمل ہو گئے، اس کے لئے مولانا نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی جس نے آگے چل کر ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی، اور اسے آج دنیا آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے نام سے جانتی ہے، جس نے بہت سے لوگوں کے لئے تعلیم و ترقی کے راستہ کھول دیئے، اور لوگ اس تعلیمی مہم میں شریک ہو کر اپنی مستقبل سنوارنے لگے، اگر یہ کہا جائےکہ مولانا کی ذات سراپا تعلیمی مہم تھی تو مبالغہ نہ ہو گا، مولانا نے میدان سیاست میں قدم رکھنے کے بعد بھی اس تعلیمی مشن کو نہیں چھوڑا، بلکہ ہمیشہ اس مشن کی کامیابی کے لئے کوشاں رہے، مولانا نے خاص طور سے تعلیم نسواں پر زور دیا، جس کے لئے کشن گنج میں ملی گرلس اسکول کی بنیاد ڈالی، جس میں تقریباً 500 بچیاں زیر تعلیم ہیں، اور اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجا گر کر رہی ہیں، مولانا کی یہ تعلیمی مہم صرف صوبہ بہار ہی نہیں بلکہ جھارکھنڈ، مغربی بنگال، یوپی میں بھی سر گرم عمل ہے، جہاں سیکڑوں غریب طلبہ اپنی شخصیت کو سنوارہے ہیں اور خود کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں، یقیناً یہ امت پر ایسا احسان ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے ساتھ ساتھ مولانا ایک عظیم سیاست داں بھی تھے، جن کی ایمانداری، محنت، لگن اور قوم کے لئے کچھ کرنے کا جزبہ تمام سیاسی لیڈران کے لئے ایک نمونہ اور قابل تقلید اسوہ ہے، آپ نے متعدد بار ممبر پارلیمنٹ کا الیکشن لڑا، 2009 اور 2014 میں لگاتار کامیابی  ملی آپ کے مقبول ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہےکہ 2014 میں جبکہ بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی اس مولانا نے تقریباً دو لاکھ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، دوسری دلیل یہ ہے کہ عام انتخابات کے زمانے عورتیں روزہ رکھ آپ کی کامیابی کے لئے دعا کرتی تھیں، لیکن سیاست نے آپ کی زندگی کو ذرہ برابر بھی متاثر نہیں کیا، اور آپ اپنی سادگی میں اپنی مثال آپ ہیں، آپ کی سیاست نے مسلمانانِ ہند خاص طور سے علماء کرام یہ پیغام دیا ہے کہ آپ سیاست میں رہ کر بھی دین و سماج کی خدمت کر سکتے ہیں، آپ کو کہیں اس میں زیادہ ہی مواقع ملیں گے، اس کے ساتھ ساتھ آپ تواضع و انکساری کے پیکر تھے، آپ نے تصوف و مجاز کے دامن کو بھی نہیں چھوڑا، آپ تہجد گزار، عابد شب زندہ دار تھے، اور ایک عظیم داعی بھی تھے، آپ کے تواضع کی سب سے بڑی دلیل یہ بھی آپ جمعیت سے الگ ہو کر بھی کبھی اس کے بارے ميں کچھ نہیں کہا، یقینًا ہندوستان نے ایک عظیم قائد کو کھو دیا جو کہ اس دورِ نفرت و تعصب میں بھی محبت کی بات کرتے تھے، لیکن یہ قانونِ فطرت ہے جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔ بقول شاعر  

دل تو، کہتا ہے کہ تیرے ساتھ ہی رہیں 
مرضی وقت کہتا ہے بچھڑنا ہوگا

★ عدنان عالم پورنوی متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنئو

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں