ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

عبید اللہ قاسمی

لاریب کہ اس فانی دنیا میں ہر شخص اور ہر چیز فانی ہے ، اپنے وجود کے تزلزل اور اپنی دنیاوی زندگی کی بےثباتی کا سب کو یقین ہے اور ہمارا ایمان بھی یہی ہےکہ ہمیں اس ذات کی طرف رجوع ہونا پڑےگا، جس نے زندگی بخشی، علم ،دولت ، عزت ،شہرت سب عطا کی ، جس نے یہ بھی تعلیم دی کہ ہر شخص کو ایک دن دنیائے فانی سے دنیاۓ بقاء کی طرف لوٹنا ہے، اسی سفر پر استاذ محترم مولانا عبد الخالق صاحبؒ متوطن بچھاپور، سیتامڑھی، بہاربھی 12/دسمبر، بہ روز بدھ بہ وقت 5/بجے روانہ ہوگئے۔ ہم سب کےلیے یہ گھڑی بہت ہی المناک ہے ، اس طور پر کہ کوئی عظیم شخص ہم میں سے چلا گیا، جوغم گساربھی تھا، جن کا وجود ہم سب کےلیے خوش گوار بھی تھا، جن کی زندگی آئینہ کی طرف صاف و شفاف بھی تھی، رسم دنیا کی ادائیگی سے کوسوں دور، مال و دولت کےحصول سے استغنا خاص وصف تھا، جبکہ حضرتؒ کثیرالعیال تھے؛ لیکن آمدن قلیل مقدار میں تھی، عروس البلاد میں کوئی بھی اس لیے سفرکرتا ہےکہ اپنی دنیاوی زندگی کو چمکاۓ ، لوگ اس طور پر چمکتے بھی ہیں، لیکن حضرتؒ نے ممبئی میں پینتالیس سال گزارنے کے بعد ایک جھونپڑی بھی نا حاصل کی ، مدرسہ میں شمولیت سے قبل بہترین کامیاب تاجر ہوا کرتے تھے وہ تاجر جن کے لیے کہا گیا ” التاجر الصدو الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین ” سب کوتیاگ کرخالص علمی اور روحانی زندگی اختیار کی، مدرسہ کےمحاسب بھی رہے، امانت داری بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، بقول ان طلبہ کے جو ان کے پاس اپنی امانتیں رکھتے تھے کہ ” ہم جو نوٹ سپردکرتے تھے، واپس وہی نوٹ ملتا تھا ” اس دور میں اس حدتک امانت دار خال خال ہی ملیں گے، حضرت والا کی موت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ کیسی زندگی گزارنی چاہیے؟ حدث پاک کا مفہوم ہے زندگی جیسی گزاروگے ویسی ہی موت بھی، موت جیسی ہوگی اسی طرز پر اٹھائے بھی جاؤگے۔ ابھی چند دنوں رہبرقوم وملت حضرت مولانا اسرار الحق قاسمیؒ جس طرح وضو کرکے تہجد کے لیے تیار ہی تھے کہ رب نے بلالیا، ٹھیک اسی طرح حضرت والا بھی نماز عصر کےلیے وضو سے فارغ ہوکر پانی پونچھنے گئے ہی تھے کہ رب نے اپنے پاس آمد کا پروانہ بھیج دیا، اللہ ہر مؤمن کو ایسی موت دے۔
دارالعلوم مؤ کے جید فاضل تھے، فراغت کے کچھ سال بعد تک تجارت میں مصروف تھے، بعدہ دارالعلوم عزیزیہ کو تادم حیات چمکانے میں مصروف رہے، اردو ، فارسی پر کافی عبورتھا، کسی زمانے میں فارسی کی جملہ اہم مشہور کتب حضرت والا سے متعلق تھیں ، حضرت والا اسی سال کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے، نماز جنازہ حضرت کے صاحبزادے مولانا عظمت اللہ صاحب نے دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ کے احاطہ میں پڑھائی، جنازہ میں جم غفیر تھا، جو مقبولیت کی بین دلیل ہے، تدفین میرا روڈ قبرستان میں عمل آئی ، حضرت کے صاحبزادے مولوی صبغۃ اللہ کے ساتھ مجھےبھی لحد میں اتارنے کاشرف حاصل ہوا، دعا ہے کہ آسماں لحد پر گل فشانی کرے۔ پسماندگان میں بیوہ سمیت چھ بیٹے اور دوسری روحانی اولاد چھوڑی ہیں ، جو ایک سرمایۂ عظیم ہے، جو ان کی بخشش، رفع درجات اور جنت الفردوس کےلیے دعاگو ہیں ، دارالعلوم عزیزیہ میرا روڈ کے مہتمم مولانا عبد القادر صاحب نے اہل خانہ کو تعزیت پیش کی اور ہمدردی جتائی کہ ہم آپ کے ساتھ ہر موڑ پر ہیں، حضرتؒ کی خاکساری ورع و تقویٰ اور دنیا سے بےرغبتی یہ احساس دلا گئی کہ ؏
ملنےکےنہیں نایاب ہیں ہم

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں