میں اکیلا اس لیے رہ گیا کہ بدل گئی وہ انجمن

شادان نفیس کانپوری

سیدالایام یعنی جمعہ کا دن تھا میں ششماہی کی چھٹیوں میں اپنے وطن میں تھا اچانک انسانیت کے بے لوث خادم، مفکر قوم و ملت حضرت مولانا محمداسرارالحق قاسمی رحمہ اللہ کی دارِ فانی سے کوچ کرجانے کی خبر پردہ سماعت سے ٹکرائی بہت دکھ ہوا، اس دکھ بھرے لمحہ کو میں لفظوں میں بیاں نہیں کرسکتا۔

حضرت رحمہ اللہ کی شخصیت کثیر الجہات تھی،ہشت پہلو اور حیرت انگیز،ایک مکمل شخصیت میں جتنے اوصاف ہونے چاہیے وہ سب ان میں بدرجہ اتم موجود، وہ باکمال عالم، با بصیرت خطیب،ماہر انشاء پرداز، پختہ قلم مصنف،ژرف نگاہ مفکر انسان تھے،وسیع المطالعہ، عمیق النظر، ملنسار،متواضع، نگاہِ دور رس سے سرفراز، معاملہ فہم مدبر اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔

 

حضرت رحمہ اللہ سے میری ملاقات دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں بس یوں ہی چلتے چلتے ہوئی، اور حضرت نے اسی قلیل وقت میں حال چال وطن سکونت سب دریافت کرلیا،اور دعا دیتے ہوے میٹنگ ہال کی طرف چلے گئے،لیکن ایک دفعہ فون پر بھی بات ہوئی وہ دراصل شہر کانپور کے لیدر انڈسٹری سے منسلک حضرات کو کچھ کام تھا ،کام کیا بلکہ صنعت کار حضرات ایک پروگرام رکھنا چاہ رہے تھے تو میں نے نایاب حسن قاسمی صاحب سے حضرت کا نمبر لیا اور فون کیا تو شاید حضرت کےسکریٹری تھے انہوں نے فون ریسیو کیا اور کہا کہ حضرت دہلی میں ہیں اور اِس وقت میٹنگ میں مصروف ہیں آپ ایسا کریں کہ مغرب اور عشاء کے درمیان فون کریں، لیکن افسوس مجھے میری غفلت کی وجہ سے یاد نہ رہا، مگر جیسے ہی عشاء کی اذان شروع ہوئی تو میرے فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو وہی نمبر یعنی جس نمبر پر میری پہلے بات ہوئی تھی، چونکہ میں نے اس نمبر کو محفوظ کرلیا تھا ممبر آف پارلیمینٹ کے نام سے، اس وقت جو میں نے محسوس کیا اس کو بھی میں لفظوں میں بیاں نہیں کرسکتا، اور آپ اندازہ لگائیں آج کل یہ چھوٹے موٹے ودھایک، چیئرمین، پارشد، وغیرہ فون تو اٹھاتے نہیں واپس کال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔خیر حضرت کے سکریٹری قاری نوشیر تھے انہوں نے کہا کہ لیجیے حضرت سے بات کیجیے بہرحال بات چیت ہوئی حضرت نے اپنے قیمتی مشورہ سے نوازا، اس قدر سادگی کہ اس جیسی نظیر ملنا محال ہے، لیکن اب یہ عظیم اور عبقری شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہی۔

 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

اللہ غریق رحمت فرمائے،

ویسے بھی قانون قدرت ہے کہ ہر شخص اللہ تعالٰی کی طرف سے عطا کردہ مقصد حیات اور مفوضہ فرائض انجام دینے کے بعد اسی وحدہ لاشریک کی طرف جاتا ہے۔ جانے والی شخصیت میں تکمیلی شان کا راز اس عالم کے قانون تدریج میں پوشیدہ و مضمر ہے، بتدریج اللہ تعالٰی عظمت و رفعت عطا فرماتے ہیں۔ اور گردش احوال اس کے علمی و عملی تجربات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں، جو کہ بذات خود شخصیت کی عظمت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ رخصت پذیر شخصیت کے امتیازات و خصوصیات طویل ترین تجربات کے مرہون منت ہوتے ہیں،اور عہدِحاضر کے اس تلاطم خیز قحط الرجال کے موجودہ وحشت انگیز دور میں جب کوئی ایسی ہستی ہم سے جدا ہوتی ہے جس کا وجود نہ صرف ہزاروں تشنگانِ علوم و معارف کے لیے علم و عمل کے نقطہ نظر سے منبع فیض ہوتا ہے بلکہ متلاشیان حق و صداقت کے لیے اس کی ذات فکری محور اور مرکزیت کی حیثیت بھی رکھتی ہے

تو محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ خالی ہوگیا ہے ۔

بہرحال! موت تجدید مزاقِ زندگی کا نام ہے، خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے۔

اللہ تعالٰی مرحوم کی مغفرت کاملہ فرمائے، اور اعلی علیین میں مقامِ کریم عطا فرمائے اور حضرت کے علوم کے افادہ کو عام فرمائے اور عالم انسانیت کو نعم البدل عطا فرمائے،آمین۔