محمد علم اللہ
پاؤں میں چکر لیے پیدا ہونے والوں کو راستے پکارتے ہیں۔ ٹیڑھی میڑھی پگ ڈنڈیاں آواز دیتی ہیں۔ احباب پیغام بھیجتے اور ہوائیں سندیسے لاتی ہیں۔ ابر انتظار کے مدھر گیت سناتے اور اَن کہی کہانیاں قدموں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ایسی ہی ایک صدا پر لبیک کہتے ہوئے ہم اوکھلا (دہلی) سے دیوبند کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ڈھائی تین گھنٹے میں ہم دیوبند پہنچ چکے تھے۔
دہلی کی بستی حضرت نظام الدین یا اوکھلا اور دیوبند میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ اوکھلا اسٹیشن کی طرح ہی یہاں بھی دو ٹریک والی اسٹیشن، جہاں ڈاڑھی، کرتا، پاجامہ اور ٹوپی میں ملبوس افراد، جنھیں دور ہی سے دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا، کہ آپ دیوبند پہنچ چکے ہیں۔ اسٹیشن سے ذرا فاصلے پر سائیکل رکشہ اور ای رکشہ والے مختلف جگہوں کا نام پکار کر آپ کو بیٹھنے کے لیے کہیں گے۔ ہم بھی ایک رکشے میں بیٹھ کر سیدھے ریسٹورنٹ پہنچے، جہاں زندہ دل نوجوانوں کے امام محمود الرحمان قاسمی عرف ابو زید فرضی نے پہلے سے ہی انتظام کیا ہوا تھا۔ برادرم ابو زید فرضی حقیقی معنوں میں زندہ دل انسان ہیں، جن سے ملاقات کے بعد ان کی زندہ دلی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ساتھ میں کھانا، گپ شپ اور چائے کے بعد تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
سب سے پہلے ہم دیوبند کے تاریخی ادارہ دار العلوم (قدیم) پہنچے جسے برسوں سے دیکھنے کی تمنا تھی۔ ایک چھوٹی سی چھتہ مسجد میں انار کے درخت کے نیچے تعلیم و تعلم کے ذریعے وجود میں آنے والا یہ ادارہ آج پوری دنیا میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ اس ادارے کا قیام 1866ء کو مولانا قاسم نانوتویؒ اور ان کے معاونین علما و مشائخ کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان میں اس ادارے اور اس سے وابستہ علما کی قربانیاں نا قابل فراموش رہی ہیں۔
جب ہم دار العلوم پہنچے تو شام کا جھٹپٹا چھانے لگا تھا، لیکن سورج ابھی پوری طرح غروب نہیں ہوا تھا۔ شام میں یہاں کی ’ مسجد رشید ‘ کا منظر بڑا دل فریب ہوتا ہے۔ مسجد خاصی کشادہ ہے۔ جہاں طلبا عبادت و ریاضت اور مطالعہ و مذاکرے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہم لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور پھر ’ بابِ قاسم ‘ سے ہوتے ہوئے علم و عرفان کی اس چہار دیواری میں داخل ہوئے، جس کا شہرہ پوری دنیا میں ہے۔ یہاں آپ جیسے ہی اندر داخل ہوں گے، تقریباً ہر ریاست کے طلبا کی جانب سے شایع کی جانے والی مختلف رنگوں اور خطاطی کے خوب صورت نمونوں کے ساتھ دل کش انداز میں؛ یہاں کی ایک پرانی علمی، ادبی و صحافتی روایت دیواری جریدوں کی شکل میں نظر آئے گی؛ جن میں مختلف موضوعات پر اردو، عربی، ہندی، انگریزی اور بنگالی وغیرہ میں نظم و نثر (مضامین، فیچر، نظمیں اور غزلیں) نقش ہوں گی۔ دار العلوم کی اس نفیس روایت نے ان گنت لوح و قلم سے دل چسپی رکھنے والے دیوانوں کی پرورش کی ہے۔
یہاں سے ہم مرکزی لائبریری گئے؛ یہ لائبریری کافی کشادہ ہے، جس میں لاکھوں کی تعداد میں نادر و نایاب کتب موجود ہیں۔ لائبریری میں قرآنیات اور حدیث سے متعلق ذخیرہ دیکھنے کی چیز ہے۔ جہاں مشہور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے ہاتھوں لکھا ہوا قرآن مجید اور سلطان سنگھ کے ہاتھوں سے لکھی، شیخ سعدی کی گلستاں بھی موجود ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ دار العلوم کتابوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انھیں ڈیجیٹائز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں کتابوں کی مرمت کاری کے علاوہ بوسیدہ اور دیمک زدہ کتابوں کو قابل مطالعہ بنانے کے لیے ملازمین اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آئے۔
یہاں سے ہم کمپیوٹر سینٹر، دار الحدیث، ہاسٹل سے ہوتے ہوئے دار تحفیظِ القرآنِ گئے، جہاں چھوٹے چھوٹے بچے حفظ قرآن میں محو نظر آئے۔ دار العلوم کا اپنا اسپتال بھی ہے، جہاں اس مہنگائی کے زمانے میں بھی طلبا کا محض ایک روپے میں، جب کہ مقامی لوگوں کا تین روپے میں علاج ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ہم پھر مطبخ آئے، جہاں بیَک وقت کئی ہزار طلبا کا کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ دار العلوم اپنے طلبا کو مفت قیام کے ساتھ مفت طعام بھی مہیا کرتا ہے۔ طلبا کو اسکالر شپ کے علاوہ کپڑے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان فراہم کیے جاتے ہیں، جن میں تیل، صابن، کاپی، قلم وغیرہ شامل ہیں۔
یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ طلبا کے کھانے کا نظم بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ برتن میں سالن اور ہاتھ میں روٹیاں پکڑے، طلبا شاہراہ کے بیچوں بیچ سے گذر رہے تھے، جو اتفاق سے عام و خاص کی گذر گاہ بھی ہے۔ صدیاں گذر گئیں، زمانہ بدلا، خود زمانے کے ساتھ دار العلوم نے بھی اپنے یہاں خاصی مثبت تبدیلیاں کیں، جن میں بطور خاص انگریزی زبان اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم شامل ہے، مگر مطبخ کے معاملے میں وہاں کے ذمے داران کا یہ رویہ حیرت ناک، بلکہ افسوس ناک اور تبدیلی کا متقاضی ہے۔
قدیم دار العلوم کے معائنے کے بعد ہم دار العلوم وقف گئے۔ یہ وہی دار العلوم وقف ہے، جو 1982ء میں ایک تنازِع کے بعد تقسیم کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ دونوں اداروں کی خمیر اور مٹی گرچہ ایک ہی ہے، مگر دونوں میں فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس دار العلوم کی زیادہ تر عمارتیں نئی ہیں، جس کے اثرات بھی یہاں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اساتذہ اور طلبا سے بات چیت میں دونوں اداروں کا فرق واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ ذرا معتدل مزاج دکھائی دیے۔ کئی معاملوں میں یہاں کے علما اور اساتذہ میں وہاں کے اکابرین کے مقابلے لچک دکھائی دیتی ہے؛ مجموعی طور پر دونوں اداروں کا تہذیب و ثقافت ایک جیسی ہے۔
یہاں کی لائبریری اور دیگر عمارتیں جدید طرز تعمیر پر دکھائی دیتی ہیں، جب کہ کچھ زیر تعمیر ہیں۔ سب کی سب قدیم عمارتیں اور اثاثہ (قدیم) دار العلوم کے حصے میں گئی ہیں۔ جس طرح دار العلوم قدیم سے عربی جریدہ ’ الداعی ‘ شایع ہوتا ہے، اسی طرح یہاں سے بھی ایک خوب صورت، معیاری اور نفیس عربی مجلہ نکلتا ہے؛ اس کا نام ’وحدۃ الامۃ ‘ ہے۔ یہاں سے ایک انگریزی جریدہ بھی ’وائس آف دار العلوم‘ کے نام سے شایع ہوتا ہے، جس کا معیار بہت اچھا تو نہیں ہے؛ لیکن اسے سطحی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے وجود کو سمیٹنے اور شناخت کو برقرار رکھنے میں اس ادارے کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ دارالعلوم قدیم کے برعکس، یہاں سمپوزیم اور سیمنار وغیرہ کا رواج ہے؛ جدید ٹیکنالوجی سے مزین خوب صورت ہال اور لائبریری بھی ہے۔
دونوں اداروں میں ہر ریاست کے طلبا کی اپنی چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہیں، جن کا انتظام و انصرام طلبا ہی کرتے ہیں۔ طلبا کی ایک دو لائبریری دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں بھی ان کے اپنے بزرگوں کی ہی لکھی کتابیں زیادہ تھیں۔ دار العلوم کے آس پاس انگلش اسپیکنگ کورس جیسے کئی کوچنگ سینٹر نظر آئے، پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے کئی دار العلوم کے فاضلین کے ذریعے ہی چلائے جا رہے ہیں، جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ جدید اور قدیم کے ایسے سنگم کو دیکھ کربڑی خوشی ہوئی۔
یہاں کے اساتذہ اور طلبا بڑی خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کی سادگی اور خلوص من موہنی ہوتی ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ آپ کو اپنا اسیر بنا لیں گے۔ خصوصی طور پر مولانا ندیم الواجدی، ابو زید فرضی، مہدی حسن عینی، شادان نفیس، شبلی اعجازی، لقمان عثمانی، اور محمد غزالی خان جیسے محبین، دوستوں، عزیزوں اور بزرگوں کی محبتیں اور شفقتیں تا دیر یاد رہیں گی۔ محمد غزالی خان سے گفت گو خاصی دل چسپ رہی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ محمد غزالی خان دیوبند کے ہیں؛ لیکن لندن میں رہتے ہیں۔ غزالی صاحب نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں پر مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی جس میں بطور خاص ہندوستان میں میڈیا اور مسلمانوں کی حالت زیر بحث آئے۔ غزالی صاحب کا یہ درد بجا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود کوئی میڈیا ہاؤس نہیں ہے، اور مسلم دانشوروں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
دار العلوم اور آس پاس کی فضا سے آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، قدم قدم پر آپ کو عطر، رومال، ٹوپی اور کتابوں کی دُکانیں نظر آئیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو عوامی لائبریری بھی دکھائی دے گی، جہاں طلبا مطالعے میں غرق نظر آئیں گے۔ یہاں کی مقامی لائبریری، مطالعہ گاہوں یہاں تک کہ دُکانوں میں بھی زیادہ تر دینی لیٹریچر ہی نظر آئے گا، جس میں درسی کتابوں کی شروحات کی بہتات ہوگی۔ تقریروں، ملفوظات اور مواعظ کی کتابیں ہر دُکان میں بھری نظر آئیں گی۔ یہاں کتابیں انتہائی کم قیمت پر مل جاتی ہیں، کتابیں سستی ہوں گی، تو کاغذ بھی ویسے ہی ہو گا۔ یہاں کے دُکان دار نقلی پائریٹیڈ کتابیں چھاپنے میں بھی ماہر ہیں۔
دار العلوم سے ذرا دوری پر ہندوؤں کی قدیم عبادت گاہ ’ ماں شری تری پور بالا سندری دیوی مندر، دیوی کنڈ ‘ ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم مندر بھی دیکھنے گئے۔ ہندو عقیدے کے مطابق اس مندر میں ماتا درگا کی ماں راجیشوری تری پور بالا سندری سو روپ کی پوجا کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’ ماں بالا سندری ‘ کا یہ مندر قدیم زمانے سے ہے۔
یہاں کے ایک پجاری نے ہمیں بتایا کہ ماں تری پور بالا سندری ’ درگا ماتا ‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ جن میں برہما، وشنو اور مہیش ہیں۔ تنتر سار کے مطابق ماں راجیشوری تری پور بالا سندری کا روپ سورج کی پہلی کرن کے مانند ہوتی ہے، جس کے چار زاویے اور تین آنکھیں ہیں۔ اس عبادت گاہ میں ماں دیوی کی اُپواس کرنے والوں کو نجات اور سکون میسر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شری تری پور ماں بالا سندری کے مندر میں، ماں کے غسل کے دوران چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ آوازیں صرف ماں کے پیارے عقیدت مندوں ہی کو سننے کو ملتی ہیں۔
وقت کے ساتھ مندر کے دروازے پر کنداں نشانات اور تین چوتھائی دیوار تباہ ہو چکی ہے۔ دروازے پر ایک سات سطری تحریر آویزاں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آج تک کوئی اس تحریر کو پڑھ نہیں پایا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجا رام چندر مہا راج کے ذریعے مندر کی آخری مرمت کاری ہوئی تھی۔ مندر کے پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ جب پانڈووں پر مصیبت پڑی تھی، تو انھوں نے یہیں پناہ لی تھی؛ جہاں انھوں نے دیوی کی پوجا کی تھی۔ یہاں سنس کرت کا ایک قدیم ادارہ بھی ہے، ہمیں پنڈت وِنَے شرما نے بتایا کہ اس ادارے کی بنیاد دار العلوم کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ دار العلوم کی ترقی اس لیے ہوئی کہ اسے مسلمانوں سے خاصا تعاون ملا اور ہمیں زیادہ تعاون نہیں مل سکا؛ اس لیے ہم اپنے ادارے کی زیادہ توسیع نہیں کر سکے۔
رات دیر گئے ہمارے دوست مہدی حسن عینی نے اپنے سینٹر دیوبند اسلامک اکیڈمی میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا، جس میں دارالعلوم (قدیم) اور دار العلوم (وقف) کے علاوہ دیگر اداروں کے طلبا موجود تھے۔ یہاں طلبا سے بات چیت خاصی خوش گوار رہی۔ ہم نے خصوصی طور پر طلبا کو بیدار کرنے اور سماج میں ان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ انھیں بتایا کہ مدارس سے فراغت کے بعد بھی ان کے لیے ہزاروں راہیں ہیں۔ وہ جدید دانش گاہوں سے مختلف شعبوں میں گریجویشن کے بعد مختلف میدانوں کا انتخاب کر کے سول سروسز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات (ایس ایس سی، نیٹ، سیٹ، گیٹ، سی ٹیٹ، ٹیٹ ) وغیرہ کی تیاری کر کے، سرکاری ملازمت پا سکتے ہیں۔
دیوبند کے اس سفر میں مجھے احساس ہوا کہ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور پوری ملت کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے، نئی نسل تبدیلی چاہتی ہے، اس کے اندر کچھ کرنے اور قوم کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی بے پناہ خواہش ہے؛ لیکن وہ سمت سفر اور منزل مقصود کی تلاش میں ہے، وسائل کی شدید کمی ہے۔ پرانے لوگوں سے کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، وہ ہر جگہ گنج کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ کچھ کرتے ہیں، نہ کرنے دیتے ہیں، انھیں نوجوانوں سے خوف ہے، کہ اگر واقعی وہ بیدار ہو گئے، تو ان کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی؛ اس لیے وہ انھیں میٹھی گولیاں دے کر سلانا چاہتے ہیں، لیکن نوجوان نسل اب سونے والی نہیں ہے، آج نہیں، تو کل سہی یہی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
آپ شہرِ دیوبند کو ایران کے شہر قم سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جہاں قدم قدم پر مدارس و مکاتب کا جال بچھا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس چھوٹے سے شہر میں کم و بیش تین سو مدارس ہیں۔ دیوبند شہر اور دار العلوم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا علی گڑھ شہر سے ہے یا برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا آکسفورڈ شہر سے؛ لیکن دیوبند شہر اور دار العلوم ایک دوسرے میں سمٹے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ یہاں دہلی کی طرح ہندو اور مسلم بستیوں صاف فرق نظر آتا ہے، مسلم بستیوں میں قدم قدم پر کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور گندگی، جب کہ غیر مسلم علاقوں میں آپ کو اتنی گندگی نظر نہیں آئے گی۔ زیادہ تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ تنگ گلیاں گندگی سے پر ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں میونسپل کمیٹی کام نہیں کرتی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ادھ کھلے گٹر اور نالیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ شہر کا دورہ کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسے ترقی کی سخت ضرورت ہے۔
(قلم کار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ ہیں)
محمد علم اللہ