شیخ عبداللہ خود اپنے الفاظ میں – نائلہ علی خان کی کتاب شیخ محمد عبداللہ کے کشمیر کے بارے میں خیالات
پاکستان کے بیشتر پڑھنے والوں کے نزدیک شیخ عبداللہ کی ہستی کا بہترین تصور، خواہ انہوں نے شیخ عبداللہ کے بارے میں کچھ بھی نہ پڑھ رکھا ہو، ایک مشکلات پیدا کرنے والے شخص اور بدترین تصور ایک غدار کا ہے۔ کس کاز کا غدار؟ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی پروا کرتا ہے۔ یہ حقیقت کہ کشمیریوں کے ایک غالب حصے نے، کم از کم لائن آف کنٹرول کے بھارتی جانب، انہیں لیڈر کے طور پر منتخب کیا تھا، یقیناً پاکستانی تصورات میں اتنا اہم مقام نہیں رکھتی۔
اسی لئے وہ کشمیری جو پاکستانی پالیسی پر چلتے ہیں اور انڈیا کے خلاف جہاد کرنے والوں کو ہیرو مانتے ہیں، ان کے لئے شیخ عبداللہ ایک تخیلاتی دھند میں لپٹی ہوئی تاریک شخصیت ہیں، ایک شریک کار، اعتماد کو دھوکہ دینے والا اور بالکل بھی ویسا نہیں جس نام سے دوسرے کشمیری انہیں یاد کرتے ہیں، یعنی کشمیر کا شیر۔
قومی تخیل کی اس قائم شدہ فضا میں نائلہ علی خان کی کتاب سامنے آتی ہے جو شیخ عبداللہ کے اپنے الفاظ پیش کرتی ہے، اور پاکستان میں موجود کسی بھی شخص کے لئے یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ شیخ عبداللہ کو ایک جیتی جاگتی تاریخی شخصیت کے طور پر دیکھ سکے۔ ایک ایسی شخصیت جس نے اپنے لوگوں کی پرخطر وقت میں قیادت کی اور جس کی کشمیریوں کے ساتھ وفاداری اور محبت کو جھٹلایا جانا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر ایسے پاکستانی یہ کتاب پڑھیں تو ممکن ہے کہ یہ علم نہ صرف انہیں اس مسخ شدہ اور غلط سمجھی جانے والی شخصیت بلکہ کشمیر کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں مختلف انداز میں سوچنے پر مجبور کر دے۔
نائلہ خان کے لئے یہ نہ تو ایک تقدیس آمیز پراجیکٹ ہے اور نہ ہی اپنے نانا کو ایک ذاتی خراج تحسین۔ یہ ایک پرمشقت ریسرچ ہے جو پڑھنے والے کے لئے شیخ عبداللہ کے اپنے الفاظ، تقاریر، انٹرویوز اور خطوط کی دریافت نو کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک ایسی تحریر ہے جو شیخ عبداللہ کے بارے میں دوسروں کے دہرائے گئے الفاظ بیان نہیں کرتی بلکہ بلکہ شیخ عبداللہ خود موت کے بعد اپنے ان بھولے بسرے الفاظ کی نشاندہی کرتے ہیں جو وہ پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ وہ لفظ جو ان کی ویڑن، کوشش، فتوحات اور غلطیوں، اور سب سے اہم یہ کہ ان کی کشمیر اور کشمیریوں سے محبت کی گواہی دیتے ہیں۔
جیسا کہ عنوان بتاتا ہے، شیخ عبداللہ اپنے بارے میں نہیں بتا رہے بلکہ یہ شیخ عبداللہ کے کشمیر کے بارے میں خیالات ہیں۔ اس جگہ کے بارے میں جو ان کی محبت اور زندگی بھر کی جدوجہد کا محور تھی اور جس کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ ڈوگرا راج میں یہ شیخ عبداللہ اور ان کے مسلم حقوق کے لئے کام کرنے والے نوجوان ساتھی تھے جنہوں نے فاتح کدال ریڈنگ روم پارٹی بنائی تھی اور جنہوں نے مختلف مطبوعات کے لئے مضامین لکھے تھے جن میں انہوں نے ڈوگرا راج کی مختلف من مانیوں اور متعصبانہ پالیسوں کے خلاف اظہار ناراضگی کیا تھا۔ یعنی شیخ رشید نے گویا اپنا نام تاریخ کے اس لمحے میں کندہ کر لیا جب ڈوگرا راج کے کشمیری مسلمانوں نے مسلم اکثریتی ریاست میں اپنے حقیقی مقام کے بارے میں فکرمند ہونا شروع کیا تھا۔
کتاب کو احتیاط سے پڑھنے والا یہ جان لے گا کہ کشمیریوں کی حمایت کا سیاسی دعوی رکھنے والی دو شخصیات میں سے شیخ عبداللہ کشمیری سیاست میں ایک توانا آواز بن کر ابھرے جبکہ ان کے مقابل یوسف شاہ نے ڈوگرا راج سے 600 روپے وظیفہ لیا اور وہ تاریخ کے کوڑے دان میں چلے گئے۔ جبکہ شیخ عبداللہ کشمیری مسلمانوں کے لئے اپنی بلند آہنگ اور طاقتور وکالت کے سبب کشمیری مسلمانوں کی سب سے طاقتور سیاسی آواز بنے۔
زیادہ تر پاکستانی ریڈرز کے لئے شیخ عبداللہ کا مہاراجہ کے حامی میر واعظ کے لئے چیلنج بالکل نیا انکشاف ہو گا۔ تقسیم کے بعد کی ہندوستان اور پاکستان کی فروعی تفریق میں شیخ عبداللہ کا کشمیری مسلم سیاسی شناخت کو فروغ دینا اور مقبول کرنا یا تو مٹا دیا گیا ہے یا خاموش کر دیا گیا ہے، کیونکہ اس مٹا دینے سے شیخ عبداللہ کو پاکستانی سیاسی تصور میں غدار دکھایا جا سکتا ہے۔
ایک مختصر ریویو میں اس کتاب کی اہمیت کو سمونا مشکل ہے۔ اس لئے میں اس کے کانٹینٹ پر مختصر بات کروں گا۔ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، شیخ عبداللہ کے خطوط، تقاریر اور ان کی زندگی کی اخباری کوریج۔ خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ شیخ عبداللہ کیا چاہتے تھے اور کشمیر کے لئے کیا جدوجہد کر رہے تھے، تقاریر سے ان کی مختلف حلقوں میں لسانی حکمت عملی، سیاسی عزائم اور دعووں کا پتہ چلتا ہے۔
اپنی اسیری کے تیسرے برس شیخ عبداللہ نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو خط لکھا جس میں انہوں نے بھارتی حکومت کے کشمیری ریاست کے بارے میں دعووں کی منافقت کو عیاں کرتے ہوئے لکھا: مارچ 1956 میں ہندوستان کے وزیراعظم نے کشمیر میں استصواب رائے کو خارج از امکان قرار دیا اور اس کی وجہ پاکستان کی سیٹو میں شمولیت، امریکی اسلحہ حاصل کرنا اور بغداد پیکٹ پر دستخط کرنا بتائی۔ اس دعوے کی نامعقولیت عیاں ہے۔ پاکستان جو بھی کرے یا نہ کرے، اس کی بنیاد پر کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے حق خود ارادیت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ کہ بھارتی وزیراعظم نے یہ اشارہ دیا کہ پاکستان کی حمایت میں ووٹ کی صورت میں انڈیا میں فرقہ واریت پھیل جائے گی جس کے نتیجے میں اس کی مسلم اقلیت کو خطرہ ہو گا۔ یہ دلیل بھی ناقابل دفاع ہے۔ کیا انڈیا کا سیکولرازم اتنا بودا ہے کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے سے ڈھے جائے گا؟ کیا کشمیریوں کو بھارتی مسلم اقلیت کے ساتھ اچھے سلوک کی ضمانت کے طور پر یرغمال بنا کر رکھا جائے گا؟
نوٹ کریں کہ اس اقتباس میں ہر لفظ کشمیر کے بارے میں شیخ عبداللہ کی کمٹمنٹ کا شاہد ہے۔ نوٹ کریں کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے، اور یہ چیز ہم پاکستانی کشمیر کے بارے میں ایک قدرتی پوزیشن سمجھ لیتے ہیں، لیکن وہ کشمیر کے حق خود ارادیت پر فوکس کر رہے ہیں۔
اسی طرح جیل سے رہائی کے بعد ایک تقریر میں انہوں نے کہا
انڈیا، پاکستان اور کشمیر کو مسئلہ حل کرنے کے لئے مل بیٹھ کر بات کرنا ہو گی، کیونکہ یہ مسئلہ جنگ کے ذریعے حل نہیں ہو گا۔ اگر پاکستان نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ انڈیا کو جنگ سے تباہ کر سکتا ہے تو وہ اب تک ایسے خیالات ترک کر چکا ہو گا۔ اسی طرح اگر انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو ختم کر سکتا ہے تو یہ بھی اسی طرح ایک حماقت ہے۔ جنگ کا نتیجہ ظاہر ہے اور ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔
لیکن اسی تقریر کے آخر میں انہوں نے کچھ ایسا کہا جو بیشتر پاکستانی پڑھنے والوں کے لئے تشویش ناک ہو گا۔
میں برسوں کی قید کے بعد آپ لوگوں سے ایک آزاد آدمی کی حیثیت سے خطاب کر رہا ہوں۔ اب جبکہ مجھے سے تمام پابندیاں ہٹائی جا چکی ہیں، میں اپنے بھائیوں سے یہ اپیل کر سکتا ہوں کہ وہ اپنے ملک کی خوشحالی کے لئے محنت کریں۔ انہیں انڈیا سے اپنے مادر وطن کے طور پر محبت کرنی چاہیے کیونکہ وہ یہاں پیدا ہوئے اور انہوں نے یہیں پرورش پائی۔ آئیے امید کریں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوبارہ جنگ نہ ہو کیونکہ یہ دونوں ممالک کی اقلیتوں کے لئے تباہ کن ہو گی۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ شیخ عبداللہ خود کو بھارتی شہری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تمام زندگی ان کی جدوجہد کا مقصد یہ نہیں رہا کہ کشمیر انڈیا یا پاکستان کا حصہ بن جائے، بلکہ یہ تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو اور اگر استصواب رائے نہیں ہوتا، تو وہ آزاد افراد کی حیثیت سے مکمل شہری حقوق کے ساتھ انڈیا کی مقامی اور قومی سیاست اور سوشل لائف میں حصہ لیں۔
شیخ عبداللہ سے یہ توقع کرنا کہ وہ کشمیریوں کے لیڈر لیکن پاکستان کے ترجمان ہوں گے، جیسا کہ بیشتر پاکستانی کیا کرتے تھے اور کرتے ہیں، نہ صرف یہ کہ ایک غلط خیال ہے بلکہ یہ پوزیشن اختیار کرنا ان کے لئے ناممکن تھا، خاص طور پر اگر وہ کشمیریوں کے حقوق کی انڈین سیاسی نظام میں رہتے ہوئے حفاظت کرنے میں حقیقی دلچسپی رکھتے، اور میری رائے میں وہ یہ دلچسپی رکھتے تھے۔
ہم شیخ عبداللہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایک سخت گیر اینٹی انڈیا اور واشگاف انداز کے پرو پاکستان ہوں۔ اور یہ توقع، میں یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں، ایک ایسی قوم کے شہریوں کی ہے جس کے اپنے بانی محمد علی جناح نے برطانیہ سے ایک ملک حاصل کرنے میں کامیابی اس وجہ سے حاصل نہیں کی تھی کہ وہ سبھاش چندر بوس سے زیادہ جنگجو تھے یا گاندھی کی طرح کھلے عام اینٹی برٹش تھے، بلکہ اس لئے کامیاب ہوئے تھے کہ وہ اپنے ہندو یا مسلم مخالفین کے خلاف انگریزوں کو استعمال کرنے میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے تھے۔
جناح کے معاملے میں ان کے انگریزوں کو رجھا کر برطانوی طاقت کو پہلے مسلم لیگ کے مخالفین اور بعد میں انڈین نیشنل کانگریس کو تنہا کرنے کی صلاحیت کی تعریف کی جاتی ہے اور اسے پسند کیا جاتا ہے۔ لیکن جب بات شیخ عبداللہ جیسے لیڈروں کی ہو تو پاکستانی تخیل میں ان کی عملیت پسندی بڑھ کر کشمیری کاز سے غداری بن جاتی ہے۔
اس کتاب کا ایک پرغور مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ شیخ عبداللہ نے اپنی سیاسی جدوجہد میں وہی کیا جو مسٹر جناح نے کیا، لیکن جب معاملہ ان کا آیا جو کشمیریوں کے حق رائے دہی کو ختم کرنا چاہتے تھے، تو وہ بالکل مسٹر جناح ہی کی طرح واضح ذہن رکھتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ شیخ عبداللہ کے پاکستان امنگوں کے خلاف تاریخی کردار ادا کرنے کو ہم پسند نہ کریں لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کشمیریوں کے لئے وہ پچھلی صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیت تھے اور ہیں۔
نائلہ علی خان نے کشمیریوں، ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی بڑی خدمت کی ہے کہ وہ شیخ عبداللہ اور ان کے ہم عصروں کے اپنے الفاظ سامنے لائی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جو بھی کھلے ذہن کے ساتھ یہ کتاب پڑھے گا وہ شیخ عبداللہ کی کشمیریوں اور ان کے کاز کے لئے بہت بڑی خدمات کو تسلیم کرے گا اور ہمیں نائلہ علی خان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے بجا طور پر شیرِ کشمیر کہلانے والے شیخ عبداللہ کے الفاظ، خواہشات اور خیالات سے ہمیں آگاہ کیا۔
(بشکریہ پاکستانیات – جرنل آف پاکستان سٹڈیز)