2019 عام انتخابات: دستور کے بقا کی جنگ 

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم 

معمارانِ دستور نے ہندوستان کا آئین بہت سوچ سمجھ کر تشکیل دیا، مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے ایک جامع آئین بنایا جس میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیئے گئے، ملک کو جمہوری اور سیکولر قرار دیا، تمام شہریوں کیلئے آزادی، انصاف، مساوات اور تحفظ کو یقینی بنایا۔ آئین کی یہ بنیادیں مستحکم اور مضبوط ہیں۔ اس میں تمام شہریوں او رتمام طبقات کو یکساں حقوق دئے گئے ہیں۔ ان بنیادوں پر ہندوستان کو دنیا بھر میں ایک شناخت ملی۔ سیکولر اسٹیٹ ہونے کی حیثیت سے دنیا بھر میں اس کا ایک اہم مقام ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی رفتہ رفتہ اسی انداز کا آئین اپنے یہاں اپنایا ہے۔ عالمی ماہرین اور قانون دانوں کو یہ انداز ہ ہے کہ جمہوری نظام مملکت ہی آج کے دور میں بہتر ہے جس کا مستقبل روشن ہے۔ جس میں عوام کے پاس رہنما کے انتخاب کا اختیار ہوتا ہے۔ ناپسندیدہ حکومت سے نجات حاصل کرنے کا آپشن رہتا ہے۔

ہندوستان کا آئین جن لوگوں نے تشکیل دیا تھا جنہوں نے قانون سازی کی تھی ان کی دور اندیشی قابلِ ستائش اور لائق تعریف ہے۔ ان کی خوبیوں کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے۔انہیں اندازہ تھا کہ ہندوستان میں اونچ نیچ ہے۔ ذات اور قبائل کے نظام میں یہاں کا سماج جکڑا ہوا ہے، مختلف مذاہب اور گروہ کے لوگ یہاں بستے ہیں۔ ایسے میں ان سب کی ترقی، سبھی کی بہتری اور تمام طبقات و گروہ کی بلندی کیلئے ایسا آئین ضروری ہے جس میں یکسانیت ہو، برابری ہواور سبھی کو ایک جیسے حقوق حاصل ہوں۔ یہی اس ملک کی اور یہاں کی جمہوریت کی خصوصیت ہے۔ ہر پانچ سال پر عوام کو اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ الیکشن کا انعقاد کرکے عوام کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے، ملک کی کامیابی اور ترقی کیلئے سوچنا ہے۔ ایسے لوگوں کو اقتدار تک پہنچانا ہے جن کی ذات میں خوبیاں اور صلاحیت ہے۔ جو ملک کی ترقی کرسکتے ہیں۔ جنہیں ملک کے فلاح و بہبود سے محبت ہے۔ ان لوگوں سے نجات پانے کا بھی موقع ملتا ہے جنہیں انتخاب کرنے اور ووٹ دینے کے بعد دھوکہ ملتا ہے۔ جن پر اعتماد کرنے کے بعد ٹھیس پہونچتا ہے۔ جو لمبے چوڑے وعدے کرکے عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کرتے ہیں۔

جمہوری نظام کی کامیابی،اسے مضبوط بنانے اور عوام کی مکمل شرکت کیلئے ضرروی ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہو۔عوام کو اظہار رائے کی آزادی کا مکمل حق ہو۔ آزادانہ ماحول میں انتخابات کرائے جائیں۔ آئینی اداروں کو مکمل طور پر محفوظ رکھاجائے۔ ان کے حقوق واختیارات کے ساتھ کسی بھی طرح چھیڑ چھاڑ نہ کیا جائے۔ الیکشن کمیشن، سی بی آئی، عدلیہ، آر بی آئی، انتظامیہ اور اس جیسے اداروں کو آئین میں جو حقوق ملے ہوئے ہیں، انہیں جو خود مختاری حاصل ہے وہ حکومت کی دسترس سے باہر ہوں، ان اداروں پر حکومت ذرہ برابر کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ان کی آزادی مکمل طور پر محفوظ رکھی جائے تبھی جمہوریت کے تقاضے پورے ہوں گے۔ حکومت میں عوام کی شرکت ہوگی۔ سرکار کے انتخاب میں عوام کا صحیح رول سامنے آئے گا۔

جمہوری اقدار، آئینی اداروں کی اہمیت، اس کی خود مختاری اور آزادی کے پیش نظر یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا 2019 کے عام انتخابات کے دوران ان تمام اداروں کی آئینی حیثیت اور خود مختاری باقی رہے گی؟ انہیں آئین میں حاصل شدہ دستور کی پالیسی کے مطابق حکومت کام کرنے دے گی؟آزادانہ ماحول میں انتخاب ہوسکے گا؟۔ عوام کو اندیشہ اور خدشہ ہے کہ یہ ادارے آزادانہ ماحول میں کام نہیں کرسکیں گے۔ انہیں جو اختیارات حاصل ہیں حکومت اس پر قدغن لگا دے گی۔ آئینی اداروں کو انہیں حاصل شدہ اختیارات او ر حقوق کے مطابق کام کرنے سے روکا جائے گا۔ ان اداروں کو غلط استعمال کرکے موجودہ حکومت ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کرے گی۔ یہ شکو ک و شبہات بلاوجہ نہیں ہیں بلکہ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران جس طرح سپریم کورٹ آف انڈیا، سی بی آئی، آر بی آئی اور الیکشن کمیشن کے اختیار ات سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان اداروں کو ان کے اختیارات پر عمل کرنے سے روکا گیاہے۔ حکومت نے ان میں واضح طور پر مداخلت کی ہے اس کی بنیاد پر یہ سوال اٹھنا یقینی ہے کہ کیا واقعی 2019 کا عام انتخاب صاف و شفاف ماحول میں منعقد ہوپائے گا۔ حکومت کے تصرف سے آزاد رہے گا؟ بی جے پی حکومت ان اداروں کو حاصل آئینی حقوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گی؟۔ پانچ سالوں کے دوران نظم و نسق پر بھی حکومت کوئی توجہ نہیں دی، مذکورہ اداروں کے ساتھ پولیس اور انتظامیہ کا کردار بھی مشکو ک رہاہے۔ماب لنچنگ، عصمت دری، قتل، فساد اور اس جیسے کرائم میں ملوث افراد کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی گئی، پس پردہ انہیں بچانے کی کوشش کی گئی، عام لوگوں کا خیال یہ ہے کہ حکومت نے ایسے لوگوں کو بچانے کی کوشش اس لئے بھی کی کیوں کہ ان میں بیشتر بی جے پی اور سنگھ سے وابستہ افراد تھے، منووادی ا تنظیموں کے عناصر اس میں ملوث تھے اس لئے انہیں بچانے کیلئے انتظامیہ کا بھی حکومت نے استعمال کیا۔

ایسے مجرموں اور شدت پسند عناصر کے خلاف کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے عوام میں بے چینی ہے، خوف کا ماحول ہے انہیں اندیشہ ہے یہ لوگ انتخابات کے زمانہ میں غنڈہ گردی کریں گے۔ مخصوص پارٹیوں کو ووٹ دینے کیلئے دباؤ ڈالیں گے۔ دھمکی بھرے اندا ز میں کہیں گے کہ فلاں پارٹی کو ووٹ کرنا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں مختلف طرح کی سنگین دھمکیاں دی جائیں گی، خوف کا یہ ماحول اس لئے قائم ہوگا کہ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کاروا ئی نہیں کی گئی ہے، انہیں ان کے کرتوتوں کی سزا نہیں دی گئی ہے۔ زیادہ تر ایسے لوگ بے روزگا ر بھی ہیں اس لئے انہیں مصروف رکھنے،ان کی حمایت حاصل کرنے اور مخالفت سے بچنے کیلئے بھی موجودہ بی جے پی حکومت ایسے افراد کا استعمال کرے گی۔ اور جب ماحول خوف زدہ ہوگا۔ رائے دہندگان کے درمیان دہشت قائم ہوگی۔ انہیں اپنی جان کی پرواہ ہوگی تو پھر یہ کہنا مشکل ہے کہ رائے دہندگان اپنی مرضی اور آزادی کے مطابق ووٹ کا استعمال کرسکیں گے۔ اپنی پسندیدہ حکومت چننے کی کوشش کریں گے۔

سچائی یہی ہے کہ عوام کا احساس ہر دن گہر ا ہوتا جارہا ہے کہ 2019 کا الیکشن صاف ماحول میں نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن حاصل شدہ تمام حقوق و اختیارات کو استعمال نہیں کرسکے گا، اس پر مختلف طرح سے دباؤ ڈالا جائے گا۔ دوسری طرف ای وی ایم کا مسئلہ ہے اگر یہ مشین کسی خاص پارٹی کیلئے سپورٹ فراہم کرے گی تو عوام کا جوش و خروش مزید کم ہوجائے گا۔ جمہوریت کی مضبوطی اور پسندیدہ حکومت کے انتخاب میں ان کی دلچسپی باقی نہیں رہ پائے گی۔ خاص طور پر 2014 کے بعد جس طرح سلسلہ وار ای وی ایم کو ہیک کرنے اور مخصوص پارٹیوں کیلئے استعمال کرنے کی خبریں آرہی ہیں، انکشافات ہورہے ہیں اس کے باوجود اس پر آنکھ بند کرکے کیا بھروسہ کیا جاسکتا ہے ؟۔ کیا تمام ترحقائق، اندیشے اور خدشات کے باوجود الیکشن کمیشن ای وی ایم سے ہی الیکشن کرانے پر بضد ہونا چاہیئے ۔

ایسی نازک صورت حال میں کیا یہ ممکن ہے ستر سالہ تجربہ رکھنے والے خوف زدہ ہوکر آئین کے مقدمات کو پال مال کرنے والی طاقتوں کے سامنے جھک جائیں گے؟۔ بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھروں میں محدود ہوجائیں گے؟۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اپنی بے بسی کے نتیجے میں آنے والی نسلوں کو اندھیرے میں چھوڑ دیں گے؟۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے کی کوشش نہیں کریں گے؟۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جس ملک نے آزادی کے بعد سائنس، ٹیکنالوجی اور علم میں ترقی کی ہے وہ اندھیر کا راستہ اختیار کرلے؟۔ کیا یہ ممکن ہے جس ملک کے عوام نے اپنے طاقتور دشمن برٹش حکومت کا مل جل کر مقابلہ کیا تھا وہ اب دستور کو بچانے کیلئے متحدہ کردارنہیں نبھائیں گے؟۔ ستر سالوں سے عوام کا یہاں کی عدلیہ پر بھروسہ ہے، ہر نازک وقت میں عدلیہ اپنا فرض ادا کرتی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ 2019 کے عام انتخابات کو عدلیہ نظر انداز کردے ؟۔

یہاں کی عوام اندھی، بہری اور گونگی نہیں ہے۔ انہیں سیاسی شعور حاصل ہے۔تاریخ پر ان کی نگاہ ہے۔ وہ حساس طبیعت کے مالک اور اونچی دماغ رکھتے ہیں۔ ان کے افکار وخیالات بلند او روسیع ہیں۔ تجربات بتارہے ہیں کہ ہندوستانی عوام عقل و فراست کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔ تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ یہاں کی عوام کبھی متأثر نہیں ہوئے۔ میڈیا کی ہنگامہ آرائی، غلط پیرو پیگنڈہ اور یکطرفہ سروے رپوٹ بھی یہاں کی عوام کو متأثر نہیں کرسکی ہے۔ اس لئے ملک کے عوام بالخصوص نوجوان رائے دہندگان 2019 کے الیکشن میں بھی حساسیت، زندہ دلی اور بیداری کا مکمل ثبوت پیش کریں گے۔ 60 فیصد نمائندگی ہونے کی وجہ سے نوجوان اپنا بھر پور کردار نبھائیں گے۔ مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے، ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اپنی ضمیر کو اندھے بہرے اور گونگے کی صفت سے متأثر ہوئے بیر دستور نے جو حق دیاہے اس کا بھر پور استعمال کریں گے اوران طاقتوں کو شکست دوچار کریں گے جن سے ملک کے آئین دستور اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔

(مضمون نگار معرو ف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں