نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
نفرت ،فرقہ پرستی ،کرپشن ،بدعنوانی ،ظلم وزیادتی ،عصمت دری ، عدم تحفظ ،غنڈہ گردی ،کمزوروں کے ساتھ زیادتی ،غریبوں کی حق تلفی ،بے روزگاری ،ناانصافی اور عدم مساوات ہندوستان کی اب شناخت بن گئی ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران ملک کی تصویر یکسر بدل گئی ہے ۔ترقی اور فلاح وبہبود کی جگہ نفرت ،فرقہ پرستی ،کرپشن ،بے روزگاری ،عدم تحفظ اور عصمت دری کے واقعات نے لے لی ہے۔ کئی معاملوں میں ملک کا سابقہ ریکاڈ ٹوٹ گیاہے اور ایسالگتاہے کہ ہندوستان کئی سوسال پیچھے چلاگیاہے ۔
نفرت کو سب سے زیادہ فروغ ملا ہے ۔ این ڈی ٹی وی انڈیا اور دیگر میڈیا ہاؤسزکی رپوٹ کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں کے دوران نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقاریر میں 500 فیصد کا اضافہ ہواہے اور اس میں بی جے پی کے وزیر ،ایم پی ،ایم ایل اے ،وزیر اعلی اور دیگر اعلی حکام ملوث ہیں ۔ نفرت آمیز بیانات کیلئے عوامی ریلی ،ٹی وی چینلزاور اخبارات کے ساتھ سب سے زیادہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کا استعمال کیاگیاہے ۔ایک جائزہ کے مطابق 2014 سے اب تک 45 اہم لیڈروں کے طرف سے 120 اشتعال انگیزبیانات سامنے آئے ہیں جبکہ یوپی اے کے پورے دس سالہ دورحکومت میں اہم لیڈروں کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات کے واقعات صرف 21 ہیں اور اس میں بھی کانگریسی رہنما صرف 10 فیصد ہی شامل تھے بقیہ دوسرے تھے۔ مطلب یہ کہ 2014 کے بعداد یہ تعداد 490 فیصد بڑھی ہوئی ہے ۔دوسرے درجے کے لیڈروں کے بیانات ناقابل شمار ہیں ۔
گذشتہ پانچ سالوں میں کرپشن کے واقعات میں بھی پنے پناہ اضافہ ہواہے ۔ عوام کا مانناہے کہ 2014 میں کرپشن کی وجہ سے کانگریس کو شکست کا سامنا کرناپڑاتھا لیکن بی جے پی اس کے مقابلے میں بہت زیادہ کرپٹ پارٹی ثابت ہورہی ہے ، متعدد معاملوں میں گھوٹالہ سامنے بھی آچکاہے ۔ رافیل ڈیل سر فہرست ہے جس میں جہاز کی تعداد 36 ہوگئی ہے لیکن قیمت تین گنی بڑھی ہوئی ہے ۔ سرکاری کمپنی سے ٹھیکہ لیکر ایک نوزائیداہ پرائیوٹ کمپنی کو یہ کام سرکار نے سونپ رکھاہے ۔ کالادھن ختم کرنے کا وعدہ ہواتھا لیکن رفتہ رفتہ ایسے تمام لوگوں کو حکومت نے ملک سے بھگانے میں مدد کی ۔ للت مودی ، وجے مالیا ،میکسی سمیت کئی تاجر ملک کے بینکوں کا کڑوروں روپیہ لیکر فرار ہیں اور سرکار انہیں واپس لانے کیلئے موثر اقدام نہیں کررہی ہے ۔
گذشتہ پانچ سالوں کے دوران خواتین کے خلاف کرائم میں بھی ریکارڈ ٹوڑ اضافہ ہواہے ۔نیشنل کرائم بیورو کے مطابق ہر گھنٹہ میں خواتین کے خلاف کرائم کے 39 واقعات سامنے آتے ہیں جس میں 33 فیصد عصمت دری سے متعلق ہوتے ہیں ۔2012 میں خواتین کے خلاف کرائم کی شرح 28 فیصد تھی جو 2014 میں بڑھ کر 39 فیصد ہوگئی اور بڑھنے کا سلسلہ اس کے بعد مسلسل جاری ہے۔ خواتین کے خلاف ریپ اور کرائم کے سب سے زیادہ واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ اتر پردیش ایسی ریاستوں میں سر فہرست ہے جہاں آدتیہ ناتھ یوگی کے وزیر اعلی بننے کے بعد ریپ کے واقعات میں 26 فیصد کا اضافہ ہواہے ۔
لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ بھی موجودہ حکومت میں تشویش ناک رہاہے ۔غنڈہ گردی ،قتل اور ماب لنچنگ کے واقعات بھی تسلسل کے ساتھ پیش آئے ہیں ۔انڈیا اسپینڈ اور دیگر ایجنسیوں کی رپوٹس کے مطابق 2014 کے بعد اب تک صرف ماب لنچنگ کے100 سے زائد واقعات پیش آئے ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ ، غنڈہ گردی اور دیگر واقعات کی فہرست اس کے علاوہ ہیں ۔ رپوٹ میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ ایسے تمام واقعات میں بی جے پی اوراس سے وابستہ شدت پسند ہندتواتنظیمیں اور اس کے کارکنان ملوث ہوتے ہیں ۔حال ہی میں وی ایچ پی نے مہاتماگاندھی کو مارنے کی پریکٹس کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے اس کیلئے آئیڈیل ناتھور رام گوڈسے ہے ۔ مہاتماگاندھی اور ان کے نظریات پر شدت پسندہندتوا تنظیموں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ملک کی پولیس اور انتظامیہ ایسے مجرموں کے خلاف بھی خاموش رہتی ہے اور سخت کاروائی سے گریز کرتی ہے ۔گذشتہ پانچ سالوں میں ایک بھی ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے جس میں حکومت کی طرف کسی بھی ایسے مجرم کے خلاف سخت کاروائی کی گئی ہے یا چارج شیٹ داخل کی گئی ہے ۔
گذشتہ پانچ سالوں کی رپوٹ یہی بتاتی ہے کہ مودی سرکار نے اپنی سرپرستی میں نفرت ،فرقہ پرستی او راشتعال انگیزی کو پروان چڑھایاہے اور 2019 کا الیکشن جیتنے کیلئے وہ اسی نفرت آمیز مہم کا سہارا لیکر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی ۔جس طرح نفرت کا زہر سماج میں گھولاگیاہے ،ٹی وی چینلز ،میڈیا اور عوامی رابطہ کے ذریعہ آر ایس ایس یہاں کے عوام کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کی ہے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ملک میں ایک مرتبہ پھر ہندومسلمان کی لڑائی کرانے کی منصوبہ بندی پر عمل کیا جارہاہے ۔ہندو ووٹ حاصل کرنے ،انہیں لبھانے اور خود کو ہندتوا کا ترجمان بتانے کیلئے بی جے پی بڑے پیمانے پر ایسی سازش رچنے سے باز نہیں آئے گی ۔
گذشتہ پانچ سالوں کے دوران بی جے پی کا جس طرح کردار سامنے آیاہے اس کے مطابق متعدد مرتبہ ہم نے اپنے اسی کالم میں لکھاہے کہ 2019کاالیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی کسی بھی حدتک جاسکتی ہے ضرورت پڑی تو وہ فساد کرانے سے بھی گریز نہیں کرے گی ۔بی جے پی کے پاس شرپسندوں کی ایک بڑی ٹیم بھی ہے جس سے جب چاہے گی وہ سب کراکر اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش کرے گی ۔ اب امریکہ کی ایک ایجنسی نے بھی اس خدشہ پر مہر لگادیاہے ۔امریکہ کی اعلی سطح جانچ ایجنسی کا مانناہے کہ 2019 کے الیکشن کے پیش نظر اگر بی جے پی ہندتوا کے ایجنڈا کو اپنائے گی تو ہندوستان میں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوسکتاہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ بی جے پی سرکار نے اپنا وعدہ پور اکرنے او رانتخابی ایجنڈا میں کی گئی باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے نفرت آمیز سیاست ،اشتعال انگیز تقاریر ،کرپشن ،عصمت دری ،جرائم اور بے روزگاری کو بڑھانے کام کاکیاہے ۔ انفرادی آزادی سلب کرنے کی کوشش ہے اور غریبوں کی حق تلفی کی گئی ہے ۔
2019 کا عام انتخاب جیتنے کی بی جے پی پور ی کوشش کی کرے گی ۔پوری طاقت جھونک دے گی ،مذہب ،آستھا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیان کا سہارا لے گی ۔ان ہی چیزوں کو ہتھیار بناکر بی جے پی ہندو ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی اب یہ فیصلہ یہاں کی عوام کو کرناہے ۔ انہیں اپنے عقل وشعور کا استعمال کرناہے ۔ 2019 کے الیکشن میں ہندوستانی عوام کے عقل وفراست کا بھی امتحان ہے ۔ان کے شعوری او رسیاسی بیداری کی ترجیحات بھی سامنے آئے گی کہ ہندوستانی عوام کی سوچ کیاہے ۔انہیں کن لوگوں کو اقتدار تک پہونچانے میں دلچسپی ہے ۔ گوڈسے کو ماننے والے ان کے پسندیدہ لیڈر ہیں یا گاندھی کے نظریہ پر یقین رکھنے والے ان کے آئیڈیل ہیں ۔ترقیاتی اور فلاح وبہبود کا کام کرنے والے وہ اپنا حکمراں منتخب کرتے ہیں یا پھر دوبارہ اسی کو اقتدار سونپیں گے جنہوں نے پانچ سالوں میں ملک کو ہر محاذ پر نقصان پہونچایاہے اور ان کا اگلاہدف آئین تبدیل کرکے ہندوستان کے عوام کو حاصل شدہ آزادی ،مساوات ،انصاف اور تحفظ کا حق چھینناہے ۔ہندوستان کی عوام ذی شعور ہے اس لئے یہی امید رکھنی چاہیئے کہ عوام اس مربتہ دھوکہ نہیں کھائیں گے ۔چکنی چپڑی باتوں کا شکا ر نہیں ہوں گے ۔مکمل عقل مند ی ،ذہانت ،فراست اور دانشمندی سے کام لیں گے ۔
(مضمون نگارمعروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)